اللہ کسی چیز کے اوپر ہونے سے پاک و منزہ

خلاصہ: نہج البلاغہ کی تشریح کرتے ہوئے اس فقرے پر گفتگو ہورہی ہے جس میں اللہ کا کسی چیز کے اوپر ہونے کی نفی کی جارہی ہے۔

اللہ کسی چیز کے اوپر ہونے سے پاک و منزہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “وَمَنْ قَالَ «عَلاَمَ؟» فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ“، “اور جس نے کہا: (اللہ) کس چیز کے اوپر ہے؟ تو اس نے (دوسری جگہوں کو) اُس سے خالی سمجھ لیا”۔

تشریح:
اگر کوئی سوال کرے اور کہے کہ اللہ کس چیز کے اوپر ہے (عرش پر، کرسی پر، آسمانوں پر) تو اس نے اللہ کو محدود سمجھ لیا، کیونکہ اس نے یہ کہنے سے دوسری جگہوں کو اللہ سے خالی سمجھ لیا ہے۔
جو سمجھتے ہیں کہ اللہ (نعوذباللہ) عرش، کرسی یا آسمانوں پر ہے یا کسی اور جگہ پر تو وہ خالص موحّد نہیں ہیں اور وہ حقیقت میں ایسی مخلوق کی عبادت کرتے ہیں جسے انہوں نے اپنے ذہن سے بنایا ہے اور اس پر “اللہ” کا نام رکھ دیا ہے۔ خواہ ایسے لوگ عوام میں ہوں یا علماء کے لباس میں۔
بعض ناآگاہ افراد نے یہ سمجھا ہے کہ سورہ طہ کی آیت ۵ “الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ”، اللہ کی (نعوذباللہ) جسمانیت اور عرش پر قرار پانے کی دلیل ہے، حالانکہ جملہ “استوی” کسی چیز پر سلطہ کے معنی میں ہے اور صرف کسی چیز پرسوار ہونے اور اس پر بیٹھنے کے معنی میں نہیں ہے۔
“استوی علی العرش”، “تختِ سلطنت پر قرار پایا” اس کے مقابلے میں ہے جو کہا جاتا ہے: “ثلّ عرشہ”، اس کا تخت برباد ہوگیا” ۔ یہ ایسا معروف کنایہ ہے جو حکومت پانے یا حکومت سے کنارہ کشی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نہ یہ کہ تختِ سلطنت کے ٹوٹنے یا اس پر بیٹھنے کے معنی میں ہو۔ لہذا “استوی علی العرش” کا مطلب عرش پر اللہ کی حکومت اور حاکمیّت کا استقرار ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: پیام امام، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، ناشر: دار الكتب الاسلاميه‌، تہران، ۱۳۸۶ھ ۔ ش، پہلی چاپ]

تبصرے
Loading...