اھل بیت اور ترویج اذان كی كیفیت

اھل بیت اور ترویج اذان كی كیفیت

جب ھم اذان كی مشروعیت كے بارے میں اھل بیت علیھم السلام كی روایتوں كو دیكھتے ھیں تو وہ مقام و منزلت نبوت سے سازگار نظر آتی ھیں۔ جب كہ گذشتہ احادیث، مقام رسالت سے میل نھیں كھاتی تھیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: “جب جبرئیل علیہ السلام اذان لے كر نازل ھوئے تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا سر اقدس علی علیہ السلام كی آغوش میں تھا۔ جبرئیل نے اذان اور اقامت كھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوجہ ھوئے تو امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا: “اے علی (ع)! تم نے سنا؟ آپ نے فرمایا: جی ھاں، یا رسول اللہ! رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: كیا تم نے حفظ كرلیا؟ فرمایا: جی ھاں۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلال (رض) كو بلاؤ اور ان كو سكھاؤ۔ آپ نے بلال (رض) كو بلایا اور اذان و اقامت كی تعلیم دی۔” 37

مذكورہ روایت اور وسائل الشیعہ كی پھلی روایت (عن ابی جعفر علیہ السلام قال لما اسری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی السماء فبلغ البیت المعمور و حضرت الصلاة فاذن جبرئیل علیہ السلام واقام فتقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصف الملائكة والنبیون خلف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 38 میں اختلاف صرف یہ ھے كہ پھلی روایت میں جبرئیل علیہ السلام نافلہ بجا لانا چاھتے تھے لیكن دوسری روایت كے مطابق جبرئیل علیہ السلام نافلہ، رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان كرنا چاھتے تھے۔ اسی لئے ھم دیكھتے ھیں كہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا كہ بلال كو بلاؤ اور اذان و اقامت كی تعلیم دو۔

اس نظریہ كی تائید وہ روایتیں بھی كرتی ھیں جن كو عسقلانی نے ذكر كیا ھے۔ اور ان كی سندوں كے بارے میں مناقشہ كیا ھے۔ وہ كھتا ھے: ان احادیث كے مطابق، اذان مكہ میں ھجرت سے پھلے شروع ھوئی۔ انھیں روایتوں میں سے طبرانی كی روایت بھی ھے جو سالم بن عبداللہ بن عمر بن ابیہ كی سند سے مروی ھے۔ انھوں نے كھا: جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو معراج ھوئی تو خدا نے آپ (ص) پر كلمات اذان كی وحی كی۔ جب آپ (ص) معراج سے واپس آئے تو بلال كو اس كی تعلیم دی۔ اس كی سند میں طلحہ بن زید ھے جو كہ متروك ھے۔ وہ روایات جنھیں عسقلانی نے نقل كیا ھے، اذان كی تشریع كے سلسلہ میں اھل بیت علیھم السلام كے موقف (نظریہ) كے صحیح ھونے اور اذان كی بنیاد عبداللہ بن زید یا عمر بن خطاب كے خواب كو قرار دیئے جانے كے نادرست ھونے پر دلالت كرتی ھیں۔ جیسا كہ چھٹے امام علیہ السلام سے روایت ھے كہ آپ (ع) نے ان لوگوں پر لعنت كی ھے جو یہ خیال كرتے ھیں كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان عبداللہ بن زید سے لی۔ آپ (ع) نے فرمایا كہ وحی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ھوتی تھی پھر بھی تم یہ گمان كرتے ھوكہ آپ (ص) نے اذان كو عبداللہ بن زید سے لیا ھے؟ 39

الف) عسقلانی نے بزار كے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت كی ھے كہ آپ (ع) نے فرمایا: جس وقت خداوند عالم نے یہ ارادہ كیا كہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو اذان كی تعلیم دے تو جناب جبرئیل علیہ السلام ایك سواری كے ذریعہ آپ (ص) كے پاس آئے، جس كو براق كھا جاتا ھے۔ آپ (ص) اس پر سوار ھوئے… ۔ 40

ب) ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے حدیث معراج كے سلسلہ میں روایت ھے كہ … پھر آپ نے جبرئیل علیہ السلام كو حكم دیا اور انھوں نے اذان اقامت كھی۔ اور اذان میں “حی علٰی خیر العمل” پڑھا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے اور قوم كے ساتھ نماز پڑھی۔ 41

