ابدی زندگی اور اخروی حیات

معاد اسلامی تصور کائنات کے اصولوں میں سے ایک اصول جو دین اسلام کے ایمانی و اعتقادی ارکان میں سے ایک رکن بھی ہے، جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان ہے۔ عالم آخرت پر ایمان مسلم

معاد

اسلامی تصور کائنات کے اصولوں میں سے ایک اصول جو دین اسلام کے ایمانی و اعتقادی ارکان میں سے ایک رکن بھی ہے، جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان ہے۔ عالم آخرت پر ایمان مسلمان کی شرط ہے‘ جو شخص اس ایمان سے محروم ہو جائے یا اس کا انکار کر دے‘ تو وہ مسلمانوں کی صف سے خارج ہے۔

اصول توحید کے بعد جس اہم ترین اصول کی طرف اللہ کے نبیوں نے (بلااستثناء) متوجہ کیا ہے اور اس پر ایمان لانے کا کہا ہے‘ یہی اصول ہے‘ جو مسلمان متکلمین کے نزدیک “اصول معاد” کے نام سے مشہور ہے۔

قرآن کریم میں سینکڑوں آیات ایسی ہیں‘ جن میں کسی نہ کسی طرح سے موت کے بعد والے عالم اور روز قیامت‘ حشر و نشر کی کیفیت‘ میزان‘ حساب‘ ضبط اعمال‘ بہشت‘ جہنم اخروی‘ حیات کی جاودانی اور بعد از موت کے باقی مسائل کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔

لیکن ۱۲ آیات میں صراحتاً خدا پر ایمان لانے کے بعد روز قیامت پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے۔

قیامت کے بارے میں قرآن میں مختلف عبارتیں ہیں اور ہر عبارت معرفت کا ایک باب ہے۔ ایک عبارت “الیوم الاخر” ہے‘ اس عبارت سے قرآن ہمیں دو نکات کی یاد دہانی کرا رہا ہے:

(الف) اول یہ کہ حیات انسان بلکہ دنیا کی زندگی دو ادوار میں تقسیم ہوتی ہے‘ ہر دور کو ایک روز کہا جا سکتا ہے۔ ایک وہ دن اور دور ہے‘ جو اول اور ابتداء ہے۔ جس نے ختم ہو جانا ہے‘ یعنی دنیا کا دور‘ دوسرا وہ دن اور دور ہے‘ جو آخر ہے‘ جس کی کوئی انتہا نہیں یعنی آخرت کا دور۔

(ب) دوم یہ کہ چونکہ اس وقت ہم حیات کے پہلے دور کو طے کر رہے ہیں اور دوسرے دور اور دوسرے دن تک نہیں پہنچے اور وہ ہم سے پوشیدہ ہے‘ لہٰذا اس دن اور اس دن میں ہماری سعادت و خوش بختی اسی میں ہے کہ آج ہم اس آنے والے دن پر ایمان لے آئیں۔
انا لله و انا الیه راجعون

اس دور اور اس دن میں ہماری سعادت اس لئے ایمان پر منحصر ہے کہ ایمان ہمیں اعمال کے نتیجے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے خیالات‘ اعمال‘ اقوال‘ رفتار و کردار‘ اخلاق اور عادات بلکہ تمام صفات کا اور خود ہمارا بھی ایک روز اول ہے اور ایک روز آخر‘ ایسا نہیں کہ روز اول میں یہ سب ختم ہو جائیں اور معدم ہوں‘ بلکہ باقی رہیں گے اور روز آخر میں ان کا حساب ہو گا۔

لہٰذا ہمیں اپنے آپ اور اپنے اعمال اور نیتوں کو نیک کرنا چاہئے اور برے کاموں اور غلط خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس طرح ہمیشہ ہمیں نیکی‘ نیک خوئی و نیک چال چلن کی راہوں پر گامزن رہنا چاہئے۔

ہماری سعادت روز آخر میں اس لئے ایمان پر منحصر ہے کہ عالم آخر میں انسان کی نیک اور سعادت مند زندگی یا بری اور شقاوت آلود زندگی کا باعث اس دنیا میں اس کے انجام دیئے ہوئے اعمال اور کردار ہیں۔

اسی لئے قرآن کریم روز آخر یا آخرت پر ایمان کو سعادت بشر کے لئے لازم و حتمی قرار دیتا ہے۔

تبصرے
Loading...