اسلام کا قانون

ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا کے نزدیک واحد دین “”دین اسلام “” ہے۔

(نوٹ :۔انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ، اس کے وجود کے اندازے پر مبنی اور طبیعت انسانی سے صحیح صحیح مطابق رکھنے والادین جو اس کے پروردگار کی جانب سے بھیجا گیا ہے ، اس نے اسلام نام پایا ہے یہ حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت اور دین کا خاص نام نہیں ہے بلکہ جو دین تمام انبیاء کرام (مثلاً حضرت نوح ، حضرت ابراہیم  ، حضرت موسیٰ  اور حضرت عیسیٰ ) لائے اس کا نام بھی اسلام ہی ہے۔ جہاں تک قرآن مجید سے نشاندہی ہوتی ہے ، حضرت نوح  سے پہلے والے دور کے سلسلے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ آسمانی دین کا کیا نام تھا لیکن ان کے زمانے سے لے کر بعد کے ادوار میں تمام آسمانی شریعتوں کا نام “”اسلام”” ہی رہا ہے۔پہلے سب لوگ ایک ہی دین رکھتے تھے (پھر وہ آپس میں جھگڑنے لگے) تب خدانے نجات کی خوشخبری دینے والے اور عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۱۳) لہذا اسلام کی تعریف مختصر الفاظ میں یوں کی جاسکتی ہے : “”یہ ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو انسان کے پروردگار نے اس کی ساخت کی مناسبت سے اور انسانی طبیعت کے مطابق اس کے لیے وضع فرمائے ہیں”” قرآن مجید کی منطق کے مطابق : دین تو خدا کے نزدیک بس اسلام ہی ہے، وہ دین جس کی طرف تمام پیغمبروں نے لوگوں کو دعوت دی وہ خدا کی عبادت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت ہے اور مختلف مذاہب کے علماء اگرچہ حق اور باطل کے فرق کو پہچانتے تھے لیکن تعصب اور دشمنی کی وجہ سے انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا اور ہر ایک نے اپنا الگ راستا اختیار کیا جس کے نیتجے میں روئے زمین پر مختلف مذاہب پیدا ہوگئے۔ (سورہ آل عمرن ۔ آیت ۱۹) گزشتہ انبیاء کے بعد “”اسلام”” مکمل طور پر معاشرے سے ناپید ہوگیا ۔ جواسلام حضرت موسیٰ  لائے وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوگیا اور جو اسلام حضرت عیسیٰ  لائے وہ بھی ان کے بعد نابود ہوگیا حتیٰ کہ اس کے نام کا وجود بھی باقی نہ رہا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو دین اللہ کی جانب سے بذریعہ وحی تمام انبیائے کرام پر نازل کیا گیا اس کا نام “”اسلام “” ہے اور جو شریعت حضرت موسیٰ  لائے اس کا نام بھی اسلام ہی تھا لیکن اب وہ یہودیت میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی شریعت کو مسیحیت کہا جاتا ہے ۔ یہ نام پروردگار عالم کی جانب سے نہیں بلکہ امتوں کے گھڑے ہوئے ہیں اور تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے علامہ مرتضی عسکری کی کتاب “”احیائے دین میں ائمّہ اہلبیت  السلام کا کردار “” ملاحظہ فرمائیے (ناشر)

اسلام خدا کا سچا قانون ہے اور انسان کی خوش بختی کے حصول کے لیے سب سے آخر ، سب کامل اور سب سے اچھا اور انسانوں کی دنیا اور آخرت کے فوائد کے حصول کے لیے سب سے جامع دین ہے اور یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ جب تک رات دن جاری ہیں نہ اس میں کچھ بڑھے گا نہ اس میں کچھ گھٹے گا اور یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ ایسا دین ہے جو انفرادی ، سماجی اور سیاسی نظام اور معاملات میں انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام آخری دین ہے اور اب ہمیں کسی دوسرے دین کا انتظار نہیں ہے جو انسانوں کو ظلم ، خرابی اور بربادی سے بچائے، لامحالہ اس عقیدے کی رو سے ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلامی نظام قت پکڑے گا اور پوری دنیا کو اپنے پختہ قوانین اور انصاف کے تحت لے آئے گا۔

