آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

خداوند متعال کے اس فرمان:”جولوگ دنیا میں اندھے هیں ،وه آخرت میں بھی اندهے هوںگے”کا مراد کیا هے؟

ایک مختصر

اس آیه شریفه[i] اور اس کی مشابه[ii] دوسری آیات میں اعمی سے مراد دنیا میں جسمانی اندھا پن نهیں هے ،بلکه اس سے مراد یه هے که شخص دانسته طور پر اپنے آپ کو اندها بنائے،یعنی خدا کے جلوٶں اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی حقانیت کو دیکھتا هے اور حق وحقیقت تک پهنچتا هے،لیکن دل سے ان کا معتقد نهیں هو تا هے ,جیسے که اصلا اس کی آنکهوں نے ان آثار اور عظمتوں کو نهیں دیکھا هے .وه دینی مسائل کے ساتھ ایسا بر تاٶ کر تا هے ،جیسا که نه انھیں دیکھا هے اور نه انھیں سنا هے،لهذا حق بات کهنے اور اس کے اقرار کرنے سے بهی اجتناب کر تا هے اور قرآن مجید کی تعبیر میں یه(دانسته طورپر)اندها،بهرا اور گونگا هے.

آخرت کی اکثر سزائیں تجسم اعمال کی صورت میں هیں،اس کا قلبی اندها پن نمایاں هو کر اس کے لئے عذاب و تکلیف کا سبب بن جاتا هے،محشر میں جهاں آیات الهی اور مومنین جلوه گرهیں وه اندها هے اور حق کے دل ربا جمال،مومنین کے نورانی چهرے اور بهشتی نعمتوں کو دیکھنے کی قدرت نهیں رکھتا هے اور بهشت کی طرف جانے کے کسی راسته کو نهیں پا سکتا هے.لیکن اس کے جهنم میں داخل هو نے کے بعد اس کے عذاب میں شدت پیدا هو نے کے لئے ،مختلف عذاب اور عذاب میں مبتلا جهنمیوں کو دیکھنے کے لئے اس کی آنکهیں کهل جاتی هیں ،چونکه دنیا میں بهی ایسا هی تها کھ حق و حقیقت کے سامنے وه اپنی آنکھوں کو بند کرلیتا تها اورباطل،دنیا اور دنیا پرستوں کے لئے اپنی آنکھیں کھولے رکھتا تھا.

پس اس سے ادراک سلب نهیں هو تا تها ،بلکه قیامت کے دن سب کا ادراک اپنے کمال تک پهنچتا هے اور سب غیبی امور کے بارے میں ،جیسے خدا کا وجود ،وحی ،ملائکه ،بهشت و جهنم و… عین الیقین تک پهنچتے هیںاور کسی شخص کے لئے ان امور کے سلسله میں انکار وشبهه کی کوئی گنجائش باقی نهیں رهتی .

 

[i]  “ومن کان فی هذه اعمی فهو فی الآخره اعمی واضل سبیلا”جو اس دنیا میں اندها هے ،آخرت میں بهی اندها هو گا بلکه گمراه تر،اسراء/٧٢.

[ii]  “ونحشره یوم القیامه اعمی،قال رب لم حشرتنی اعمی وقد کنت بصیرا”،طه ،١٢٤و ١٢٥.

تفصیلی جوابات

انسان کا ڈهانچه مختلف ابعاد اور توانائیوں کا حامل هے ،جن میں سے بعض ظاهری اور حسی هیں اور بعض باطنی اور انسان کی روح سے مربوط هیں ،لیکن ظاهری توانائیاں ،بدن کی نوکر اور لذتوں اور بدن کی ضرورتوں کو پورا کر نے کے اوزار هو نے کے علاوه (جیسا که حیوان میں بهی یهی ذمه داریاں رکھتی هیں)دل تک اطلاع پهنچانے کی راه  اور معارف کسب کر نے اور جذبات و احساسات کو ابهار نے والی بهی هیں ،اس لحاظ سے انسان کی پوری زندگی میں اس کو سمت دتیی هیں.اب اگر انسان ان حسی نعمتوں ،خاص کر آنکهـ اور کان،سے پورا استفاده کرے اور ان دو اوزاروں کا صحیح استعمال کر ے اور اپنی انسانیت کی بلند راه میں ان سے بهره مند هو جائے،تو اس کو سمیع وبصیر کها جاسکتا هے ،(نه که صرف سننے اور دیکھنے والا ).لیکن اگر ان نعمتوں سے صحیح استفاده نه کرے اور ان سے حاصل هو نے والے معارف کے بارے میں ان سنی اور ان دیکھی کا مظاهره کرے اور ان معارف کے سلسله میں اقرار کی زبان نه کھولے تو گو یا وه سننے اور دیکھنے والا نهیں تھا ،کیونکه اس کی آنکھوں اور کان کا وه فائده نهیں هے جو اس کی حیات طیبه کے لئے هو نا چاهیےتها اور یه عدم فائده اس کی آنکهوں اور کان میں عیب کی وجه سے نهیں هے،بلکه یه ان نعمتوں کے بارے میں اس کے اختیار کا غلط استفاده اور عدم بیداری و تذکر کا نتیجه هے.

