آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن

آنحضرت  (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن

آخر میں آنحضرت  (ص) کے خورشید زندگی کی ایک شعاع پر ، جو اِن کی رسالت کی گواہ بھی ھے ،نظر ڈالتے ھیں :

جس دور میں دعوت اسلام کے اظھار پر مال ومقام کی پیشکش اور دھمکیاں اپنی آخری حد کو پھنچ گئیں، قریش نے ابو طالب (ع) کے پاس آکر کھا: تمھارے بھتیجے نے ھمارے خداؤں کو برا کھا ، ھمارے جوانوں کو تباہ اور جماعت کو منتشر کردیا۔اگر اسے مال چاھیے تو ھم اتنا مال ودولت جمع کریں گے کہ تمام قریش میں بے نیاز ترین شخص بن جائے اور  جس عورت سے چاھے  اس سے شادی کردیں گے، یھاں تک کہ سلطنت وبادشاھی کا وعدہ بھی دیا گیا، لیکن آنحضرت کا جواب یہ تھا : اگرمیرے داھنے ھاتھ پر  سورج اوربائیں ھاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میںاس دعوت سے باز نھیں آؤں گا۔ [103]

یہ دیکھ کر کہ اس لالچ دلانے کا بھی اثر نہ هوا تو انہوں نے دھمکیوں اور اذیتوں کا سھارا لیا ، جن کا ایک نمونہ یہ ھے کہ جب آپ  (ص) مسجد الحرام میں نماز شروع کرتے بائیں جانب سے دوشخص سیٹی اور دائیں طرف سے دو شخص تالیاں بجاتے، تاکہ نماز میں خلل ڈالیں۔ [104] راستہ چلتے وقت آپ  (ص) کے سرِمبارک پر خاک پھینکا کرتے اور سجدے کی حالت میں آپ  (ص)پر بھیڑ کی اوجھڑی پھینکتے۔ [105]

حضرت ابوطالب(ع) کی رحلت کے بعد آپ نے قبیلہٴِ ثقیف کے بزرگوں سے تبلیغ ِ دین کے سلسلے میں مدد لینے کے لئے طائف کی جانب سفر کیا، لیکن انہوں نے دیوانوں اور غلاموں کواس بات پر اکسایا کہ آنحضرت(ص) کا پیچھا کر کے آپ کو آزار پھنچائیں۔ آنحضرت (ص)نے ایک باغ میںپناہ لی اور انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ آنحضرت (ص)کی حالت اتنی رقت بار تھی کہ مشرک دشمن کو بھی آپ  (ص)کی حالت پر رحم آگیا اور عداس نامی نصرانی غلام سے کھا: انگور توڑ کر اس کے پاس لے جاؤ۔جب غلام نے انگوروں کا طبق آپ  (ص) کے پاس لا کررکھا، آپ  (ص)نے ھاتھ آگے بڑھاتے هوئے کھا: بسم اللہ ۔

غلام نے کھا: اس شھر کے لوگ تویہ کلمات نھیں بولتے ۔

فرمایا:کس شھر سے هو؟اور تمھارا دین کیاھے؟اس نے کھا: نصرانی هوں اور میرا تعلق نینوا سے ھے ۔

فرمایا :یونس بن متی کے شھرسے ؟

عداس نے کھا: یونس کو کھاں سے جانتے هو؟

فرمایا: وہ میرا بھائی اور پیغمبر تھا، میں بھی پیغمبر هوں۔ یہ سنتے ھی عداس نے آنحضرت  (ص) کے ھاتھ پاؤں کا بوسہ لیا۔ [106]

آنحضرت (ص) کے پیروکاروں کو سخت ترین تشدد کے ذریعے تکالیف میں مبتلا کیا جاتا اور ان میں سے بعض کوجلتی دھوپ میں ڈال کر ان کے سینوں پر بھاری بھر کم پتھر رکھے جاتے لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر یہ کلمات جاری هوتے:”احد، احد۔“ [107]

عمار یاسر کی ضعیف العمر اور ناتواں ماں سمیہ کو نھایت شدید اذیتوں میں رکھا گیا تاکہ دین خدا کو چھوڑ دے، آخر کا ر جب وہ بوڑھی خاتون نہ مانی تو اسے دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا۔ [108]

اس قوم سے اتنی زیادہ تکالیف کا سامنا کرنے کے بعد جب آپ  (ص) سے ان کے خلاف بد دعا کرنے کو کھا گیا تو فرمایا:((إنما بعثت رحمة للعالمین )) [109] اور ان مظالم کے مقابلے میں اس قوم پر عنایت ومھربانی کا یہ عالم تھا کہ یہ دعا فرماتے : ”اے پروردگار!میری قوم کو ھدایت فرما کہ یہ نادان ھیں۔ “ [110]

