مقررہ وقت میں انسان کا کمال تک پہنچنا

خلاصہ: انسان کی زندگی کی مدت مقرر ہے اور موت مقررہ وقت پر آجائے گی، کوئی انسان جتنی کوشش کرلے اس مقررہ مدت کو نہ کم کرسکتا ہے نہ زیادہ کرسکتا، اور اسی مقررہ وقت میں اسے کمال تک پہنچنا ہے۔

مقررہ وقت میں انسان کا کمال تک پہنچنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کا کمال اور کائنات کی مخلوقات کا کمال اس بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ معلوم وقت اور محدود مدت میں ہی جو اُن کے لئے مقرر کی گئی ہے، اپنے کمال تک پہنچیں۔ وہ وقت کے اس دائرہ سے نکل نہیں سکتے اور اپنی مقررہ مدت سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ ہی اس مدت کو بڑھا کر اس میں تاخیر کرسکتے ہیں۔ مادی مخلوقات ہرگز اس کلّی اور ہمہ گیر قانون سے نہیں نکل سکتیں۔ اجل و زمان کی محدودیت اور زوال وفنا کو بقاء، دوام، استمرار اور ابدیّت میں نہیں بدل سکتیں۔
قرآن کریم نے سورہ اعراف کی آیت ۳۴ میں ارشاد فرمایا ہے: “وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ، “اور ہر امت (قوم) کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ پس جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو نہ وہ ایک ساعت کے لیے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ایک ساعت آگے بڑھ سکتے ہیں”۔
موت کے مسئلہ کے لئے لوگوں نے جتنی کوششیں کی ہیں کہ دنیا میں زندگی کو جاوید اور ابدی کرلیں تو اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ طاقتور حکمرانوں، علماء اور دانشوروں، حکماء، فلاسفرز اور مفکّرین نے کئی صدیوں کے دوران اپنی تمام تر مادی، معنوی اور ذہنی قوتوں کے ذریعے کوشش کی اور اپنی ساری ہمّت اور طاقت استعمال کی تا کہ انسان ہمیشہ دنیا میں رہ سکے اور موت کا انتظار نہ کرے، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۴۷ میں ارشاد فرماتے ہیں: “اے لوگو! ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از: معادشناسی، آیت اللہ محمد حسین حسینی طہرانی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
[ترجمہ نہج البلاغہ، مولانا مفتی جعفر حسین علیہ الرحمہ]

تبصرے
Loading...