اگر اسلام کے قوانین جیسے ہیں ویسے ہی زمین کے تمام مقامات پر اپنی کامل اور صحیح صورت میں نافذ ہوجائیں تو تمام انسانوں کو امن اور سکون مل جائے، تمام انسانوں کو حقیقی خوش حالی نصیب ہوجائے اور وہ بہبود، آرام، عزت ، ناموری ، استغناء اور یک عادات کی آخری حدود تک پہنچ جائیں، دنیا میں ہمیشہ کے لیے ظلم کی جڑکٹ جائے ، تمام انسانوں کے درمیان پیار اور بھائی چارہ قائم ہوجائے اور محتاجی، افلاس اور غریبی روئے زمین سے ختم ہوجائیں۔

یہ جو ہم آج ان لوگوں کے ۔۔۔۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔۔۔۔ افسوسناک اور شرمناک حالات دیکھتے ہیں، درحقیقت اسی پہلی صدی ہجری سے۔۔۔۔ جب کہ اسلام کے حقیقی اصول اور جذبہ مسلمانوں میں عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ آج تک جبکہ ہم خود کو مسلما کہتے ہیں ، چلے آرہے ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ اور دن بہ دن زیادہ افسوسناک اور ملال انگیز ہوتے جارہے ہیں۔

دوسری قوموں سے مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا شرمناک عیب اسلام سے وابستگی اور اس کی یپروی سے یپدا نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس بانی اسلام  کی تعلیمات سے دوری، اسلام کے قوانین کی بے حرمتی ، حکمرانوں اور رعایا نیز عام اور خاص مسلمانوں کے درمیان ظلم اور زیادتی کا وجود میں آنا اور بچھڑ جانے ، اندرونی کمزوری، زوال، مجبوری اور ادبار کا باعث ہوا ہے ، خدا نے مسلمانوں کو ان گناہوں اور لیت ولعل کے باعث ان کی واجبی سزا تک پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِّعمَۃً اَنعَمَھَاعَلٰی قَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَابِاَنفُسِھِم :۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا جو نعمت کسی قوم کو دیتا ہے وہ اس سے وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک اس کے افراد اپنی نیک انسانی عادتیں بدل نہیں ڈالتے (سورہ انفال ۔ آیت ۵۳)

خدا کے تمام مظاہر میں یہ قانون اٹل ہے ۔ وہ دوسری آیتوں میں فرماتا ہے :

اِنَّہُ لاَ یُفلِحُ المُجرِمُونَ :۔ یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (سورہ یونس ۔ آیت ۱۷)

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھلِکَ القُرٰی بِظُلمٍ وَّاَھلُھَا مُصلِحُونَ :۔ تیرا پروردگار کبھی ظلم سے کسی بستی کو نہیں اجاڑتا جب کہ اس میں مصلح (اپنی قوم کے امور کے اصلاح کرنے والے، ان کو آفات سے بچانے والے، ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کرنے والے اور عدل و انصاف کو رواج دینے والے) بندے موجود ہوں (سورہ ہودآیت ۱۱۷)

وَکَذٰلِکَ اَخذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ القُرٰی وَھِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخذَہُ اَلِیمٌ شَدِیدٌ :۔ ایسی ہی ہے تیرے پروردگار کی پکڑ جب کہ اس نے بستی والوں کو ان کے ظلم کے سبب سے سزا دی اس کی سزا بہت تکلیف دہ اور شدید ہوتی ہے۔ (سورہ ہود۔ آیت ۱۰۲)

اسلام سے کسی طرح یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدبختی سے چھٹکارا دلائے جب کہ خود اسلام ایسا رہ گیا ہے جیسے کاغذ پر روشنائی اور اس کے احکام جاری ہونے کا کوئی پتا نہیں ہے ۔ ایمان، ایمانداری، دوستی، محبت، نیک عمل ، چشم پوشی اور درگزر اور مسلمان بھائی کے لیےوہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند ہو وغیرہ ، یہ اسلام کے مانے ہوئے اصول ہیں لیکن اگلے پچھلے اکثر مسلمان یہ خوبیاں چھو بیٹھے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ہم مسلمانوں کو اور زیادہ ابتر دیکھ رہے ہیں جو دنیاوی منفعت کے لالچ میں آکر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں، تو ہم پرستی کا شکار ہوگئے ہیں، اسلام کی حقیقی زندگی کو نہ سمجھ پانے کے باعث فضول اور غیر واضح عقیدوں اور خیالوں کے باعث ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، دین کی حقیقت تک نہیں پہنچ پائے ہیں، انفرادی اور قومی بہبود بھلا بیٹھے ہیں اور ایسی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں کہ :

