اللہ کی عبادت اور اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کا باہمی تعلق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب انسان کسی عمارت کو دیکھتا ہے تو یقیناً اس عمارت کے قائم رہنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ ستونوں پر کھڑی ہے، اور جتنی عمارت بڑی ہوگی اتنے ہی اس کے ستون مضبوط اور پائدار ہوں گے، اگر اسی بات کو دوسری طرف سے دیکھا جائے تو یہ ہے کہ ستونوں کی زیادہ مضبوطی دلیل ہے کہ عمارت عظیم ہے، اسی لیے ستونوں کو زیادہ مضبوط بنایا گیا ہے، اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ بہت ساری چیزیں، ستونوں پر قائم ہیں تبھی آدمی ان سے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ جیسے مادی اور ظاہری چیزوں میں ستون کی ضرورت ہے، معنوی اور دینی امور میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسے اسلام کی بنیاد، اسلام کن ستونوں پر قائم ہے، جب اسلام مکمل دین اور حق تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے، تو اتنے عظیم دین کی بنیادیں کیا ہیں، جن پر یہ دین قائم ہے؟
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسَةِ أشْياءَ: عَلى الصَّلاةِ، و الزَّكاةِ، و الحَجِّ، و الصّومِ، و الوَلايةِ. قالَ زُرارَةُ: فقلتُ: و أيُّ شَيْءٍ مِنْ ذلِكَ أفْضَلُ؟ فقالَ: الوَلايةُ أفْضَلُ؛ لأنّها مِفْتاحُهُنَّ، و الوالي هُوَ الدَّليلُ عَلَيْهِنَّ [1]، “اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے: نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت پر، زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کون سی چیز ان میں سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ولایت افضل ہے، کیونکہ ولایت ان کی کنجی ہے، اور صاحب ولایت ان کی طرف راہنما ہے”۔
واضح ہے کہ نماز، زکات، حج اور روزہ ایسی مشترکہ عبادات ہیں جن پر شیعہ اور اہلسنت کا اتفاق ہے، اور دونوں مذہب اپنے اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کوشش کررہے ہیں کہ ان عبادات کو ادا کریں، لیکن حدفاصل اور فرق، ولایت ہے۔ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی اس حدیث میں، ولایت دیگر چار عبادتوں کی کنجی بتائی گئی ہے۔ اب ہم عبادت اور ولایت پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اس بات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ ولایت کا عبادت سے کیا تعلق ہے، کیا بعض عبادتیں ولایت پر موقوف ہیں یا ہر عبادت ولایت پر موقوف ہے؟

عبادت پر طائرانہ نظر
اللہ تعالی نے عبادت کا قرآن کریم میں مختلف آیات میں تذکرہ کیا ہے، عبادت ایسی چیز ہے جو ہر انسان چاہے سب سے افضل مومن ہو اور چاہے سب کافروں میں سے بدترین کافر پو، سب کو شامل ہوتی ہے یعنی ہر انسان دن رات عبادت ہی کررہا ہے اور اس کا کوئی لمحہ عبادت سے خالی نہیں، مگر فرق معبود میں ہے کہ انسان اپنی نیت اور عمل کے ذریعے کس کی عبادت کرتا ہے، اس کا معبود کون ہے؟ اللہ معبود ہے یا شیطان؟! لہذا سورہ حمد، جسے واجب نمازوں میں روزانہ کئی بار پڑھا جاتا ہے، اس میں ہر نمازی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ایاک نعبد [2]، ” پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں” ، اور سورہ یس میں ارشاد الہی ہے: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ . وَأَنِ اعْبُدُونِي هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ[3]“،  “اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے”۔
عبادت کے بارے میں بہت ساری روایات اہل بیت (علیہم السلام) سے نقل ہوئی ہیں، مثلاً: سیدہ کونین ام الحسنین حضرت فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) ارشاد فرماتی ہیں: مَن أصعَدَ إلَى اللّه خالِصَ عِبادَتِهِ، أهبَطَ اللّه عز و جل إلَيهِ أفضَلَ مَصلَحَتِهِ[4]، “جو شخص اللہ کی طرف اپنی خالصانہ عبادت بھیجے، اللہ عزوجل اس کی بہترین مصلحت کو اس کی طرف اتارتا ہے”۔

