ھماری عبادت ھمیں اپنے لئے ھے؟ اس کا کیا مطلب ھے؟اور یھ مسئلھ خدا کیلئے عبادت، کے ساتھہ کس طرح جمع ھونے کے قابل ھے۔

” خدا ھمارے اعمال سے بے نیاز ھے” ، اس بات کو مد نظر رکھہ کر کھا جاتا ھے، کھ یھ اعمال ھمیں اپنے لئے ھیں۔ کیا ائمھ اطھار علیھم السلام کے اعمال بھی ان کے اپنے لئے ھیں؟ کیا اس طرح کا عقیدہ رکھنا ھمارے اعمال کو ضایع نھیں کرتا؟ ثانیاً یھ مطلب حضرت علی علیھ السلام کے اس بیان کے ساتھہ جس میں حضرت (ع) ایک گروہ کی عبادت کو صرف خدا کیلئے جانتے ھیں ، کس طرح جمع ھونے کے قابل ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کھیں، ھم جانتے ھیں کھ خدا بے نیاز ھے۔ اس کو ھماری عبادات کی ضرورت نھیں ھے۔ ھماری عب

سوال
” خدا ھمارے اعمال سے بے نیاز ھے” ، اس بات کو مد نظر رکھہ کر کھا جاتا ھے، کھ یھ اعمال ھمیں اپنے لئے ھیں۔ کیا ائمھ اطھار علیھم السلام کے اعمال بھی ان کے اپنے لئے ھیں؟ کیا اس طرح کا عقیدہ رکھنا ھمارے اعمال کو ضایع نھیں کرتا؟ ثانیاً یھ مطلب حضرت علی علیھ السلام کے اس بیان کے ساتھہ جس میں حضرت (ع) ایک گروہ کی عبادت کو صرف خدا کیلئے جانتے ھیں ، کس طرح جمع ھونے کے قابل ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کھیں، ھم جانتے ھیں کھ خدا بے نیاز ھے۔ اس کو ھماری عبادات کی ضرورت نھیں ھے۔ ھماری عبادت کا سبب یھ ھے کھ ھم خود اپنی عبادت کے محتاج ھیں، اب سوال یھ ھے کیا یھ سب اطاعتیں ھمارے اپنے لئے ھیں؟ کیا یھ سب اذکار ، اور خدا کے مقابلے میں سر بسجود ھونا اور اس کی حمد و ثنا کرنا ، اپنے لئے ایک وسیلھ ھے؟ اگر سچ مانیں تو، یھ “بات” مجھے بھت تکلیف دیتی ھے ، اور عبادت کی مٹھاس کو مجھہ سے چھین لیتی ھے۔ مجھے نھیں معلوم ۔۔۔ کیا ائمھ اطھار علیھم السلام کی سب عبادتیں ان کے اپنے لئے تھی؟ اپنے معنوی درجات کو بڑھانے کیلئے؟ یھ بات تو دلکش معلوم نھیں ھوتی اور انسان مطمئن نھیں ھوتا۔ پس حضرت علی علیھ السلام کے اس جملے ، جس میں فرماتے ھیں کھ کچھہ لوگ خدا کو جھنم کے ڈر سے ، کچھہ لوگ بھشت کے شوق سے اور کچھہ لوگ خود خدا کے لئے خدا کی عبادت کرتے ھیں” سے کیا مراد ھے؟ کیا پھلے دو گروھوں کی عبادت ان کے اپنے لئے نھیں ھے؟ اگرچھ اس کا درجھ نیچے ھی ھو، پھر اگر خدا بے نیاز ھے تو تیسرے گروہ کی عبادت کا کیا مطلب ھے؟
ایک مختصر

لغت میں ” مسخ” ایک صورت کے بدتر صورت میں تبدیل ھونے کے معنی میں ھے اور قرآن مجید اور روایات کی اصطلاح میں اس کے معنی ایک قسم کا عذاب ھے جو زیاده  گناھگار افراد اور امتوں پر نازل ھوتا تھا۔

