امتحان الہی اور عقوبت میں کیا فرق ہے؟

مفہوم کے اعتبار سے امتحان ،عقوبت سے عام ہے۔ یعنی امتحان، کبھی عقوبت سے اور کبھی نعمت سے ہوتا ہے۔انسان کا کبھی خوشی اور اچھی چیزوں سے اور کبھی غم اور پریشانیوں سے امتحان ہوتا ہے۔کبھی شفاپانے سے کبھی کسی عزیز کی موت سے۔بہرحال انسان کا مختلف اوقات میں کئی لحاظ اور متعدد چیزوں کے ذریعہ امتحان لیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ جو ہماری زندگی میں مشکلا

مفہوم کے اعتبار سے امتحان ،عقوبت سے عام ہے۔ یعنی امتحان، کبھی عقوبت سے اور کبھی نعمت سے ہوتا ہے۔انسان کا کبھی خوشی اور اچھی چیزوں سے اور کبھی غم اور پریشانیوں  سے امتحان ہوتا ہے۔کبھی شفاپانے سے کبھی کسی عزیز کی موت سے۔بہرحال  انسان کا مختلف اوقات میں کئی لحاظ اور متعدد چیزوں کے ذریعہ  امتحان لیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ جو ہماری زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں ہمارے اوپر آتی رہتی ہیں؛ کیا یہ امتحان ہیں یا عقوبت؟یا بہ الفاظ دیگر ہمیں کس طرح پتاچلے کہ پیش آنے والے واقعات اور حوادث، خدا کی طرف سے امتحان  ہیں یا نفسانی خواہشات کا نتیجہ اور نفس کی شامت ؟ کیونکہ ہم بعض اوقات  مشکلات اور ناپسند حوادث کے بارے میں  اشتباہ کرتے ہیں اور انکی نسبت خداوند متعال کی طرف دیتے ہیں حالانکہ وہ ذات  باری تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے ۔
عام طور پر لوگوں کی یہ عادت ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت یا مشکل آتی ہے تو کہتے ہیں: یہ خدا کی طرف سے ہے اس نے اسی طرح چاہا، مقدّر و مقرر کیا ہے۔
درحالانکہ ایام  نہیں ہوتا کیونکہ کچھ موارد میں جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ ہمارے اپنے  اعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں خدا  سے کوئی ربط نہیں ہوتا ہے لیکن ہماری عادت ہے کہ ساری مشکلات خدا کی گردن میں  اور خود کو بے قصور جانتے ہیں۔
خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
وَ ما اَصابَکُمْ مِنْ مُصِيبَهٍ فَبِما کَسَبَتْ اَيدِيکُمْ وَ يعْفُو عَن كَثِيرٍ(1)ترجمہ: اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
اگر انسان گناہ کرنے کے بعد مشکل میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ تنبیہ یا عقوبت ہوتی ہے اگربغیر کسی   گناہ کے  دچار مشکل ہو تو وہ امتحان الاہی ہوتا ہے جس طرح انبیا و اہل بیت معصومین علیہم السلام۔  
اللہ تبارک و تعالیٰ اس آیت شریفہ میں انسان کو بتا رہا ہے کہ گناہ اور دنیا میں نازل ہونے والے مصائب اور مشکلات کے درمیان کیا رابطہ ہے؟کلمہ ’’مصیبت‘‘ ہر ناپسند چیز، جس کو انسان نہ چاہتا ہو اس میں مبتلا ہونا؛ کیونکہ دور سے (سبب فراہم کرنے کی وجہ سے) انسان تک پہنچتی ہے۔ جملہ ’’فَبِما کَسَبَتْ اَيدِيکُمْ ‘‘ ’’ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ‘‘سے مراد گناہ اور ہر خرابی یا برائی ہے۔
یعنی بعض اوقات آپ کے اوپر جو ناپسند حوادث واقع ہوتے ہیں وہ آپ کے ہاتھوں کی کمائی اور اپنے اعمال کی وجہ سے ہیں۔(2)
اور جملہ ’’وَ يعْفُواعَنْ كَثِيرٍ‘‘ کی معنا یہ ہے کہ خداوند متعال انسان کے بہت سارے گناہوں سے (جو موجب عقوبت اور آزمایش ہیں) درگذر کرتا ہے اور بخش دیتاہے۔ یہ مصیبتیں ان گناہوں کی وجہ سے ہیں جو انسان کرتا ہے؛ بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ بد اعمالی اور خرابیوں کی وجہ سے سزا دیتا ہے تاکہ انسان اپنے بارے میں فکر کرے، متوجہ ہو اور گناہوں سے باز آجائے۔
 آیہ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے اس  مسئلہ کی صراحت فرمائی ہے کہ بہت ساری مصیبتیں اور بلائیں انسان کے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں جو انجام دیتا ہے؛ آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ خدا بہت سارے گناہوں سے درگذر کرتا اور بخش دیتا ہے ورنہ انسان کی ساری زندگی بلا اور مصیبت میں گذرتی۔
پس اگر انسان گناہ کرے اور مشکل میں مبتلا ہو تو یہ تنبیہ یا عقوبت ہوتی ہے اگربغیر کسی   گناہ کے  دچار مشکل ہو تو وہ امتحان الاہی ہوتا ہے جس طرح انبیا و اہل بیت معصومین علیہم السلام۔  
’’مصیبت‘‘ سے مراد:عمومی اور اجتماعی مصائب مثل قحط، مہنگائی، وبا، زلزلہ، وغیرہ یا فردی مصائب  جو ناپسند حوادث ہیں جو ہر انسان کی جان، مال، اولاد اور عزت وغیرہ  کے بارے  میں پیش آتے ہیں۔
یعنی  ہماری  اجتماعی اور فردی  زندگی کی سب خرابیاں اور مصیبتیں ان گناہوں کی وجہ سے ہیں جنکے ہم مرتکب ہوتے ہیں؛ اس کے باوجود خدا تعالیٰ بہت سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ،  اس کی سزا نہیں دیتا ۔
ان  آیات سے   ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال اور نظام عالم میں ایک خاص رابطہ ہے ؛ اس طرح کہ اگر انسانی معاشرے اپنے عقائد و اعمال فطری تقاضائوں کے مطابق انجام دیں تو برکات و خیرات نازل ہونے لگیں اور بھلائیوں کے دروازے کھل جائیں ؛ اگر عقائد اور اعمال کو خراب کریں تو زمین و آسمان میں فساد اور زندگی  تباہ ہو جائے گی۔
یہ سنّت الاہی (الاہی طریقہ) ہے۔

نتیجہ:
ان گناہوں کے کچھ اثرات دنیاوی ہیں اور کچھ اخروی ؛ دنیاوی بلائیں، گناہ کے دنیاوی اثرات میں سے ہیں؛ لیکن یہ سب کچھ  نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض اثرات ہیں جو انسان تک پہنچتے ہیں اور باقی اثرات معاف کر دیے جاتے ہیں ’’وَ يعْفُواعَنْ كَثِيرٍ‘‘’’ اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے ‘‘۔ (جیساکہ متعدد روایات کے مطابق)صلہ رحمی، صدقہ، دعا، توبہ وغیرہ کی وجہ سے گناہ کے اثرات  ٹل جاتے یا بخش دیے جاتے ہیں۔(3) ۔

حوالہ جات:
1۔ شوري، 30 .
۲۔ مفردات راغب، ماده ” قدر” .
۳۔ برگرفته از تفسير الميزان ذيل آيه شريفه .

تبصرے
Loading...