ولایت پر طائرانہ نظر
“ولایت” سرپرستی اور حق تصرف کے معنی میں ہے۔ ولایت صرف اللہ تعالی کا حق ہے، پروردگار عالم نے اپنی ولایت اپنے بعض فرمانبرار اور لائق بندوں کو سونپی ہے، مگر ان لائق بندوں کی ولایت، اللہ ہی کی ولایت کے زیرنگرانی ہے اور وہ فرمانبردار بندے صرف اسی جگہ پر اس ولایت کو استعمال کرتے ہیں جہاں اللہ تعالی چاہے۔ وہ نیک بندے کون ہیں جنہیں مالک کائنات نے ولایت سونپی ہے، قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: ” إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ “ [5]، ” ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں “۔ اہل سنت کے بہت سارے علماء نے اس آیت کریمہ کے شان نزول کو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بارے میں نقل کیا ہے جن میں سے ایک حاکم حسکانی ہیں جنہوں نے انس ابن مالک سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی، جب آپ نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دی۔[6] بنابریں ولایت اللہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی ہے جن میں سے پہلے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ہیں، دوسری طرف سے قرآن کریم نے دو طرح کی ولایتیں بتائی ہیں: ایک اللہ کی ولایت، دوسری شیطان کی ولایت ہے۔ اللہ کی ولایت کے زمرہ میں آدمی اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت اور اس کے مقرر کردہ اولیا کی اطاعت کرتا ہوا، عبودیت، خداپرستی اور توحید تک پہنچتا ہے۔ شیطان کی ولایت خود شیطان سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد منافقین، کفار اور جو شخص اس کی پیروی کرے، اسے اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ شیطان کی پیروی کرنے والا شخص، خودپرستی اور خودخواہی تک پہنچ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ شیطان جو اپنے تابعداروں پر ولایت حاصل کرکے ان کو مزید گمراہی کی طرف لے جاتا ہے، اس کی ولایت، اللہ تعالی کی قدرت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ اللہ نے اسے جو طاقتیں دی ہیں وہ لوگوں کے امتحان کے لئے دی ہیں اور ادھر سے لوگوں کو بھی اس کی فرمانبرداری سے بار بار منع کیا ہے (یہ بحث تفصیلی ہے جس کی اس مختصر مضمون کے دامن میں گنجائش نہیں ہے) لہذا ہر شخص یا اللہ کی ولایت اور سرپرستی میں ہے یا شیطان کی ولایت اور سرپرستی میں۔ اور یہ دو ولایتیں اتنی ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہیں کہ اگر انسان اللہ کی اطاعت و عبادت کرتا رہے تو اللہ کی ولایت میں ہے، اور جتنا اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت سے مخالفت کرے اور اللہ کی ولایت سے نکلے اتنا شیطان کی ولایت میں داخل ہوجاتا ہے اور اگر حکم پروردگار کی مخالفت، نافرمانیوں اور گناہوں کے سلسلہ کو جاری رکھے تو بالکل اللہ کی ولایت سے نکل جائے گا اور مکمل طور پر شیطان کی ولایت میں داخل ہوجائے گا۔ شیطانی ولایت، اللہ کی ولایت کی طرح کچھ صفات کی حامل ہے، جو ظاہر میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں لیکن باطن میں بالکل ایک دوسرے کی مخالف اور ضد ہیں، اور اسی ظاہری مشابہت سے شیاطین غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کردیتے ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکات اور دیگر عبادات۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ دونوں ولایتوں والے لوگ، ان سب اعمال کو پابندی، باقاعدگی اور نظم و ضبط کے ساتھ بجالائیں اور اس کے لئے بہت بڑے عظیم انتظامات بھی کریں لیکن ان میں سے شیطانی ولایت والے لوگ، صرف ظاہر کو اچھی طرح بجالائیں گے، جبکہ اس کی حقیقت سے غافل، بے خبر اور جاہل ہوں گے، ان کی ساری کوشش یہ ہوگی کہ اس کے ظاہر کو محفوظ رکھیں جو دیکھنے والے کو حیران کردے گا لیکن کیسے معلوم ہو کہ یہ باطن اور حقیقت میں بھی ان اعمال کو بجالاتے ہوئے اللہ کی فرمانبرداری کررہا ہے یا شیطان نے اسے دھوکہ دیتے ہوئے، عمل کی روح اور حقیقت سے غافل کرکے اس کو صرف ظاہر کا پابند بنادیا ہے، کوئی تو معیار ہونا چاہیے جس کے مطابق اللہ کی ولایت بر گامزن ہونے والوں کو ولایت شیطان پر چلنے والوں سے الگ کرتے ہوئے حق و باطل کی پہچان کی جاسکے۔