مسخ شده انسان ، حیوان ( بندر، لنگور ۔۔۔) کی صورت میں تبدیل ھوتے هیں ، ایک گناھگار انسان کی صورت اسی دنیا میں مسخ ھوکر ایک حیوان کی صورت میں تبدیل ھوتی ھے یا ساده تر الفاظ میں انسان ، حیوان کی صورت میں تبدیل ھوتا ھے۔

قرآن مجید میں ذکر ھوئے ” مسخ ” کو اکثر مفسرین ، حقیقی مسخ سمجھتے هیں یعنی ایک شخص حقیقت میں حیوان کی صورت میں تبدیل ھوتا ھے ۔ لیکن اھل سنت مفسرین میں سے چند افراد اس قسم کے مسخ کو سِرِشت  میں مسخ سمجھتے هیں یعنی منظور نظر فرد حیوان کی صورت میں تبدیل نھیں ھوتا ھے ، بلکھ اسکی سرشت اور فطرت ھی ایسی بنتی ھے اور اس کے علاوه کچھه نھیں ھے۔

بعض لوگوں کے مسخ ھونے کا سبب ، ان کے گناه اور اس عذاب سے عبرت کا پھلو بھی مقصود ھے ، روایات سے معلوم ھوتا ھے کھ مسخ شده انسان چند دنوں کے بعد نابود ھوجاتے ھیں ، موجوده حیوانات وھی حیوانوں کی نسل ھے نھ کھ مسخ شده انسان۔

تفصیلی جوابات

لغت میں ” مسخ ” کے معنی ایک صورت کے بد تر صورت میں تبدیل ھونا ھے۔ [1] لیکن قرآن مجید اور اسلامی معارف کے مطابق ” مسخ” ایک قسم کا عذاب ھے ، جسے خداوند متعال نے گزشتھ امتوںمیں بعض افراد پر معجزانھ طور پر نازل کیا ھے ، اور اس معجزه کے آثار لوگوں کو انتباه کرنے ، عبرت حاصل کرنے اور گناھوں کے برے نتائج سے دوچار ھونے کے مانند ظاھر ھوتے ھیں۔ [2]

درج ذیل سوالات کا جواب مطلب کو واضح تر کرے گا:

۱۔ مسخ کیا ھے اور اس کی کیفیت کیا ھے؟

انسانی صورت کے حیوانی صورت میں تبدیل ھونے کو مسخ کھتے ھیں۔ اس کی کیفیت یوں ھے که انسان ایک عمل کی تکرار کے نتیجھ میں ملکھ حاصل کرنے کی صورتون میں سے ایک صورت اختیار کرتا ھے [3] یعنی نیک اور مخلصانھ اعمال کے نتیجھ میں انسان ملکوتی نفس کی طرف ترقی کرتا ھے اور اسکے برعکس برے اور ناپسند کام کو انجام دینے کے نتیجھ میں اس ناپسند کام کے ملکھ کی طرف بڑھتا ھے ، بھت سی اخلاقی روایتوں میں غصھ کو آگ سے تشبیھ دی گئی ھے [4] یا قرآن مجید میں یتیم کا مال کھانے کی آگ سے تعبیر کی گئی ھے۔[5] یھ مجاز و استعاره نھیں ھیں۔ بلکھ ان گناھوں کی حقیقت ھے جو سچی کتابوں اور راستگو انبیاء کے توسط سے بیان ھوئی ھے۔ نتیجھ یھ نکلا کھ اگر کوئی شخص گناھوں مین غرق ھوجائے تو ان گناھوں کی حقیقت ملکھ کی صورت میں اس کے نفس میں ظاھر ھوسکتی ھے اور یھاں تک کھ قیامت کے دن اسی ملکھ کے ساتھه محشور ھوگا ۔ حضرت امام باقر علیھ السلام سے روایت ھے کھ حضرت نے فرمایا: ” جو لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کو جھٹلائیں گے ، وه قیامت کے دن بندر اور سؤر کی صورت میں قبروں سے نکل کر اسی شکل میں محشور ھوں گے “،[6]