عذاب مانگنے کے بجائے رحمت کی دعا کیا کرتے۔ رحمت بھی وہ کہ جس سے بڑی رحمت کا تصور نھیں کیا جاسکتا، یعنی نعمت ِ ھدایت۔”قومی“ (میری قوم)کا لفظ استعمال کر کے اس قوم کو خود سے منسوب کردیا کہ اس نسبت سے ان کو عذاب خدا سے بچاؤ کا تحفہ عطا کردیں، خدا کی بارگاہ میں ان کی شکایت کرنے کے بجائے شفاعت کرتے اور  ان کی جانب سے یہ عذر پیش کرتے کہ یہ نادان ھیں۔

زندگی گزارنے کا انداز یہ تھا کہ جوکی روٹی خوراک تھی،اس کو بھی کبھی سیرہو کر  تناول نہ کیا۔ [111]

غزوہٴ خندق میں آپ  (ص) کی بیٹی صدیقہٴ کبریٰ  علیھا السلام، آپ  (ص) کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا لائی جو تین دن کے فاقے کے بعد پھلی غذا تھی، جسے آپ  (ص) نے تناول فرمایا۔ [112]

اور زندگی کا یہ اندازتنگدستی کی وجہ سے نہ تھا ، اس لئے کہ اسی زمانے میں آپ  (ص) کی بخشش و عطا سو اونٹوں تک بھی پھنچتی تھی۔ [113]

دنیا سے جاتے وقت نہ آپ  (ص) نے درھم و دینار چھوڑے، نہ غلام و کنیز اور نہ ھی کوئی بھیڑ اوراونٹ، بلکہ آپ کی زرہ بھی مدینہ کے ایک یہودی کے پاس تھی، جسے آپ  (ص) نے گھر والوں کی غذا کے انتظام کے لئے خریدے گئے بیس صاع جو کے بدلے گروی رکھوایا تھا۔ [114]

دو نکات کی طرف توجہ ضروری ھے :

۱۔اس میں کوئی شک نھیں کہ آنحضرت  (ص) کے مقام ومنزلت اور بے نظیر امانت داری کے هوتے هوئے کوئی بھی آپ سے گروی رکھنے کا تقاضا نھیں کرتا تھا، لیکن یہ سمجھانا مقصود تھا کہ قرض کی تحریری دستاویز نہ هونے کی صورت میں، اسلام کی عظیم ترین شخصیت تک، ایک یہودی کے حق میں بھی قانونِ رھن کا خیال رکھے، جو صاحبِ مال کے لئے وثیقہ ھے ۔

۲۔لذیذ ترین غذائیں فراھم هونے کے باوجود پوری زندگی جو کی روٹی سے اس لئے سیر نہ هوئے کہ کھیں  آنحضرت کی غذا رعایا کے نادار ترین فرد کی غذاسے بہتر نہ هو۔

 

آپ (ص) کے ایثار کا نمونہ یہ ھے کہ وہ بیٹی جس کے فضائل سنی اور شیعہ کتب میں بکثرت ذکر کئے گئے ھیں، قرآن مجید میں مباھلہ[115] اور تطھیر[116] جیسی آیات اور حدیث کساء[117] و عنوان ِ((سیدة نساء اٴھل الجنة))[118] جیسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احادیث جو اس انسان کامل میں ممکنہ کمال ِانسانی کے مکمل تحقق کی دلیل ھیں، ایسی بیٹی جس کے توسط سے رسول خدا  (ص) کی نسل تاقیات باقی رھے گی، وہ جس کی آغوش میں مطلعِ نجومِ ھدایت اور ائمہ اطھار پروان چڑھتے رھے اور پیغمبر اسلام(ص)کے نزدیک جس کے احترام کا عالم یہ تھا کہ جب بھی آنحضرت (ص)کی خدمت میں تشریف لاتیں آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹھاتے اور ھاتھوں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔[119]وہ بیٹی جووالد گرامی کی اقتداء میں محراب عبادت میں اتنا قیام کرتیں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتا[120] اور اتنا زیادہ محو عبادت هونے کے باوجود امیر المومنین(ع)کے گھر اس طرح خانہ داری کرتیں کہ ایک دن جب  پیغمبر اسلام(ص)تشریف لائے تو آپ بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ چکی بھی چلا رھی تھیں، آنحضرت  (ص) نے آنسوؤں سے تر آنکھوں کے ساتھ یہ رقت بار منظر دیکھا اور فرمایا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة))[121] تو آنحضرت  کے جواب میں کھا:((یا رسول اللّٰہ(ص))! الحمد للّٰہ علی نعمائہ والشکر للّٰہ علی آلائہ))۔ ایسی بیٹی اپنے چکی چلانے کی وجہ سے گٹے پڑے هوئے ھاتھو ں کولے کر  والد گرامی کے پاس کنیز مانگنے کے لئے تو آئی لیکن اپنی حاجت بیان کئے بغیرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بیٹی کے گھر میں رزو جواھر کا انبار لگا سکتا تھا، خدمت گزاری کے لئے غلام اور کنیزیں دے سکتا تھا، اس نے خدمت گزارکے بجائے چونتیس مرتبہ تکبیر، تینتیس مرتبہ تحمید اور تینتیس مرتبہ تسبیح تعلیم فرمائی۔[122]

