امیر عبد اللہ كو پھانسی

امیر عبد اللہ كو پھانسی

اس كے بعد محمد علی پاشا نے امیر عبد اللہ كو اسلامبول كے لئے روانہ كردیا وھاں اس كو اور اس كے ساتھیوں كو بازار میں گھما كر باب ھمایوں (بادشاہ كا محل) كے سامنے پھانسی پر لٹكادیاگیا اور اس كے ساتھیوں كو شھر اسلامبول كے دوسرے علاقوں میں پھانسی دیدی گئی۔

شھر درعیہ كی بربادی اور آل سعود اور آل شیخ كی مصر كی طرف جلا وطنی

جس وقت دونوں طرف سے جنگ هورھی تھی خصوصاً جس وقت درعیہ شھر كو گھیر كر اس پر قبضہ كرلیا گیا اسی وقت خاندان سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوھاب كے بعض لوگوں كو قتل كردیا گیا یا ان كو پھانسی دیدی گئی، انھیں میں سے شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ محمد بن عبد الوھاب تھے جس وقت ابراھیم پاشا نے اھل درعیہ سے مصالحت كی تو اس كو ڈراتے هوئے لایا گیا تاكہ اس كی توھین بھی هوجائے اس كے سامنے” رباب “نامی موسیقی بجوائی گئی اور اس كے بعد اس كو قتل كردیا گیا۔

ابراھیم پاشا تقریباً نو مھینے تك درعیہ میں رھے اور اس مدت میں حكم دیا كہ تمام آل سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوھاب كو مصر میں جلاوطن كركے بھیج دیا جائے، او راس كے حكم كے مطابق ان دونوں خاندان كے افراد عورتوں اور بچوں سمیت تمام تر حفاظت كے ساتھ مصر روانہ كردئے گئے۔

ماہ شعبان 1234ھ میں محمد علی پاشا نے ابراھیم پاشا كو ایك خط میںدرعیہ شھر كو بالكل نیست ونابود كردئے جانے اور بالكل زمین سے ھموار كرنے كا حكم دیدیا۔

ابراھیم پاشا نے اھل شھر كو شھر خالی كرنے كا حكم دیا، اور اس كے بعد ابراھیم پاشا كے سپاھیوں نے حكومتی محل اور دیگر لوگوں كے گھروں اور كجھور كے درختوں كو نیست ونابود كرنا شروع كیا،یھی نھیں بلكہ جن كو خالی نھیں كیا گیا تھا ان مكانوں كو بھی گرادیتے تھے، باغات كو كاٹ ڈالا، گھروں میں آگ لگادی، خلاصہ یہ كہ شھر درعیہ زمین كا ایك ڈھیر دكھائی دیتا تھا۔

ابراھیم پاشا نے درعیہ شھر كے علاوہ نجد كے دوسرے علاقوں میں موجود تمام قلعوں اور مستحكم عمارتوں كو گرانے كے لئے ایك لشكر منتخب كیا اور انھیں حملوں كے درمیان ایك نجدی نے ابراھیم پاشا پر حملہ كردیااور ایك خنجر كے ذریعہ اس پر وار كیا لیكن یہ خنجر اس كے كپڑوں اور گھوڑے كی زین میں گھس كر رہ گیا اور خود ابراھیم پاشا كو كوئی نقصان نھیں پهونچا۔

اس كے بعد سے ایك بار پھرنجد كے علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی اور مختلف علاقوں كے قبیلے ایك دوسرے كی جان كے پیچھے پڑگئے، اس كے بعد ابراھیم پاشا مدینہ واپس چلے گئے اور وھاں سے شام كا رخ كیا او روھاں بھی بعض علاقوں كو فتح كیا۔

ابراھیم پاشا كا مصر میں داخل هونا اور اس كا عجیب غرور

ابراھیم پاشا اس عظیم فتح وپیروزی اور وھابیوں كو شكست دینے كے بعد محرم الحرام1235ھ میں مصر میں وارد هوا تو منا دی كرنے والوں نے یہ اعلان كیاكہ شھر مصر (یعنی قاھرہ)میں سات شب وروز تك چراغاں كیا جائے اور كوچہ وبازار میں خوشیاں منائی جائیں۔

چنانچہ لوگوں نے اس سلسلہ میں ھر ممكن كوشش كی او رعیسائیوں نے اپنے محلوں اور مسافر خانوں میں نمائش كے طور پر بھت سی عجیب وغریب چیزیں ایجاد كیں مثلاً مختلف قسم كی عجیب وغریب تصویریں او رمجسمہ بناكر نمائش لگائی۔

