ابتدائے اسلام میں خواتین کا کردار

ادیان عالم کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں بلکہ ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے۔ یہ تو گزشتہ ایک دو صدیوں کی بات ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیا لیکن اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے، قابل تحسی

ابتدائے اسلام میں خواتین کا کردار

ادیان عالم کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں بلکہ ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے۔ یہ تو گزشتہ ایک دو صدیوں کی بات ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیا لیکن اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے، قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی! بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتدا ہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے۔ اس دین حق کا تونقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے! یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغار اور مسلسل لوٹ مار کے ستائے ہوئے مسلمان معاشروں میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلمان عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے سونپا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ہماری تاریخ تو عورت کی ہمت، دانائی، حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے۔ ہمارا نقطہ آغاز تو حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوتا ہے جب ضعیف و ناتواں سمجھی جانے والی صنف نازک ہمت و عظمت کا ایک پہاڑ اور حوصلہ افزائی کا ایک سرچشمہ بن کر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک غیر متزلزل ستون کی طرح سہارا بن جاتی ہے۔ غار حراء سے اتر کر اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے تو گھبراہٹ اور پریشانی کے سائے آپ کا پیچھا کر رہے تھے مگر اپنے شوہر کی پاکبازی، بلند اخلاق اور انسان دوست کردار کی گواہ بن کر نبوت پر سب سے پہلے ایمان لے آئیں اور فرمایا کہ ’’اے مجسمہ صدق و امانت! اللہ تعالیٰ آپ جیسے بلند کردار کو کبھی پریشانی اور گھبراہٹ کے سایوں کے سپرد نہیں کرے گا۔ آپ انسانی معاشرہ کے لئے اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ جس انسان کا یہ مرتبہ و کردار ہو اللہ تعالیٰ اسے بھلا تنہا چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ یقینا اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں اور یہ جو پیغام آپ کو ملا ہے اس کا لانے والا وہی جبریل امین، وہی ناموس حق اور وہی فرشتہ ہے جو ابراہیم، خلیل اللہ علیہ السلام اور موسیٰ، کلیم اللہ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام حق لے کر آتا رہا ہے۔ آیئے میں اس کی تصدیق آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے کرائے دیتی ہوں جو مقدس صحیفوں کے عالم ہیں اور نبیوں کے احوال سے بخوبی آگاہ ہیں‘‘۔
غار حراء میں گوشت پوست سے عبارت ایک فرد بشر کا سامنا عالم ملکوت کی دنیا کے سرخیل حضرت جبریل امین علیہ السلام سے ہوا یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ عرش سے فرش کے ارتباط کی بنیاد پڑی تھی۔ اس کے وقوع پذیر ہونے پر سیّد وُلِدَ آدَمَ حضرت سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پریشانی اور گھبراہٹ ایک فطرتی بات تھی بلکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ غیر فطری بات ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ حواء کی بیٹی کی عظمت کو انسان بھول گئے ہیں اس کی عظمت رفتہ کو اجاگر کرنے اور عورت کا مرتبہ ہمیشہ کے لئے منوانے کی غرض سے ایک خدیجۃ الکبریٰ کے کردار کی ضرورت ہے۔ ایسا کردار جس کے سامنے انسانیت ہمیشہ جھکتی رہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حج اور عمرہ مکمل کرنے کے لئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت کو لازم ٹھہرا دیا گیا ہے اسی طرح سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے عظیم الشان کردار سے عورت کی عظمت کو ہمیشہ کے لئے تسلیم کروا لیا جائے۔
اس کے بعد دعوت اسلام میں سب سے زیادہ اذیت بھی خواتین نے اٹھائی۔ دعوت الی اللہ کی خاطر سب سے پہلی شہادت بھی عورت کے حصہ میں آئی جب حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے شہادت قبول کرکے ظلم کو ٹھکرا دیا۔ سب سے پہلے ہجرت کرنے والوں میں بھی خواتین پیش پیش تھیں۔ حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ اللہ کی راہ میں پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔ ہجرت کے بعد قیام حبشہ کے دوران مسلم خواتین کا کردار بھی تاریخ ساز ہے۔