” دوسری بات یھ کھ ھمارے پاس کوئی ایسی دلیل موجود نهیں ھے کھ نفسانیات اور نفسانی صورتیں جس طرح قیامت کے دن مجسم ھوں گی ، دنیا میں بھی باطن سے ظاھر میں تبدیل ھوکر مجسم نھیں ھوں گی۔[7]

” مسخ کے مسئلھ میں ، انسان ، حیوان میں تبدیل نھیں ھوتا ھے ، بلکھ انسانی صور ت میں حیوانی صورت قرار پاتی ھے ، لھذا حقیقت میں مسخ انسان ھوتا ھے نھ کھ انسان مٹکر کوئی حیوان۔ [8]

مذکوره مطلب کے چند دوسرے دلائل سے بھی تائید ھوتی ھے ، کیونکھ جیسا کھ کھا گیا کھ مسخ ، بعض خاص اور شدید گناھگاروں کو عذاب سے دوچار کرنے کے لئے ھے ، پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم فرماتے ھیں؛ ” خداوند متعال نے انبیاء کے بعد ان کے اوصیاء اور اماموں کی نافرمانی کرنے کی وجھ سے بعض امتوں کو مسخ کیا ھے ” [9] پس اگر طے یھ ھے کھ ان پر عذاب الھی نازل ھوجائے تو انهیں چاھئے کھ اپنی انسانیت جانتے ھوئے حیوانیت کی ایک صورت مسلط ھوجائے اور اس سلسلھ میں تب عذاب متحقق ھوگا جب وھ متوجھ ھوجائین کھ انسان ھیں ، لیکن سور یا بندر کی صورت میں رونما ھوئے ھیں۔

اس سلسلھ میں امام رضا علیھ السلام سے بھی ایک روایت ھے کھ آپ (ع) نے فرمایا: ” خداوند متعال نے انسانوں کو لوگوں کی عبرت اور نصیحت کے لئے مسخ قرار دیا ھے اور یھ اس بات کی دلیل ھے کھ کچھه لوگ ایسے ھیں جن کی خلقت کی صورت میں تبدیلی پیدا ھوئی ھے اور اس مسخ میں انسان کی ایک شباھت قرار پائی ھے تاکھ یھ سمجھا جائے کھ یھ خدا کے غضب سے دوچار انسان ھیں۔[10] ” یعنی وه خود بھی سمجھتے هیں کھ وه انسان ھیں اور دوسرے بھی انھیں پھچانتے هیں اور یھ مسخ ان پر انسان کی صورت میں مسلط ھوا ھے۔

امام زین العابدین علیھ السلام سے ایک روایت میں آیا ھے : ” یھودیوں نے سنیچر کے دن سرزد ھونے والے گناه کے بعد خدا کے اس حکم کی نافرمانی کی کھ سنیچر کے دن مچھلی کا شکار نھ کیا جائے تو خداوند متعال نے ان کو بندر کی شکل میں تبدیل کردیا ” تم ان لوگوں کو بھی جانتے ھو جھنوں نے سنیچر کے معاملھ میں زیادتی سے کام لیا تو ھم نے حکم دے دیا کھ اب ذلت کے ساتھ بندر بن جائیں۔”[11]

کچھه مؤمنین جو ھمسایھ شھروں میں رھتے تھے ان کو دیکھنے کے لئے آگئے کچھه لوگ جو پھلے سے ان گناھگاروں کو جانتے تھے، ان کی صورت تبدیل ھونے کے بعدا ن کو دیکھه کر دوباره انھیں پھچانتے تھے اور کهتے تھے : کیا تم فلانی فرزند فلانی نھیں ھو ؟ اور وه بندر بھی آنسوں بھاتے ھوئے اور سر کو ھلاتے ھوئے جواب دیتا تھا کھ : ھاں” [12]

۲۔ کیا مسخ کی مختلف قسمیں ھیں؟

قرآن مجید میں بعض افراد کے بندر اور سور کی شکل مین مسخ ھوجانے کو اکثر مفسرین حقیقی مسخ جانتے هیں ، یعنی شخص حقیقت میں بندر اور سور کی صورت میں تبدیل ھوا ھے ۔ لیکن ان میں اھل سنت مفسریں کی ایک بھت ھی قلیل تعداد ھے ، جیسے: شیخ محمد عبده ، وغیره جوا اس قسم کے مسخ کو سرشت میں مسخ جانتے ھیں۔ قرآن مجید کی اس آیھ شریفھ کے مانند جس میں فرمایا گیا ھے : ‘ کمثل الحمار یحمل اسفارا ” [13]