ابراھیم پاشا كے استقبال كے لئے ایك موكب (سواروں اور پیادہ لوگوں كا لشكر)تیار كیا گیا، درحالیكہ اس نے بھت لمبی داڑھی ركھنا شروع كی تھی ،باب النصر سے وارد هوا، اس كا باپ محمد علی پاشا بڑے فخر كے ساتھ اپنے بیٹے كے موكب كو دیكھنے كے لئے حاضر هوا۔

چراغانی، شب زندہ داری، آتش بازی، توپ داغنا، میوزك اور دوسرے كھیل اور سرگرمی سات شب وروز تك جدید اور قدیم مصر اور مصر كے دوسرے علاقوں میں جاری رھے۔

ابراھیم پاشا اس سفر سے واپسی پر خود كو بھت بڑا سمجھنے لگا تھا اور اتنے غرور میں رھتا تھا جس كا كوئی تصور نھیں كیا جاسكتا تھا، اس كا غرور اس وقت ظاھر هوا كہ جب اھم شخصیات اس كی خدمت میں سلام او رتہنیت كے لئے حاضر هوئےں تو یہ جناب اپنی جگہ سے كھڑے تك نہ هوئے، اور سلام كا جواب تك نہ دیا یھاں تك كہ اشارہ تك بھی نہ كیابلكہ اسی حال میں بیٹھا هوا مسخرہ كرتا رھا، لہٰذا وہ لوگ وھاں سے ناراض هوكر واپس هوگئے۔

وھابی اسیروں كو فروخت كرنا

جناب جبرتی صاحب كھتے ھیں كہ محرم1235ھ میں مغرب اور حجاز كے كچھ سپاھی مصر میں وارد هوئے جن كے ساتھ وھابی اسیر بھی تھے، جن میں عورتیں، لڑكیاں او رلڑكے بھی تھے، یہ سپاھی ان اسیروںكو جو شخص بھی خریدنا چاھے اس كو فروخت كردیتے تھے، جبكہ یہ اسیر مسلمان بھی تھے اور آزاد بھی۔

اور شاید اس كی وجہ یہ هو كہ وھابیوں كے مخالف ان كو خارجی سمجھ رھے تھے دوسرا احتمال جس كو جبرتی نے بھی دیا ھے كہ عثمانی سپاھیوں كا كوئی دین و مذھب نہ تھا، ان كے ساتھ شراب كے ظروف بھی موجودهوتے تھے كبھی ان كے لشكر سے اذان كی آواز سنائی نھیں دیتی تھی، نہ ھی ان كو نماز پڑھتے دیكھا گیا،ان كے ذہن میں بھی نھیں تھا كہ ھم دین اسلام كے لئے جنگ كررھے ھیں، جب عثمانی سپاھیوں كے قتل شدہ لاشے ملتے تھے تو ان میں سے بھت سے لوگ ختنہ شدہ بھی نھیں تھے۔

مذكورہ باتوں كے پیش نظر عثمانی سپاھی اپنی ان صفات كے باعث وھابیوں میں سے جس كو اسیر بناتے تھے اس زمانہ كے رواج كے تحت اپنے غلاموں كی طرح فروخت كردیتے تھے اور اسیروں كے مذھب و دین كے بارے میں كوئی فكر نھیں كرتے تھے۔

لیكن چونكہ یہ اسیر حجازی او رمغربی سپاھیوں كے ھاتھوں میں هوتے تھے شاید پھلا والا احتمال حقیقت سے زیادہ نزدیك هو، اسی طرح دوسرے ایسے مواقع بھی آئے ھیں جن میں عثمانی سپاھیوں نے وھابی عورتوں اور بچوں كی خوارج هونے كے لحاظ سے خرید وفروخت كی ھے۔

آل سعود كی حكومت كا دوبارہ تشكیل پانا

اسلامبول میں امیر عبد اللہ كو پھانسی لگنے اور آل سعود او رآل شیخ محمد بن عبد الوھاب كے مصر میں جلا وطن هونے كے بعد گمان یہ كیا جاتا تھا كہ عثمانی بادشاہ، محمد علی پاشا اور ابراھیم پاشا نے وھابیوں اور خاندان آل سعود كی حكومت تباہ كر كے اپنی حكومت قائم كرلےں، لیكن كوئی بس نہ چلا اور دونوں خاندان كے بعض افراد بھاگ نكلے اور بعد میں حكومت آل سعود كو تشكیل دیا۔

