اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی ھیں

پانچویں روایت

اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی ھیں:

1) محمد بن اسحاق بن یسار۔

2) محمد بن حارث تیمی۔

3) عبد اللہ بن زید۔

ان میں سے پھلے اور دوسرے راوی كے بارے میں بحث گزر چكی ھے كہ وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ھیں۔ اور ان دونوں نے جو روایت بھی تیسرے راوی (عبد اللہ بن زید) سے نقل كی ھے اس كی سند منقطعہ ھے۔ اور یھیں سے چھٹی روایت كا ضعف بھی ثابت ھوجاتا ھے۔ (چونكہ اس كاراوی محمد بن اسحاق ھے۔)

یہ وہ روایتیں ھیں جو بعض صحاح میں وارد ھوئی ھیں۔ ان كے علاوہ اس (اذان كے) سلسلہ میں امام احمد، دارمی، دارقطنی نے اپنی مسانید، امام مالك نے اپنی موطاء، ابن سعد نے طبقات اور بیھقی نے اپنی سنن میں روایات نقل كی ھیں۔ جن كا تذكرہ ذیل میں كیا جارھا ھے:

الف) امام احمد كی روایت جو انھوں نے اپنی مسند میں ذكر كی ھے

امام احمد نے اذان كے خواب كی روایت اپنی مسند میں عبداللہ بن زید سے تین سندوں كے ذریعہ نقل كی ھے۔ 23

پھلی سند میں زید بن حباب بن ریان تمیمی (م/ 203 ھجری) موجود ھے۔ اس كو علماء نے بھت زیادہ خطا كرنے والا كھا ھے۔ اس نے سفیان بن ثوری سے ایسی احادیث نقل كی ھیں جو سند كے لحاظ سے عجیب و غریب ھیں۔

ابن معین كھتے ھیں: اس كی ثوری سے نقل كردہ احادیث تحریف شدہ ھیں۔ 24 اسی طرح اس روایت كے راویوں میں سے ایك عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ ھے۔ اور تمام صحاح اور مسندوں میں اس كی صرف یھی ایك روایت ھے اور اس میں بھی اس كے قبیلہ كی فضیلت كا تذكرہ ھے، اسی وجہ سے اس پر اعتماد اور بھی كم ھوجاتا ھے۔

دوسری روایت محمد بن اسحاق بن یسار سے مروی ھے۔ اس كے بارے میں آپ گذشتہ بحث میں جان چكے ھیں۔

تیسری حدیث كا راوی محمد بن ابراھیم حارث تیمی ھے۔ اور ساتھ ھی ساتھ محمد بن اسحاق بھی۔ اور روایت كی سند، عبداللہ بن زید پر منتھی ھوتی ھے، جس نے بھت كم روایتیں بیان كی ھیں۔

جب كہ دوسری روایت میں اذان كے خواب، اور پھر جناب بلال كو اذان سكھائے جانے كے تذكرہ كے بعد مذكور ھے كہ جناب بلال (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں گئے۔ آپ (ص) سو رھے تھے۔ تو جناب بلال (رض) نے چلا كر “الصلاة خیر من النوم” كھا۔ لھذا یہ كلمہ نماز صبح كی اذان میں داخل كردیا گیا۔

ب) وہ روایت جس كو دارمی نے اپنی مسند میں ذكر كیا

دارمی نے اپنی مسند میں اذان كے خواب كی روایت كو ایسی سندوں سے ذكر كیا ھے جو سب كی سب ضعیف ھیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

1) ھمیں محمد بن حمید نے خبر دی ھے كہ ھم سے مسلم نے حدیث بیان كی كہ مجھ سے محمد بن اسحاق نے روایت كی ھے كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے… الخ۔

2) یہ روایت بھی مندرجہ بالا سند كے ساتھ ھے۔ محمد بن اسحاق كے بعد یہ اضافہ ھے: ھم سے یہ حدیث محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی نے، محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ سے اور انھوں نے اپنے باپ سے نقل كی ھے۔