ولایت، اسلام کی بنیادوں کی کنجی
پہچاننے کا معیار “اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت” ہے، حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) مذکورہ حدیث میں چار عبادتوں کو دین کی بنیاد بتاتے ہوئے ولایت کو پانچویں بنیاد کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، آپ نے ان فقروں میں ولایت کے متعلق تین باتیں ارشاد فرمائیں ہیں: ۱۔ اسلام کی (پانچویں) بنیاد، ولایت ہے۔ ۲۔ ولایت دیگر چار بنیادوں سے افضل ہے۔ ۳۔ ولایت ان چار بنیادوں کی کنجی ہے۔ ۴۔ صاحب ولایت ان بنیادوں کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔

نتیجہ: اسلام کی جو پانچ بنیادیں اور اہم عبادتیں ہیں، ان میں سے افضل پانچویں بنیاد، ولایت ہے اور ان چار عبادتوں کی حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے، مگر یہ کہ پانچویں بنیاد اور کنجی جو ولایت ہے، وہ بھی مسلمان کے پاس ہونی چاہیے اور صاحب ولایت پر مسلمان کا ایمان بھی ہونا چاہیے تبھی تو وہ صاحب ولایت کی راہنمائی کو قبول کرے گا، وہی راہنمائی جو صاحب ولایت نے ان دیگر چار عبادتوں کی طرف کرنی ہے۔ لہذا جس کے پاس پانچویں بنیاد اور کنجی نہیں ہے، وہ دیگر چار عبادتوں کی حقیقت تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا، تو کیسے اسلام کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے؟! اور کیونکہ اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت، اللہ کی ولایت ہے، تو جو اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت سے نکل جائے وہ شیطان کی ولایت میں داخل ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت سے نکل گیا، اب چاہے خود مانے یا نہ مانے، شیطان ہی کی ولایت پر گامزن ہے چاہے جتنی نماز، زکات، حج اور روزہ بجالائے، اس کے پاس اسلام کی نہ افضل بنیاد ہے اور نہ دیگر بنیادوں کی کنجی، لہذا اس کی عبادات کھوکھلی، بے روح اور مردہ ہیں، اگرچہ ظاہر میں لگتا ہے کہ اللہ کو سجدہ کررہا ہے لیکن حقیقت میں شیطان کو سجدہ کررہا ہے، وہ اپنے ضمیر سے صرف ایک سوال کرے کہ ان سب عبادتوں کی میرے پاس نہ کنجی ہے اور نہ ان کی طرف راہنمائی کرنے والا، تو کیسے ہوسکتا ہے کہ جب راہنما ہی نہ ہو تو صحیح راستہ مل جائے، اگر اسلام ان چار بنیادوں اور عبادتوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو یہ عبادتیں بھی اس افضل بنیاد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الكافي : 2 / 18 /5۔
[2]سورہ حمد، آیت 5۔
[3] سورہ یس، آیات 60، 61۔
[4] عده الداعی ص 233۔
[5] سورہ مائدہ، آیت 55۔
[6] شواهد التنزیل، ج 1، ص225.

تبصرے
Loading...