زیر بحث فرد ، گدھے کی صورت میں تبدیل نهیں ھوا ھے بلکھ اس کی جیسی سرشت طبعیت رکھتا ھے اور اس سے برتر نھیں ھے ۔

۳۔ کیا مسخ شده انسان ، اسی صورت میں اپنی نسل بھی بڑھاتے تھے اور آج تک باقی ھیں؟

اس سوال کا جواب تجربیاتی اور جینیاتی (Genetic)علوم کے دائره سے خارج ھے ، بنیادی طورپر یھ علوم اس قسم کے مسائل کو ثابت کرنے کی طاقت نھیں رکھتے ھیں، کیوں کھ اگر مسخ شده انسان باقی بچے بھی ھوں تو وه ایک بندر کی شکل میں دوسرے بندروں کے مشابھ ھوں گے اور اگر بعض بندروں میں اپنے دوسرے ھم جنسوں سے کسی قسم کا اختلاف بھی ثابت ھوجائے پھر بھی مسخ شده انسانوں کی نسل جاری رھنے کی کوئی دلیل نھیں ھے۔

البتھ اھل بیت علیھم السلام کی روایتوں میں اس موضوع کی طرف اشاره ھوا ھے ، حضرت امام زین العابدین علیھ السلام فرماتے ھیں:” مسخ شده انسان تین دن تک زنده تھے ، اس کے بعد خداوند متعال نے باد و باراں کو بھیج کر ان سب کو سمندر میں ڈال دیا ، اس لئے تین دن کے بعد کوئی مسخ شده باقی نھ رھا اور یھ حیوانات جو اس وقت انکی شکل میں دکھائی دیتے ھیں۔ صرف ان کی شبیھ ھیں نھ کھ خود وه یا ان کی نسل “[14]

اگر بعض روایتوں میں کتے ، سور اور بندروں کے گوشت کو حرام قرار دینے کا سبب ان کا مسخ ھونا ذکر کیا گیا ھے ، اس سے مراد یھ نھیں ھے کھ یھ حیوانات اسی مسخ شده۰ نسل میں سے ھیں ، بلکھ مراد یھ ھے کھ ان کے گوشت میں موجود نقصان ده اجزاء ھیں ، اور مراد خداوند متعال کی اس سزا کی عظمت ھے کھ بعض انسان ان صورتوں میں تبدیل ھوئے هیں تا کھ لوگ اس قسم کے حیوانات کے ساتھه لگاؤ پیدا نھ کریں اور عذاب الھی کو حقیر نھ سمجھیں۔ [15]

[1]  المنجد ، ماده ” مسخ”

[2]  مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظھ ھو: ترجمھ المیزان ، ج ۱ ، ص ۳۱۰ اور اس کے بعد۔

[3]  المیزان ، ج ۱ ص ۳۱۱۔

[4]  معراج السعادۃ ، فصل در مزمت غضب ، ص ۱۷۲۔

[5]  سوره نساء / ۱۰۔

[6]  سفینۃ البحار، ج ۴ ص ۳۷۷۔

[7]  المیزان ، ج ۱ ، ص ۳۱۱۔

[8]  ایضا۔

[9]  سفینۃ البحار ، ج ۴، ص ۳۷۶۔

[10]  نفسیر نور الثقلین ، ج ۱ ، ص ۸۶۔

[11]  ” و لقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین” سوره بقره / ۶۵۔

[12]  تفسیر صافی ، ملا محسن فیض ، ج ۱ ، ص ۶۲۰۔

[13]  تفسیر کاشف ، محمد جواد مغنیۃ ، ج ۱ ، ص ، ۱۲۱۔

[14]  تفسیر صافی ، ایضا۔

[15]  سفینۃ البحار ، ج ۴ ، ص

تبصرے
Loading...