3) ھمیں محمد بن یحییٰ نے خبر دی كہ ھم سے یعقوب بن ابراھیم بن سعد نے ابن اسحاق سے حدیث بیان كی ھے… بقیہ وھی راوی ھیں جو دوسری حدیث كی سند میں مذكور ھیں۔ 25

پھلی روایت كی سند منقطع ھے، دوسری اور تیسری روایت محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی پر مشتمل ھے۔ اور قارئین گذشتہ صفحات میں اس كی حقیقت سے آگاہ ھوچكے ھیں۔

اسی طرح ابن اسحاق كی حقیقت بھی واضح ھوچكی ھے۔

ج) وہ روایت جس كو امام مالك نے موطاء میں ذكر كیا ھے

امام مالك نے اپنی موطاء میں اذان كے خواب كی روایت یحییٰ سے، انھوں نے مالك سے اور انھوں نے یحییٰ بن سعید سے نقل كی ھے۔ وہ كھتے ھیں: رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارادہ ركھتے تھے كہ دو لكڑیوں سے استفادہ كیا جائے۔ 26

اس كی سند منقطع ھے اور یھاں پر اس سے یحییٰ بن سعید بن قیس مراد ھے جو 70 ھجری میں پیدا ھوئے اور ھاشمیہ میں 143 ھجری كو انتقال كرگئے۔ 27

د) وہ روایت جس كو ابن سعد نے طبقات میں ذكر كیا ھے

محمد بن سعد نے اپنی طبقات میں ایسی سندوں سے یہ روایت كی ھے جو موقوفہ ھیں اور ان كے ذریعہ حجت قائم كرنا ممكن نھیں۔

پھلی روایت نافع بن جبیر تك پھونچتی ھے، جو نوے كی دھائی میں اس دنیا سے اٹھ گیا اور ایك قول كے مطابق اس نے 99 ھجری میں وفات پائی۔

دوسری روایت عروہ بن زبیر پر منتھی ھوتی ھے، جو 29 ھجری میں پیدا ھوا اور 93 ھجری میں فوت ھوگیا۔

تیسری روایت زید بن اسلم پر ختم ھوتی ھے، جس كی وفات 136 ھجری میں ھوئی۔

چوتھی روایت سعید بن مسیّب، جس نے 94 ھجری میں انتقال كیا اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ جو 82 ھجری یا 83 ھجری میں فوت ھوا، پر تمام ھوتی ھے۔

ذھبی نے عبداللہ بن زید كے سلسلہ میں كھا ھے كہ اس سے سعید بن مسیّب اور عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے احادیث بیان كی ھیں لیكن اس نے كبھی راوی كو دیكھا بھی نھیں ھے۔ 28

ابن سعد نے مندرجہ ذیل سند كے ذریعہ بھی یہ روایت نقل كی ھے:

احمد بن محمد بن ولید ازرقی نے مسلم بن خالد سے، انھوں نے عبدالرحمٰن بن عمر سے، انھوں نے ابن شھاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے اور انھوں نے عبد ابن عمر سے روایت كی ھے كہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ كیا كہ ایسا راستہ نكالا جائے جس سے لوگوں كو اكٹھا كیا جاسكے…… یھاں تك كہ انصار میں سے عبداللہ بن زید نامی ایك شخص كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی اور اسی رات عمر بن خطاب كو بھی خواب ھی میں اذان سكھائی گئی … اس كے بعد وہ كھتے ھیں: پھر بلال (رض) نے نماز صبح كی اذان میں “الصلاة خیر من النوم” كا اضافہ كردیا۔ اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اذان میں شامل كرلیا۔ یہ سند مندرجہ ذیل راویوں پر مشتمل ھے:

الف) مسلم بن خالد بن قرة: جس كو ابن جرحہ بھی كھا جاتا تھا۔ یحیٰی بن معین نے اس كو ضعیف قرار دیا ھے۔ علی بن مدینی نے اسے لاشی (كچھ بھی نھیں) كھا ھے۔ بخاری نے اسے حدیث كا انكار كرنے والال بتایا ھے۔ نسائی كا كھنا ھے كہ یہ قوی نھیں ھے۔ ابو حاتم نے بھی كھا ھے كہ یہ قوی نھیں ھے حدیث كا انكار كرنے والا ھے اور یہ ایسی حدیثیں نقل كرتا ھے جو دلیل بننے كے قابل نھیں ھیں۔ یہ اچھی بری سبھی باتیں نقل كرتا رھا ھے۔ 29

ب) محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبداللہ بن شھاب زھری مدنی (51۔ 123 ھجری)۔

انس بن عیاض، عبیداللہ بن عمر سے روایت كرتے ھیں كہ میں نے بارھا دیكھا كہ زھری كو كتاب دی جاتی تھی تو وہ اس كو نہ تو خود پڑھتے تھے اور نہ ھی كوئی دوسرا پڑھ كر سناتا تھا۔ پھر بھی جب كبھی ان سے پوچھا جاتا تھا كہ كیا ھم تمھارے حوالے سے یہ روایت نقل كردیں؟ تو وہ كہہ دیتے تھے: “ھاں”۔

ابراھیم بن ابی سفیان القیسر انی نے فریابی كے حوالہ سے نقل كیا ھے كہ میں نے سفیان ثوری كو كھتے ھوئے سنا ھے: میں زھری كے پاس گیا۔ وہ میرے ساتھ اس طرح پیش آیا جیسے میرا آنا اس پر گراں گذرا ھو۔ میں نے اس سے كھا كہ اگر تم ھمارے بزرگوں كے پاس آتے اور وہ تمھارے ساتھ اسی طرح كا برتاؤ كرتے تو تم پر كیا گذرتی؟ وہ بولا: تمھاری بات صحیح ھے۔ پھر وہ اندر گیا اور كتاب لاكر مجھے دی اور كھا كہ اس كو لے لو اور اس كی روایتوں كو میرے نام سے نقل كرو۔ ثوری كھتے ھیں: میں نے اس میں سے ایك حرف بھی نقل نھیں كیا ھے۔ 30

ھ۔) وہ روایت جو بیھقی نےا پنی سنن میں نقل كی ھے

بیھقی نے اذان كے خواب كی روایت ایسی اسناد كے ذریعہ نقل كی ھے جن میں بھت سی كمزوریاں پائی جاتی ھیں۔ اس كے ضعف كی طرف ھم یھاں اشارہ كر رھے ھیں۔

اول) روایت، ابو عمیر بن انس پر مشتمل ھے، جنھوں نے انصار میں سے اپنے خاندان كے لوگوں سے روایت كی ھے۔ اور آپ ابو عمیر بن انس كے بارے میں یہ جان ھی چكے ھیں كہ ابن عبدالبر نے اس كے بارے میں كھا ھے كہ یہ مجھول ھے، اس كی روایت قابل استفادہ نھیں۔ انھوں نے اپنی روایت، گمنام اور نامعلوم اشخاص سے نقل كی ھے اور انھیں “عمومہ” سے تعبیر كیا ھے 31 ۔ اگر ھم تمام صحابہ كی عدالت كے قائل بھی ھوجائیں تو اس پر كوئی دلیل نھیں كہ یہ افراد صحابی تھے۔ اور اگر یہ بھی فرض كرلیں كہ یہ اصحاب تھے تب بھی اصحاب كی موقوفہ روایات حجت نھیں ھیں، اس لئے كہ یہ نھیں معلوم كہ اس صحابی نے بھی یہ روایت كسی صحابی ھی سے نقل كی ھے یا نھیں۔

دوم) یہ روایت ایسے افراد پر مشتمل ھے جو قابل اعتماد نھیں ھیں۔ وہ مندرجہ ذیل میں:

1)محمد بن اسحاق بن یسار۔

2) محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی۔

3) عبداللہ بن زید۔

ان تمام افرا دكے ضعیف ھونے كے بارے میں بحث كی جاچكی ھے۔

سوم: روایت، ابن شھاب زھری پر مشتمل ھے۔ جس نے سعید بن مسیّب (م/ 94ھجری)، اور اس نے عبداللہ بن زید سے روایت كی ھے۔ اور آپ جان چكے ھیں كہ اس نے عبداللہ بن زید كو دیكھا بھی نھیں تھا 32

و) دارقطنی كی روایت

دارقطنی نے اذان كے خواب كی روایت مندرجہ ذیل اسناد سے كی ھے:

1) ھمیں محمد بن یحییٰ بن مراد نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عثمان بن ابی شیبہ نے، ان سے حماد بن خالد نے، ان سے محمد بن عمرو نے، ان سے محمد بن عبداللہ نے اور ان سے ان كے چچا عبداللہ بن زید نے بیان كیا ھے……

2) ھم سے محمد بن یحییٰ نے، ان سے ابوداؤد نے، ان سے عبید اللہ ابن عمر نے، ان سے عبدالرحمان بن مھدی نے اور ان سے محمد بن عمرو نے روایت كی ھے كہ میں نے عبداللہ بن محمد كو كھتے ھوئے سنا: میرے جد عبداللہ بن زید اس خبر كے بارے میں…۔ 33

یہ دونوں سندیں محمد بن عمرو پر مشتمل ھیں، جس كے بارے میں یہ نھیں معلوم كہ آیا یہ وہ انصاری ھے، جس سے مسانید اور صحاح میں صرف یھی ایك روایت منقول ھے اور اس كے بارے میں ذھبی كھتا ھے كہ یہ پھچانا نھیں جاسكا، یعنی یہ مجھول الحال ھے، یا وہ محمد بن عمر و ابو سھل انصاری ھے جس كو یحییٰ قطان، ابن معین اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ھے۔ 34

3) ھم سے ابو محمد بن ساعد نے، ان سے حسن بن یونس نے، ان سے اسود بن عامر نے، ان سے ابوبكر بن عیاش نے، ان سے اعمش نے، ان سے عمر و بن مرہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے، اور ان سے معاذ بن جبل نے روایت كی ھے كہ انصار میں سے ایك آدمی (عبداللہ بن زید) نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس آیا اور كھا: میں نے خواب میں دیكھا ھے…… ۔ 35

یہ سند منقطع ھے۔ كیونكہ معاذ بن جبل 20 ھجری یا 18 ھجری میں فوت ھوئے اور عبدالرحمٰن بن ابو لیلیٰ 17 ھجری میں پیدا ھوئے۔ یھی نھیں بلكہ دارقطنی نے عبدالرحمٰن كو ضعیف قرار دیا ھے اور كھا ھے كہ یہ ضعیف الحدیث اور برے حافظہ والا ھے۔ اور یہ ثابت نھیں كہ ابن ابی لیلیٰ نے یہ روایت عبداللہ بن زید سے سنی ھے۔ 36

ھاں تك كہ بحث سے یہ ثابت ھوجاتا ھے كہ اذان كی مشروعیت كی بنیاد عبداللہ بن زید، عمر بن خطاب یا كسی اور كے خواب كو كسی بھی صورت میں نھیں قرار دیا جاسكتا اس كے علاوہ ان احادیث میں تعارض بھی پایا جاتا ھے اور ان كی سند بھی كامل نھیں ھے۔ لھذا ان سے كوئی بھی بات ثابت نھیں ھوتی۔ اور ان كے علاوہ یہ باتیں عقل قبول نھیں كرتی۔ جیسا كہ ھم اول بحث میں عرض كرچكے ھیں۔

تبصرے
Loading...