اس لحاظ سے،ممکن هے کھ انسان،خدا وخالقیت اور اس کی رحمت و عنایات  کے قرائن کا مشاهده کر تا هے ،لیکن خدا پر ایمان نهیں لاتا هے ،نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی صداقت کے قرائن اور آپ(ص) کے معجزات کو دیکھتا هے،لیکن ان کی تصدیق نهیں کر تا هے اور ان کی فر مودات کے سامنے سر تسلیم خم نهیں کرتا هے ،ولی علیه السلام کے بارے میں نبی اکرم(ص)کے نصوص کو سنتا هے اور ان کی عظمتوں اور فضا ئل کو پاتا هے ،لیکن ان کا انکار کر تا هے اور اس کے نتیجه میں ولی کی ولایت کو مسترد کر تا هے اور ولایت کے تحت نهیں آتا هے بلکھ  اس کے ساتھـ جنگ کر تا هے ،یا خدا اور رسول خدا(ص) کے تذکروں کی توجه اور ان کی صداقت ،معاد کے ضروری هو نے کی علامتوں کے باوجود ابدی،بهشتی اور جهنمی زندگی کے وجود کا انکار کر تا هے…اگر کسی نے دنیا میں اپنی پوری عمر میں اس طرح کی زندگی بسر کی اور اپنی آنکھوں کو انسانیت و معنویت کی طرف سے بند رکھا اور ان سے منه موڑ لیا اور خدا اور اس کے رسول(ص)کی اطاعت اور ولی کے سامنے سر تسلیم خم نه کیا،تو وه آخرت میں بھی ،جو تجسم اعمال پرکھنے اور جزا وسزا پانے کی جگه هے ،کبریا ئے حق جل جلاله کے دلربا جمال اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور اولیائے خدا اور مومنین کی ملکوتی صورتوں اور بهشتی نعمتوں کا مشاهده کر نے سے محروم رهے گا اور جهنم میں داخل هو گا اور جس طرح دنیا میں دل کے اندھے پن کی وجه سے سعادت کے راستے میں آگے نه بڑھ سکا ،آخرت میں بھی اندها محشور هو گااور بهشت کو پانے سے محروم هو گا.

قرآن مجید میں قیامت میں اندهے پن کے اسباب وعلل کے طور پر مندرجه ذیل امور دینوی عوامل ،وعلل کے طور پر ذکر هوئے هیں:

خدا کا انکار اور محض دنیاداری  اور نفسانی خواهشات کی پرستش،[1] دین کے امور میں هٹ دھرمی اور بهانه تراشی،[2] آخرت کو فراموش کر نا اور اس پر اعتقاد نه رکھنا،[3] لوگوں کو دین سے روکنا اور خدا پر افتراباندھنا،[4] آیات الهی کو جھٹلانا اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو قبول نه کر نا،[5] قطع رحم (اور ولی(ع) کی ولایت کو قبول نه کر نا اور سر کشی وعصیان،[6] اس کے علاوه روایات میں بھی اندهے پن اور حق کو نه دیکھـ پانے کے مندرجه ذیل امور،مصادیق کے عنوان سے بیان کئے گئے هیں:امام علی علیه السلام کی ولایت کا انکار اور استطاعت کے باوجود مرتے دم تک واجب حج بجا نه لانا،[7] البته روایات میں آیات کے بارے میں بهی اشاره هوا هے.