ابتدائے اسلام یا دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلم خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور کردار ادا کیا اور بڑی آزادی اور خوشی کے ساتھ ادا کیا۔ علم سیکھنے سکھلانے کا میدان ہو یا معاشرتی خدمات کا میدان، اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع ہو یا سیاست و حکومت کے معاملات ہوں، سب میں خواتین کا واضح، روشن اور اہم کردار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین سب ایک ساتھ شریک ہوتے تھے اور دین کی باتیں پوچھتے اور سمجھتے تھے۔ صحابیات رضی اللہ عنہن نے شکایت کی کہ خواتین سے متعلق کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم اپنے باپ دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے ایک دن الگ سے مخصوص کردیا جس میں مرد شریک نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح چھ دن مردوں کے ساتھ اور ایک دن الگ سے حاضر ہو کر اپنے مسائل کا حل پوچھتی تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک خواتین کی تعلیم و تربیت مردوں سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔
میدان جنگ میں مسلم خواتین، مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور اس کار خیر میں کسی بڑے یا چھوٹے کی تفریق و تمیز نہیں تھی حتی کہ غزوہ احد میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے موجود تھیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی مسلم خواتین نے اپنے ایسے ہی کارہائے خیر میں بھرپور کردار ادا کیا، ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا جو طب کا علم کامل رکھتی تھیں ان کا خیمہ ایک ڈسپنسری اور ہسپتال کا کام دیتا رہا۔ اس ابتدائی عہد اسلام میں مسلم خواتین نے مشاورت میں بھی اپنا تعمیری کردار ادا کیا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ جہاں کوئی حیلہ کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا وہاں ایک مسلم خاتون کی صائب اور درست رائے نے مسئلہ کا کامیاب حل پیش کرکے حالات کا رخ ہی بدل دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ کے قرب و جوار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کئی سال بعد آئے تھے مگر عمرہ و زیارت بیت اللہ کے بغیر واپس ہونے پر مجبور ہونا پڑا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کھول کر واپس جانے کا اعلان فرما دیا تھا مگر زیارت بیت اللہ کے لئے تڑپنے والی نیک روحیں جیسے بے جان ہوکر بیٹھ گئی ہوں، آپ فکر مند تھے کہ یہ غمزدہ ساتھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے انہیں احرام کھولنے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ آپ اسی حال میں اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیا، اہل ایمان کی روحانی ماں اپنے فرزندوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھیں۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جانثار تو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے منتظر رہتے ہیں، اگر آپ احرام کھول دیں اور وضو کرکے نفل سے فارغ ہو کر تیاری کرلیں تو یہ لوگ بھی دوڑ کر آپ کے نقش قدم پر چل پڑیں گے چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ جب آپ احرام کھول کر تیار ہوئے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ کی پیروی کی اور چند لمحوں میں غمزدہ قافلہ مدینہ منورہ کی طرف رواں دواں تھا۔
وصال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے تعلیم قرآن کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی مسائل کی تعلیم بھی دینا شروع کردی حتّٰی کہ ام المومنین رضی اللہ عنہما کا اپنا حجرہ ایک درسگاہ نظر آنے لگا۔ امہات المومنین کی پیروی میں دیگر خواتین اسلام نے بھی اشاعت علم اور فہم دین کو اپنے لئے لازم ٹھہرا لیا۔ اس طرح علم کی تدریس، تعلیم کے فروغ اور حدیث کی روایت میں ابتدائی دور کی مسلم خواتین نے سرگرم کردار ادا کیا۔ یہ سب باتیں ایک حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ ابتدائے اسلام میں مسلم خواتین نے اپنا بھرپور تعمیری اور مثبت کردار ادا کرکے آنے والے وقتوں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ اور قابل تقلید مثالیں قائم کردی ہیں جو آج بھی مسلمان عورت کے لئے مشعل راہ ہیں اور رہیں گی۔
 



source : alhassanain

تبصرے
Loading...