قرآن مخلوق ہے یا نہیں ؟

عذاب و رجعت کیونکر ہوگی ؟

بہشت اور دوزخ پیدا ہوچکے ہیں یا بعد میں پیدا ہوں گے؟ اس قسم کی بحثیں اور جھگڑے ہیں جنہوں نے ان کو غافل بنا دیا ہے اور گھٹن میں مبتلا کر دیا ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر بنا رہا ہے ، یہ ناخوشگوار جھگڑے اور بحثیں بتاتی ہیں کہ مسلمان دینداری اور خدا کی سچی عبادت کے سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں یہاں تک کہ تباہی اور زوال کے راستے پر جاپڑے ہیں اورجیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ان افسوسناک پروگراموں کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ ان کی کجی اس طرح بڑھتی جارہی ہے کہ جہالت اور گمراہی ان پر اپنا منحوس سایہ ڈالے ہوئے ہیں اور وہ سطحی اور بے بنیاد مسئلوں میں پڑ گئے ہیں اور فضولیات اور فرضیات میں پھنس گئے ہیں لڑائیوں ، جھگڑوں اور شیخیوں نے انہیں اندھے کنویں میں گرادیا ہے۔

جس دن سے اسلام کے کے جانی دشمن چوکنے مغرب نے اسلامی ملکوں کو اپنی توسیع پسندی کا محور بنالیا ہے ، اس دن سے مسلمان غفلت اور بے خبری کے عالم میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

بے شک مغرب کی توسیع پسندی نے مسلمانوں کو ایک خطرناک گھاٹی میں گرادیا ہے جو ان کے اندرونی جھگڑو ں اور باہمی مخالفتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسی گھاٹی ہے جس سے نکلنے کا راستا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا جیسا کہ زندگی بخشنے اور آزادیوں کی خوش خبری دینے والا قرآن کہتا ہے :۔

وَمَا کَانَ رَبُّک َلِیُھلِکَ القُریٰ بِظُلمٍ وَّاَھلُھَا مُصلِحُونَ :۔ تیرا رب کسی بستی کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا جب تک اس میں مصلح بندے موجود ہیں۔ (یعنی یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں جو اپنے جرم اور غفلت کے پیروں سے چل کر گہرے گڑھوں کی طرف جارہے ہیں) (سورہ ہود۔ آیت ۱۱۷)

آج بھی اور آئندہ بھی مسلمانوں کے لیے نجات اور خوش بختی کا راستا سوائے اس کے دوسرا نہی ہے کہ نہایت غور و توجہ سے اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی فضول خرچی اور بے فائدہ کاموں کا شمار کریں اور اپنی آنے والی نسل کو سدھارنے کے لیے اپنے محکم دین کے سائے میں ایک تحریک شروع کریں اور اس تحریک کے زیر اثر ظلم اور زیادتی کو اپنے اندر سے اکھاڑ پھینکیں ۔ یہی وقت ہے کہ وہ ان افسوسناک اور لرزا دینے والی ڈھلانوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں دنیا کے ظلم اور ستم سے بھر جانے کے بعد اسی تحریک سے اس میں عدل اور انصاف کا راج ہوجائے گا۔ جیسا کہ خدا اور اس کے پیغمبر  نے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور دی اسلام کو بھی جو آخری دین ہے اور جس کے بغیر دنیا کی درستی نہیں ہوسکتی ، سوائے اس کے اور کوئی انتظار نہیں ہے۔ یہ انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک پیشوا کی اشد ضرورت ہے جو آئے گا اور اسلام کے روشن چہرے سے توہم پرستی، بدعتوں اور گمراہیوں کی کثافتیں دھوڈالے گا اور انسان کو ہر جہتی بربادیوں ، ظلموں مسلسل دشمنیوں اور ان بے پروائیوں سے بچائے گا اور جو اچھے اخلاق اور انسانی روح کی بلندی سے برتی جارہی ہے خداوند عالم اس عظیم رہنما کو جلد ظاہر کرے اور اس کے ظہور اور انقلاب برپا کرنے سے پہلے کے معاملات کی راہ آسان بنائے۔ 

تبصرے
Loading...