آخرت میں اندها پن اس معنی میں نهیں هے که شخص هر قسم کے ادراک سے محروم هو ،جیسا که دنیا میں بھی ایساهی هے .وه محشر میں اپنے اندهے پن کا ادراک کر تا هے اور اس مطلب کی طرف بهی متوجه هے که یه دنیا کی سرائے کے علاو ه ایک اور سرائے هے وهاں پر آنکهیں رکهتا تها اور یهاں پر ان سے محروم هے .اس لئے اعتراض کی زبان کهولتا هے،جس طرح دنیا میں هٹ دهرمی اور اعتراض کر نے کا عادی تها.[8]

لیکن قرآن مجید کے ظاهر اور بعض روایات اور مفسرین کی تحقیقات سے جو معلوم هو تا هے ،وه یه هے که :قیامت میں متعدد توقف گاهیں هیں تاکه سر انجام بهشتی ،بهشت کی طرف راهی هو جائیں اور جهنمی،دوزخ میں ڈال دئے جائیں ،اور اس گروه کا اندها پن محشر کی توقف گاهوں سے متعلق هے ،تاکه جهنم میں داخل هو نے سے پهلے خداوند متعال کے جلال و جبروت اور اولیائے الهی کو دیکھنے سے محروم رهے ،لیکن جهنم میں داخل هو نے کے بعد اس کی آنکهیں کهل جاتی هیں ،تاکه اولیائے خدا کو نه دیکهنے اور عذاب میں مبتلا جهنمیوں کو دیکهنے سے اس کے عذاب میں اضافه هو جائے!

بعض تنگ نظروں نے خیال کیا هے که”من کان فی هذه اعمی”سے مراد دنیا میں جسمانی اندها پن هے،یعنی جو دنیا میں اندهے هیں ،جتنے بهی .بصیر اور فقیه هوں ،آخرت میں اندهے محشور هوںگے .جب که آیت کا مقصد ایسا نهیں هے اور “فی هذه اعمی”سے مراد دنیا میں ان کا اندها پن هے لیکن”فهو فی الاخره اعمی”سے  مراد ظاهری اندها پن اور اس کے چهرے پر دل کے اندهے پن کا ظهور اور تجسم هےتاکه اس کے عذاب کا سبب بنے .اور جیسا که بیان کیا گیا ،یه محشر میں اس کا اخروی اندها پن هے،لیکن جهنم میں داخل هو نے کے بعد تمام عذاب اور اس کے مجسمه اعمال پر اس کی آنکهں کهل جاتی هیں تا که زیاده عذاب میں مبتلا هو جائے،جس طرح وه دنیا میں عمل کر تا هے ،یعنی وه خدا کی نشانیوں اور او لیائے الهی کے مقابله میں آنکهیں بند کرتا تها اور دنیا کے سر مایه اور اپنے هم مسلکوں کو دیکهتا تها.”اعاذنا الله وایاکم من شرور انفسنا .”

منابع و ماخذ:

١.جوادآملی،عبدالله”فطرت در قرآن”،ج١٢،اسراء ،قم طبع دوم ٢٠٠٠ء ،ص١٠٤.٩٧و١٤٠.١٣٩.

٢.جوادی آملی، عبدالله،”معرفت شناسی در قرآن”،ج١٣،اسراء،قم،طبع دوم١٩٩٢ء،ص٣٥٧.٣٦٢.

٣.طباطبائی،سید محمد حسین ،المیزان (فارسی)،دفتر انشارات اسلامی،قم،ج١٣،ص٢٣٢.٢٣٣وج١٤،ص٣١٤.٣١٦.

٤.طیب،سید عبدالحسین ،”اطیب البیان”،ج٨،کتابفروشی اسلامی ،تهران،طبع دوم ،ص٢٨٧.٣٨٨.

٥.قرائتی ،محسن ،تفسیر نور ،در راه حق ،قم،طبع اول ٢٠٠٥ء مذکوره آیات کے ذیل میں حاشیه .

٦.قمی مشهدی،محمد بن محمد رضا،کنز الدقایق ،مٶسسه طبع ونشر (وزارت ارشاد)،تهران.طبع اول،١٤١١ھ.ج٧،ص٤٦٣و٥٢٤.٥٢٣وج٨،ص٣٧١.٣٨٦.

٧.مکارم،ناصر،”تفسیر نمو نه”،دارالکتب الاسلامیه ،تهران،طبع،١٧ ،٢٠٠٥ءمذکوره آیات کے ذیل میں حاشیه میں.

 

[1]  طه،/١٢٤ /١٢٧.اسراء/٩٧. ٧٢.

[2]  فصلت/١٧.

[3]  نمل/٦٦.

[4]  هود/١٨و ٢٨.

[5]  انعام/٥و٤.اعراف/٦٤.بقره/١٨و١٧.

[6]  محمد/٢٢و٢٣.

[7]  ملاحظه هو:”اطیب البیان”،ج١٨،ص٢٨٧و٢٨٨.المیزان ،ج٤،ص٣١٤.کنذ الدقایق،ج٧،ص٥٢٤، ٥٢٣و٤٦٢،٦ ٤٥،وج٨،ص٣٧١، ٣٦٨.

[8]  طه/١٢٧، ١٢٤.

تبصرے
Loading...