آخري نبي ص کي بشارت پچھلے انبياء نے دي

انسان کي رہنمائي کے ليۓ اللہ تعالي نے ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء کو اس زمين پر بھيجا جنہوں نے اپنے خدا کے حکم پر انسان کو زندگي گزارنے کے طريقے بتاۓ اور خدا کي پہچان کرائي – انبياء کي تاريخي حيثيت واھميت اور کردار، ان کے مثبت اثرات اور تعميري اقدامات جو انہوں نے ادا کيے يا تھذيب وتمدن کے لئے ان کے خدمات کسي سے پوشيدہ نھيں ھيں- انبياء تاريخ بشريت کے بزرگ ترين مصلح اوردل سوز ودردمند ترين رھبر رھے ھيں کہ جنھوں نے بشر کو اس کے کمال و سعادت اور نجات کي آخر

انسان کي رہنمائي کے ليۓ اللہ تعالي نے ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء کو اس زمين پر بھيجا جنہوں نے اپنے خدا کے حکم پر انسان کو زندگي گزارنے کے طريقے بتاۓ اور خدا کي پہچان کرائي – انبياء کي تاريخي حيثيت واھميت اور کردار، ان کے مثبت اثرات اور تعميري اقدامات جو انہوں نے ادا کيے يا تھذيب وتمدن کے لئے ان کے خدمات کسي سے پوشيدہ نھيں ھيں- انبياء تاريخ بشريت کے بزرگ ترين مصلح اوردل سوز ودردمند ترين رھبر رھے ھيں کہ جنھوں نے بشر کو اس کے کمال و سعادت اور نجات کي آخري منزلوں تک پھونچانے ميں کوئي کسر نھيں چھوڑي ھے- انبياء نے ھزارھا مسائل و مشکلات کا سامنا کيا، مصائب وآلام کو برداشت کيا نيز اپني اپني امتوں کي اذيتوں و آزار رسانيوں کو خندہ پيشاني سے قبول کيا اوراس طرح تاريخ و معاشروں ميں عظيم ترين تبدّل و تغيّر لانے ميں کامياب ھوئے-

تاريخ کے مطالعے سے اس حقيقت تک دسترسي حاصل کي جا سکتي ھے کہ گذشتہ انبياء ،رسول اکرم کي بعثت ونبوت کے بارے ميں بشارت دے چکے تھے- کتب تاريخ کے علاوہ قرآن کريم ميں بھي اس سلسلے ميں بھت سي آيتيں موجود ھيں:

<واذقال عيسيٰ ابن مريم يابني اسرائيل اني رسول الله اليکم مصدقاً لما بين يدي من التوراة و مبشراً برسول ياتي من بعدي اسمہ احمد فلما جائھم بالبينات قالوا ھذا سحر مبين>

جب عيسيٰ بن مريم نے کھا کہ اے بني اسرائيل! ميںتمھاري طرف الله کا رسول ھوں ميں اپنے پھلے کي کتاب، توريت کي تصديق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ايک رسول کي بشارت دينے والا ھوں جس کا نام احمد ھے ليکن پھر بھي جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کھہ ديا کہ يہ توکھلا ھوا جادو ھے-

اھل کتاب کا ايک گروہ آپ کے انتظار ميں روز و شب کو شمار کرتا تھا- اس گروہ کے پاس آپ کے بارے ميں واضح وروشن دلائل و نشانياں موجود تھيں-

<الذين يتبعون الرسول النبي الا مي الذي يجدونہ مکتوباً عندھم في التوراة والانجيل>

حتي يہ افراد مشرکين سے کھا کرتے تھے کہ حضرت اسماعيل کے فرزندوں ميں کہ عرب کے بعض قبائل جن پر مشتمل تھے، ميں سے ايک فرزند، رسول ھوگا جو گذشتہ انبياء اورتوحيدي اديان کي تصديق وتائيد کرے گا-

<ولما جائھم کتاب من عند الله مصدق لما معھم وکانوا من قبل يستفتحون علي الذين کفروا فلما جائھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة الله علي الکافرين>

اور جب ان کے پاس خدا کي کتاب آئي ھے جو ان کي توريت وغيرہ کي تصديق بھي کرنے والي ھے اور اس کے پھلے وہ دشمنوں کي مقابلے ميں اسي کے ذريعے طلب فتح بھي کرتے تھے ليکن اس کے آتے ھي منکر ھو گئے حالانکہ اسے پھچانتے بھي تھے تو اب کافروں پر خدا کي لعنت ھے-

اگرچہ بعض يھودي ونصاريٰ علماء ودانشمند اپنے شيطاني اور نفساني مفادات کي خاطر دين اسلام کو قبول کرنے سے کتراتے تھے پھر بھي بعض دوسرے يھودي ونصاريٰ علماء دانشمند انھيں پيشن گوئيوں کي بنا پر آنحضرت پر ايمان لے آئے تھے –

<واذا سمعوا ما انزل اليٰ الرسول تري اعينھم تفيض من الدمع مما عرفوا من الحق يقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاھدين>

