یہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ زمان و مکان خدا کی مخلوقات ہیں؟

سلام علیکم: یہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ زمان و مکان خدا کی مخلوقات ہیں؟ میں نے کچھ مدت پہلے ایک مطلب کو پڑھا، جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ زمان و مکان واجب الوجود ھوسکتے ہیں۔ اس کی دلیل کا ایک حصہ یہ تھا کہ، زمان کے واجب الوجود ھونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم زمان کو رفع کرنا چاہیں، اس رفع سے وجود لازم آتا ہے اور جس چیز کے رفع سے وجود لازم آتا ھو، تو اس کا حد رفع ممکن نہیں ہے اور اگر رفع ممکن نہ ھو تو واجب الوجود ہے۔ مہربانی کرکے زمان و مکان کے مخلوق ھونے کی کیفیت بیان کیجئے۔
ایک مختصر
لفظ” زمان” ایسے الفاظ میں سے ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ سہل و ممتنع امور میں سے ہیں، یعنی، سب اس کے بارے میں ایک قسم کا مفہوم ذہن میں رکھتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں عمیق ادراک کرنا اور اس سے متعلق مسائل کو سمجھنا کافی پیچیدہ اور مشکل ہے۔
وضاحت:
فلاسفہ” زمان” کی تعریف ” حرکت کی مقدار” کرتے ہیں۔ علامہ طباطبائی اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:” ہم اپنے ارد گرد کچھ حوادث کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض حوادث، بعض دوسرے حوادث کے بعد متحقق ھوتے ہیں، اس طرح کہ جو حادثہ بعد میں واقع ھوتا ہے، اس سے پہلے والے حوادث پر اس طرح متوقف ھوتا ہے کہ پہلے اور بعد والے حوادث کو جمع کرنا نا ممکن بنا تا ہے۔ اس قسم کا مقدم و مؤخر، دوسرے مقدم و مؤخر سے اس لحاظ سے کلی فرق رکھتا ہے، چنانچہ علت کے تقدم میں یا علت کے ایک حصہ کے معلول پر مقدم میں، اس قسم کا توقف نہیں ہے کہ متوقف اور متوقف علیہ کے اجتماع کو ممتنع بنائے، یہ ایک بدیہی مقدمہ ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
دوسری جانب، جس چیز کو ہم ” قبل” کے عنوان سے جانتے ہیں، وہ بذات خود دوقسم کے قبل و بعد میں تقسیم ھوتا ہے، بالکل اسی طرح کہ تمام حوادث میں مشاہدہ کیا گیا ہے، یعنی ایسا ہے کہ اس کا قبل اور بعد قابل اجتماع نہیں ہے اور اسی ترتیب سے جس قدر تقسیم کو گزشتہ حوادث میں جاری رکھیں پھر بھی دو حصے قبل اور بعد ھوں گے، اگر چہ یہ تقسیم لامتناہی حد تک جاری رہے۔
اس بنا پر پورے حوادث میں «كم متّصل غير فارّ» کی ایک قسم ھونی چاہئیے، کیونکہ اگر” کمی” درکار نہ ھو، تو اقسام بھی وجود نہیں رکھتی ہیں، اور اگر اتصال نہ ھو، قبل میں بعد متحقق نہیں ھوتا اور بعد میں قبل متحقق نہیں ھوتا، بلکہ یہ ایک دوسرے سے جدا ھوتے۔ بہ الفاظ دیگر۔ اگر اتصال نہ ھوتا تو قبل و بعد کے دوحصوں میں حد مشترک نہ ھوتا اور اگر غیرفارنہ ھوتا تو اجتماع ما قبل و مابعد، بالفعل متحقق ھوتا۔ اب جبکہ” کم” عرض ہے، اس کے لئے ایک موضوع کی ضرورت ھوتی جو اس کا معروض واقع ھوتا، لیکن ہم جو حرکت کو رفع کرتے ہیں یہ “کم” یا مقدار بھی رفع ھوتی ہے اور چونکہ ہم اسے اپنی جگہ پر رکھتے ہیں یہ بھی ثابت ھوتا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے، جسے ہم “زمان” کہتے ہیں۔ اس بنا پر زمان ایک ایسا امر ہے جو وجود رکھتا ہے اور اس کی ماہیت یہ ہے کہ متصل غیر فار کی مقدار حرکت پر عارض ھوتا ہے۔”[1]