یہ ھے کردار ِحضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایسی بیٹی کے مقابلے میں  ناداروں کے ساتھ کس طرح ایثار فرماتے ھیں اور وہ ھے والد گرامی کی صبر کی تلقین  کے جواب میں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صدیقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰھی میںفنا اور الطاف الھیہ میں استغراق کا ایسا نمونہ پیش کرتی ھے کہ کڑواہٹ کو مٹھاس اور مصیبت وپریشانی کو اس کی نعمت قرار دیتے هوئے ا س پر صبر کے بجائے حمد وشکر کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ھے ۔

آپ  (ص)کے اخلاق وکردار کا نمونہ یہ ھے کہ خاک پر بیٹھتے[123] غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے اور بچوں کوسلام کرتے تھے ۔[124]

ایک صحرانشین عورت آپ  (ص) کے پاس سے گزری تو دیکھا آ پ  (ص) خاک پر بیٹھے کھانا کھا رھے ھیں۔ ا س عورت نے کھا:اے محمد  (ص)!تمھاری غذا غلاموں جیسی ھے اور بیٹھنے کا انداز بھی غلامو ں جیسا ھے۔ آپ  (ص) نے فرمایا :مجھ سے بڑھ کر غلام کون هوگا۔[125]

اپنے لباس کو اپنے ھاتھوں سے پیوند لگاتے[126]،بھیڑ کا دودھ نکالتے [127]اور غلام وآزاد دونوں کی دعوت قبول کرتے تھے ۔[128]

اگر مدینہ کے آخری کونے میں بھی کوئی مریض هوتا اس کی عیادت کو جاتے ۔[129]

فقراء کے ساتھ ھم نشینی فرماتے اور مساکین کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جاتے ۔[130]

آپ  (ص) غلاموں کی طرح کھاتے اور غلاموں کی مانند بیٹھتے تھے۔[131]

جو کوئی آپ (ص) سے ھاتھ ملاتا ،جب تک وہ خود نہ چھوڑتا آپ اپنا ھاتھ نھیں کھینچتے تھے ۔[132]

جب کسی مجلس میں تشریف لاتے تو آنے والے جھاںتک بیٹھ چکے هوتے ان کے بعد بیٹھ جاتے[133] اور کسی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نھیںدیکھتے ۔[134]

 پوری زندگی میں سوائے خدا کی خاطر کسی پر غضب نہ کیا ۔[135]

ایک عورت آنحضرت  (ص) کے ساتھ گفتگو کر رھی تھی ،بات کرتے وقت اس کے بدن پر کپکپی طاری هوگئی تو آپ نے فرمایا :آرام واطمینان سے بات کرو، میں کوئی بادشاہ نھیں ہوں، میں اس عورت کا بیٹا هوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتا تھی۔[136]

انس ابن مالک نے کھا: میں نو سال آنحضرت  (ص) کی خدمت میں تھا آپ  (ص) نے کبھی نہ کھا :”ایسا کام کیوں کیا؟“ اور کبھی عیب جوئی  نہ فرمائی۔[137]

ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے، انصار کے بچوں میں سے ایک بچی نے آکر آپ  (ص) کے لباس کا ایک کونا پکڑا ۔آپ  (ص) اس کی حاجت روائی کے لئے اٹھے، لیکن نہ تو اس بچی نے کچھ کھا اور نہ آپ  (ص) نے پوچھا کہ تمھیںکیا چاھیے ؟یھاں تک کہ یہ عمل چار مرتبہ تکرار هوا۔چوتھی مرتبہ اس نے حضرت  (ص)کے لباس سے دھاگہ توڑ لیا اور چلی گئی۔اس بچی سے پوچھا گیا: یہ تم نے کیا کام کیا؟

اس بچی نے کھا: ھمارے یھاں ایک شخص مریض ھے۔مجھے بھیجا گیا کہ میں اس کی شفا کے لئے آنحضرت  (ص) کے لباس سے دھاگہ توڑ کر آؤں ۔جب بھی میں دھاگہ لینا چاہتی تھی میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت  (ص) مجھے دیکھ رھے ھیں اور اجازت لینے میں مجھے شرم آتی تھی، یھاں تک کہ چوتھی بار دھاگہ نکالنے میں کامیاب هوگئی۔[138]

احترامِ انسان کے سلسلے میں، یہ واقعہ آنحضرت  (ص)کی خاص توجہ کی نشاندھی کرتا ھے،کیونکہ اپنی فراست سے بچی کی حاجت اور سوال سے کراہت کو سمجھ کر اس کی حاجت روائی کے لئے چار مرتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے هوئے، لیکن یہ  نہ پوچھاکہ اسے کیا چاہئے، تاکہ اس کےلئے ذھنی پریشانی وذلتِ سوال کا باعث نہ هو۔

اس باریکی اوردقت نظری سے بچی کی حرمت وعزت کا پاس رکھنے والے کی نظر مبارک میں بڑوں کے مقام ومنزلت کی کیا حد هوگی ۔

تبصرے
Loading...