ج) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو معراج ھوئی اور اذان كا وقت ھوا تو جناب جبرئیل علیہ السلام نے اذان كھی۔ 42

د) عبد الرزاق نے معمر سے، انھوں نے ابن حماد سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے اپنے دادا سے اور انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث معراج كے سلسلہ میں روایت كی ھے كہ… پھر جبرئیل كھڑے ھوئے اور اپنے داھنے ھاتھ كی انگشت شھادت كو اپنے كان پر ركھ كر دو دو فقرے كر كے اذان كھی۔ آخر میں دوبار “حی علیٰ خیر العمل” كھا۔ 43

——————————————————————————–

4. السنن، ابو داؤد: 1/ 134، حدیث نمبر 498 و 499

5. آپ پر خدا كا بھت بڑا فضل ھے۔ (سورۂ نساء: 113)

6. اور آپ كو ان تمام باتوں كا علم دے دیا ھے جن كا علم نہ تھا۔ (سورۂ نساء: 113)

7. سورۂ آل عمران: 159

8. فتح الباری، ابن حجر: ج/2، ص181، دار المعرفہ

9. السنن، بیھقی: 1/ 608

10. السیرة النبویہ؛ حلبی: 2/ 95

11. صحیح بخاری: 1/ 306، باب اذان كی ابتداء، مطبع: دار القلم لبنان۔

12. النص و الاجتھاد، شرف الدین عاملی: ص 200، مطبع: اسوہ

13. تھذیب التھذیب، ابن حجر: 13/ 88، حدیث نمبر: 867

14. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 24/ 304

15. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 24/ 423، اس كے علاوہ ملاحظہ ھو تاریخ بغداد: 1/ 321، 224

16. السنن، ترمذی: 1/ 361۔ تھذیب التھذیب، ابن حجر: 5/ 224

17. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 14/ 541، مطبع: موسسہ رسالت

18. مستدرك الحاكم، حاكم نبشابوری: 3/ 336

19. وہ فرقہ جو تقدیر كا منكر ھے اور ھر شخص كے مختار ھونے كا قائل ھے۔ المنجد اردو، ص/782 (مترجم).

20. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 16/ 515، حدیث نمبر: 3755

21. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 25/ 138، حدیث نمبر: 5177

22. نیل الاوطار، الشوكانی: 2/ 42

23. المسند، امام احمد: 4/ 632، 633، حدیث نمبر: 16041، 16042، 16043۔

24. میزان الاعتدال، ذھبی: 2/ 100، حدیث نمبر: 2997

25. السنن، دارمی: 1/ 287، باب: بدء اذان (اذان كی ابتدا).

26. الموطاء، ابن مالك: 44، باب: نماز كے لئے صدا دینے كے بارے میں۔ حدیث نمبر: 1

27. سیر اعلام النبلاء، ذھبی 5/ 468، حدیث نمبر: 213

28. طبقات الكبریٰ، ابن سعد: 1/ 246، 247

29. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 27/ 508، حدیث نمبر: 5925

30. تھذیب الكمال، جمال الدین المزی 26/ 429، 440

32. السنن، بیھقی: 1/ 575، حدیث نمبر: 1837

33. السنن، دارقطنی: 1/ 245، حدیث نمبر: 57

34. میزان الاعتدال، ذھبی 3/ 647، حدیث نمبر: 8017، 8018۔ تھذیب الكمال، جمال الدین المزی: 26/ 220، حدیث نمبر: 5516۔ تھذیب التھذیب، ابن حجر: 9/378 ، حدیث نمبر: 620، مطبع: دار صادر۔

35. السنن، دارقطنی: 1/ 242، حدیث نمبر: 31

36. السنن، دارقطنی: 1/ 242، حدیث نمبر: 31

37. وسائل الشیعہ، حر عاملی: 4/ 612، باب اذان و اقامت، حدیث نمبر: 2

38. وسائل الشیعہ، حر عاملی: 5/ 369، ابواب الاذان والاقامة، حدیث نمبر: 1 مترجم

39. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ج4، ابواب الاذان والاقامہ، حدیث نمبر /3

40. فتح الباری فی شرح البخاری: 2/ 87، مطبع: دار المعرفہ لبنان

41. وسائل الشیعہ، حر عاملی: ج4، باب اذان و اقامت، باب /9، ص/3

42. مصدر سابق، ج10

43. سعد السعود: 100، بحار الانوار: 81/ 107، جامع الاحادیث الشیعہ: ج/2، ص221

تبصرے
Loading...