اس بنا پر، زمان کی اس تعریف و تفسیر کو غیر مادی زمان کے امور کے بارے می استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، ایک حالت میں اس مسئلہ کو ذہن کے لئے قبول کرنا مشکل ہے۔ ہمارا ذہن کسی چیز کو زمان کے بغیر تصور نہیں کرسکتا ہے اور “کانٹ” کی تعبیر میں زمان ان قالبوں میں سے ہے کہ ذہن، اس کے بغیر کسی چیز کو درک نہیں کرسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، زمان کے بارے میں عام تصور وہی امتداد، کشش، بعد اور آمد کے معنی میں ہے، کہ ذہن کسی موجود کو زمان سے عاری نہیں دیکھ سکتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے بعض فلاسفہ نے غیر مادی امور کے لئے” دہر” و ” سرمد” کے الفاظ ایجاد کرکے تجویز کئے ہیں۔[2] علامہ طباطبائی اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:” زمان، صرف حرکات سے اعتبار رکھتا ہے۔ زمان امور متغیر اور تقدم و تاخر اور تغیرات کے مراتب کو معین کرتا ہے۔ کبھی ثابت موجودات، متغیر موجودات سے اعتبار پاتے ہیں، کہ معنای معیت ثابت و متغیر کو افادہ کرتا ہیں۔ اس قسم کی معیت کو “دھر” کہتے ہیں۔ کبھی ایک ثابت موجود، ثابت امور سے اعتبار پاتا ہے اور معیت کے معنی، ثابت امور سے افادہ کرتے ہیں۔ اسی طرح معیت، کلی ثابت کو مادی ثابت تک پہنچاتی ہے، اس قسم کی معیت کو ” سرمد” کہتے ہیں ۔
دھر اور سرمد میں کسی قسم کا تقدم و تاخر نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ ان میں تبدیلی اور تقسیم بندی ممکن نہیں ہے۔
صدر المتالھین ” اسفار” میں کہتے ہیں:” جو موجودات نہ خود حرکت ہیں اور نہ حرکت میں، وہ زمان میں نہیں ہیں، بلکہ ان کے ثبات کو متغیر امور کے ساتھ قابل اعتبار جاننا چاہئیے، اس قسم کی معیت کو ” دھر” کہتے ہیں۔ اسی طرح معیت امور متغیر کو دوسرے امور متغیر سے، نہ تغییر کی حیثیت سے، بلکہ صرف ان کے ثبات کے لحاظ سے بھی دہر کیا جاتا ہے، کیونکہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی قسم کے ثبات کی مالک نہ ھو، حتی اگر اس کا ثبات، ثبات تغیر بھی ھو۔ اور اگر ثابت امور، دوسرے ثابت امور سے قابل اعتبار ھو جائیں اس معیت کو ” سرمد” کہتے ہیں۔ اس قسم کی معیت کی ظرفیت اور معیت دھری میں تقدم و تاخر اور تغییر و تبدل نہیں ہے، کیونکہ تقدم و تاخر اور تبدل کے معنی میں سے کوئی ایک معیت کے ساتھ تضاد نہیں رکھتا ہے تاکہ اس کا مسلتزم بن جائے۔”[3]
لیکن “مکان” کے بارے میں، بعض مصنفین یوں کہتے ہیں:” مکان، جگہ کے معنی میں ہے، اس کی جمع امکنہ ہے ایک جگہ کے معنی میں ہے۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں وسیع مکان اور تنگ مکان۔ مکان، امتداد کے مترادف ہے اور ابن سینا کے مطابق اس کے معنی:” سطح داخلی جرم حاوی کہ متصل یا سطح خارجی جسم محوی ہے۔”[4] متکلمین کی نظر میں مکان کی تعریف یہ ہے کہ:” متوہم فراغت، جسے جسم مشغول کرتا ہے اور اس میں جسم کے ابعاد نافذ ہیں”۔[5] اس معنی میں مکان، جگہ کے مترادف ہے۔ اشراقی فلاسفہ کی اصطلاح میں مکان کے معنی:” موجود کا مجرد بعد جو اجسام سے لطیف تر اور مجردات سے کثیف تر ہے اور اس میں جسم نفوذ کرتا ہے اور وہ بعد جس میں جسم حلول کرچکا ہے، اس کے ہر بعد کے اجزاء اس کے ساتھ منطبق ھوتے ہیں۔ پس مکان ایک ایسا بعد ہے جو تمام جہات سے قابل تقسیم ہے اور جسم کے ابعاد کے مساوی ہے، اس طرح کہ جسم کے ابعاد اس کے ابعاد کے منطبق ھوتے ہیں اور اس میں جریان پاتے ہیں”۔[6]