اور جب وہ اس کلام کو سنتے ھيں جو رسول پر نازل ھوا ھے تو تم ديکھتے ھو کہ ان کي آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاري ھو جاتے ھيں کہ انھوں نے حق کو پھچان ليا ھے اور کھتے ھيں کہ پروردگار ھم ايمان لے آئے ھيں- لھٰذا ھمارا نام بھي تصديق کرنے والوں ميں شامل کرلے-

قرآن کريم اسي بات کي طرف اشارہ کرتا ھوا شناخت رسول اکرم  صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سلسلے ميں فرماتا ھے:

<اولم يکن لھم آيةً ان يعلمہ علماء بني اسرائيل >

کيا يہ نشاني ان کے لئے کافي نھيں ھے کہ بني اسرائيل کے علماء بھي اسے جانتے تھے-

غور طلب نکتہ يہ ھے کہ اس طرح کي بشارتوں کو موجودہ توريت وانجيل سے غائب کرنے کي تمام تر کوششوں کے باوجود ان کتابوں ميں ابھي بھي ايسے اشارے پائے جاتے ھيں جو طالبان حق پر اتمام حجت کے لئے کافي ھيں- يھي اشارے اور بشارتيں اس بات کا بھي سبب بن گئي ھيں کہ واقعي طور پر حق کي جستجو کرنے والے يھودي وعيسائي علماء ھدايت پائيں اور دين مقدس اسلام کے گرويدہ ھو جائيں- ابھي ماضي قريب ميں ھي تھران کے ايک بھت بڑے يھودي دانشمند اور کتاب”‌ اقامة الشھود في رد اليھود ”کے مصنف ميرزا محمد رضا اور شھريزد کے يھودي دانشمند اور کتاب”‌ محضر الشھود في رد اليھود ”کے مصنف باباقزويني يزدي نيز سابق عيسائي پادري اور کتاب محمد در توريت وانجيل کے مصنف پروفيسر عبد الاحد داؤد ايک طويل جستجو اور حصول راہ مستقيم کے بعد دين اسلام کوقبول کرچکے ھيں-

1- قرآن مجيد نے اس بات کو صريح طور پر بيان کيا ہے کہ حضرت ابراہيم نے دعا کي صورت ميں حضرت خاتم النبيين کي رسالت کي اس طرح بشارت دي ہے (مکہ مکرمہ ميں خانۂ خدا کي بنيادوں کو بلند کرنے، اپنے اور حضرت اسماعيل کے عمل کو قبول کرنے اور اپني ذريت ميں ايک گروہ کے مسلمان رہنے کي دعا کرنے کے بعد)( ربّنا وابعث فيھم رسولًا منھم يتلوا عليھم آياتک و يعلّمھم الکتاب و الحکمة و يزکّيھم انک انت العزيز الحکيم-)(1)

پروردگار! ان ميں انہيں ميں سے رسول غ– بھيجنا جو ان کے سامنے تيري آيتوں کي تلاوت کرے اور انہيں کتاب و حکمت کي تعليم دے اور انہيں پاک کرے بيشک تو عزت و حکمت والا ہے –

2- قرآن مجيد نے اس بات کي بھي تصريح کي ہے کہ توريت کے عہد قديم اور انجيل کے عہد جديد ميں محمد (ص)  کي

…………..

1-محمد في القرآن ص 36 و 37-

نبوت کي بشارتيں ہيں يہ دونوں عہد، نزولِ قرآن اور بعثتِ محمدغ– کے وقت موجود تھے اگر ان دونوں عہدوں ميں يہ بشارت نہ ہوتي تو ان کے ماننے والے اس بات کو جھٹلا ديتے-

ارشاد ہے :(الّذين يتّبعون الرّسول النّبي الامّي الّذي يجدونہ مکتوباً عندھم في التّوراة و الانجيل يأ مرھم بالمعروف و ينھاھم عن المنکر و يحّل لھم الطّيبات و يحرّم عليہم الخبائث و يضع عنھم اصرھم والاغلال التي کانت عليہم)

جو لوگ رسول نبي امي کا اتباع کرتے ہيں جس کا ذکروہ اپنے پاس توريت و انجيل ميں لکھا ہوا پاتے ہيں وہ نيکيوں کا حکم ديتا ہے اور برائيوں سے روکتا ہے پاک و صاف چيزوں کو حلال قرار ديتا ہے گندي چيزوں کو حرام قرار ديتا ہے اور ان سے بارگراں اور پابنديوں کو اٹھا ديتا ہے –

سورہ صف کي چھٹي آيت اس بات کي صراحت کر رہي ہے کہ حضرت عيسيٰ نے توريت کي صداقت کي تصريح کي ہے اور اپنے بعد آنے والے اس نبي کي رسالت کي بشارت دي ہے جس کا نام احمد ہوگا اور يہ بات آپ نے تمام بني اسرائيل کو مخاطب کرکے فرمائي تھي صرف حواريوں کو مخاطب قرار نہيں ديا تھا-

تبصرے
Loading...