ان بھاگنے والوں میں سے ایك امیر تركی بن امیر عبد اللہ بن محمد بن سعود تھا، دوسرا اس كا بھائی زید تھا اسی طرح علی بن محمد بن عبد الوھاب تھا یہ لوگ پھلے قطر اور عُمّان گئے، معلوم هونا چاہئے كہ امیر تركی وھی شخص ھے جس نے بعد میں سعودی حكومت كو دوبارہ زندہ كیا ھے۔

1234ھ كے آخر میں جب ابراھیم پاشا كے حكم سے درعیہ شھر كو نیست ونابود كردیا گیا اس وقت محمد بن مُشارِی بن مَعمر، سعود بن عبد العزیز كا بھانجا درعیہ سے ”عُیَنْیَہ “ بھاگ نكلا تھااور (جب ابراھیم پاشا وھاںسے چلاگیا) تو دوبارہ درعیہ واپس آگیا اور چونكہ آل سعود سے رشتہ داری تھی،لہٰذا اس نے حكومت نجد كو اپنے ھاتھوں میں لےنے كی ٹھان لی۔

اس نے درعیہ شھر كو دوبارہ بنوانا شروع كیا اور بھت سا جنگی ساز وسامان تیار كیا، اور بھت سارا مال اكٹھّا كیا اور آل سعود كے بادشاهوں كی طرح لوگوں كو توحید كی دعوت دینا شروع كردیا، قرب

وجوار كے شھروںدیھاتوں اور قبیلوں كے سرداروں كو خط لكھنے شروع كئے اور اپنے دیدار كے لئے بلایا، بعض لوگوں نے اس كی دعوت پر لبیك كھا، اور بھت سے لوگوں نے اس كی مخالفت كی۔

ابن معمر نے اپنی حسن تدبیر سے مخالفوں پر كامیابی حاصل كرلی اسی دوران تركی بن عبد اللہ اور اس كا بھائی درعیہ میں داخل هوئے پھلے تو تركی نے اس كی موافقت كی اور اس سے مل كر رھا اور اس كے بعد بعض واقعات كی بنا پر ایك دوسرے میں لڑائی جھگڑے هونے لگے، سر انجام تركی نے ابن معمر كو پھانسی دیدی۔

اس زمانہ میں (یعنی1235ھ میں) ایك بار پھر نجد كاماحول خراب هوگیا وھاں افرا تفری پھیل گئی، اور پھلے كی طرح مختلف قبیلوں میں جنگیں هونے لگیں، اسی زمانہ میں انگلینڈ كی دریائی فوج نے (جن كے پاس دریائی كشتیوں پر توپ وغیرہ بھی لگی هوئی تھی) ”راس الخیمہ“ پر حملہ كركے شھر پر قبضہ كرلیا، وھاں كے لوگ بھاگ نكلے اور انگلینڈ كی فوج نے شھر كو ویران كردیا۔

امیر تركی

1236ھ سے عثمانی بادشاہ نے امیر تركی پر حملہ كرنا شروع كردیا، اس كی وجہ جیسا كہ پھلےاشارہ كیا جاچكا ھے عثمانی بادشاہ كو یہ ڈر تھا كہ كھیں یہ لوگ ایك عربی بڑی حكومت نہ بنالیں (اور پھر اس پر حملہ نہ كردیں) اُدھر امیر تركی كی حكومت آہستہ آہستہ مضبوط هوتی گئی اور اس كا دائرہ وسیع هوتا گیا، جسے دیكھ كر عثمانی بادشاہ نے حسین بك كی سرداری میں ایك ترك لشكر نجد كی طرف روانہ كیا ،اس وقت امیر تركی نے اپنا دار السلطنت ”ریاض“ كو بنالیا تھا (جو آج بھی سعودی عرب كا پائے تخت ھے) ۔

امیر تركی اور حسین بك میں بھت خونین جنگیں هوئیں اور ان جنگوں میں تركی كمزور هونے لگا اور نزدیك تھا كہ شكست كھا جائے ایك جنگ میں تركی كے بیٹے فیصل كو گرفتار كركے مصر بھیج دیا گیا ،لیكن آخر كار تركی كو كامیابی ملی اور وہ حكومت پر قابض هوگیا اور اسی زمانہ میں اس كا بیٹا فیصل بھی مصر سے بھاگ نكلا اور اپنے باپ سے آكر ملحق هوگیا۔