لیکن جو کچھ نقل کئے گئے استدلال میں آیا ہے کہ چونکہ زمان کو آپ رفع کرنا چاہیں، تو اس کے رفع سے اس کا وجود لازم آتا ہے اور جس چیز کے رفع سے اس کا وجود لازم آئے تو اس کا رفع ممکن نہیں ہے اور اگر اس کا رفع ممکن نہ ھوتو وہ واجب الوجود ہے۔
یہاں پر ایک مغالطہ وجود میں آتا ہے، کیونکہ اولاً : زمان و مکان، فلاسفہ کی تعریف کے مطابق مادی اشیاء کے عوارض اور ممکن موجودات کے تابع ہیں ۔ ثانیاً اگر یہ قبول بھی کریں کہ زمان و مکان کے وسیع تر معنی ہیں، یعنی ان امور میں ہیں کہ ان دونوں کے بغیر ذہن کسی مفہوم کو درک نہیں کرسکتا ہے، اس صورت میں بھی زمان و مکان واجب الوجود نہیں ھوں گے، کیونکہ واجب الوجود کے معنی، یعنی جو موجود ذہن سے خارج عالم میں عین وجود و ھستی محض ہے اور وجود خارجی کا اس سے سلب ھونا ممکن نہیں ہے، لیکن زمان و مکان یہی مفاہیم ذہنی کی وسیع تعریف ہے اور حقیقت میں یہ ذہن کی خاصیت ہے کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ذہن اجتماع نقیضین کے امتناع کو مسترد نہیں کرسکتا ہے اور اس کو رفع کرنے سے اس کا وجود لازم آتا ہے، بہ الفاظ دیگر یہ ضروری اور بدیہی قضایا ہیں کہ ذہن موضوع کو محمول سے سلب کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس میں فرق ہے کہ ایک قضیہ کا صرف مادہ وجوب اور ضروری ھو، یعنی موضوع اور محمول کے درمیان رابطہ وجوب اور ضروری ھو، اور اس میں کہ ایک قضیہ اس کے علاوہ کہ اس ا مادہ ازلی ضروری اور وجوب ھو اور اس کا محمول بھی وجود ھو۔
نتیجہ یہ کہ زمان و مکان اگر فلسفی معنی کے لحاظ سے، یعنی موجودات مادی کے عوراض کو مد نظر رکھا جائے، تو زمان و مکان خداوند متعال کے مخلوق ہیں، کیونکہ جب مادی موجودات خداوند متعال کی مخلوقات ھوں تو ان کے عوارض بھی مخلق ہیں لیکن زمان و مکان کو اگر وسیع تر معنی میں مد نظر رکھیں، تو چونکہ انسان کے ذہن کی خاصیت شمار ھوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر انسان کی مخلوقیت کے تابع وہ دونوں﴿ یعنی زمان و مکان﴾ بھی مخلوق ھوں گے۔

[1]۔ طباطبایی، محمد حسین، نهایة‌الحکمه، ترجمه(نهایت فلسفه)، تدین، مهدى، به كوشش خسروشاهى، سيد هادى، ص 373 و 374، موسسه بوستان كتاب، قم، طبع اول، 1387ش.
[2] ۔ مبدع و مخترع آن محقق داماد است . طباطبائی، سید محمد حسین، نهایة الحکمة، ص 226، مؤسسه نشر اسلامی، قم، طبع پنجم، 1404ق.
[3] ۔ نهایت فلسفه، ص 377.
[4] ۔ رساله حدود، نقل از جميل صليبا، صانعى دره بيدى، منوچهر، فرهنگ فلسفى، ص 608، حكمت، تهران، طبع اول، 1366ش. مثال کے طور پر اگر ہم گلاس میں پانی کو مد نظر رکھیں ، تو پانی کا مکان ﴿جگہ﴾ گلاس کی داخلی سطح ہے جو پانی کی خارجی سطح سے متصل ہے ۔
[5] ۔ تعريفات جرجانى، نقل از ، فرهنگ فلسفى، ص 608.
[6] ۔ كشاف تهانوى، نقل از فرهنگ فلسفى، ص 608.

تبصرے
Loading...