تركی بادشاہ كا زمانہ ایسا تھاجس میں ھمیشہ مختلف قبیلوں میں لڑائی اور دیگرمشكلات سامنے آتی رھیں یھاں تك كہ اس كے بھانجے مشاری بن عبد الرحمن بن سعود نے اچانك1249ھ میں اس كو قتل كردیا ۔

قارئین كرام !یہ بھی معلوم رھے كہ مشاری وہ شخص تھا جس كو ابراھیم پاشا نے جلا وطن كركے مصر بھیج دیا تھا، اور وہ وھاں سے بھاگ كر اپنے ماموں كی پناہ میں چلا گیا تھا، اور جس وقت سے مشاری اپنے ماموں كی پناہ میں پهونچا تھا، تركی اس كا بھت احترام واكرام كرتا تھا اور اس كو شھر ”منفُوحہ“ كی ولایت دیدی تھی، لیكن چونكہ مشاری كو حكومت كرنے كا شوق تھا، لہٰذااس نے تركی كے ساتھ خیانت كی، لیكن وہ بھی بھت جلد فیصل كے ھاتھوں اسكے باپ كے انتقام میں قتل كردیاگیا۔

فیصل بن تركی

امیر تركی كے قتل هونے كے بعد اس كا غلام ”زوید“ ریاض سے ”اَحساء“ فیصل بن تركی كے پاس گیا اورتمام واقعہ بتلایا كہ تمھارے باپ كو قتل كردیا گیا ھے، واقعہ كو سن كر فیصل نے اپنے باپ كے انتقام میں ریاض پر حملہ كردیا ادھر شھر كا دفاع كرنے والوں میں سے ایك گروہ نے اس كی طرفداری كی، چنانچہ اس نے چند حملوں كے بعد شھر ریاض كو اپنے قبضہ میں لے لیا، اور مشاری اور اس كے چند ساتھیوں كو بھی قتل كر ڈالا۔

فیصل1250ھ كے شروع میں اپنے باپ كی جانشینی میں نجد كی حكومتكا بادشاہ بنا، قرب وجوار كے حكّام نے آكر اس كے ھاتھوں پر بیعت كی اور نجد كی حكومت ملنے پر اس كو مبارك بادپیش كی۔

آل رشید

امیرفیصل نے1251ھ میں صالح بن عبد المحسن كو جو ”جبل شَمَّر“ كا والی تھا معزول كركے اس كی جگہ عبد اللہ بن علی بن الرشید كو مقرر كیا، جس وقت عبد اللہ جبل شمر كے دار السلطنت،شھر ”حائل “ پهونچا تو اس كے اور آل علی میںجو سابق امیر صالح بن عبد المحسن كے ساتھی تھے شدید اختلاف پیداهوگیا، اور دونوں میں لڑائی هونے لگی، آخر كار ابن الرشید نے صالح كو اس كے محل میں گھیر لیا لیكن بعد میں اس كو امان دیدی، اور اس كو شھر سے باھر نكال دیا، اور فیصل كو خط لكھا كہ اختلاف اور جھگڑوں كی ابتداء آل علی كی طرف سے هوئی تھی، چنانچہ فیصل نے بھی اس كی تصدیق اور تائید كی۔

اس كے بعد سے آل رشید جبل شمر پر مستقر هوگئے اور انھوں نے بھی اپنے علاقہ میں توسیع كرنا شروع كردی، یھاں تك كہ اسی خاندان كے ایك حاكم بنام محمد نے ریاض پر بھی غلبہ حاصل كرلیا، اور عبد العزیز سعودی امیر كو بھی نجد سے باھر نكال كر كویت بھیج دیا، لیكن ان سب كے باوجود اس كی قدرت كچھ ھی مدت كے بعد جواب دے گئی اور عبد العزیز بن سعود نے اس پر حملے شروع كردئے، اور 1336ھ میں كلی طور پر اس (آل رشید) كا صفایا كردیا۔

آل رشید كے قدرتمند حاكم محمد كے دورمیں(یعنی1285ھ سے 1315ھ تك) شمر نامی پھاڑ پر یورپی سیّاحوں كو گھومنے پھرنے كی اجازت مل گئی، اور جیسا كہ ھم نے پھلے بھی عرض كیا ھے كہ كئی یورپی سیاحوں نے اس علاقہ كا نزدیك سے دیدار كیاھے۔

تبصرے
Loading...