للہ کا تقرب

قرب الی اللہ کی راہ میں رکاوٹیں

” سیر و سلوک” لغت میں ” راستے کو طے کرنا” کے معنی میں ہے۔ یقینا دوسرے تمام راستوں کی طرح اس راستے کا بھی ایک آغاز اور ایک انجام اور مقصد ہو گا۔ یہاں پر انجام اور مقصد ذات خدا وندی ہے۔ اس راستے کو طے کرنے والا آخر کار خدا وند متعال کی “شہودی معرفت ” کو حاصل کرتا ہے البتہ اس معرفت کے مختلف مراتب اور درجات ہیں اور انسان ان درجات کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس راستے کا آغاز جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا انسان کا لباس وجود پہننے اور دنیا میں قدم رکھنے سے ہوتا ہے۔ خلاصہ کے طور پر ، انسان کی عرفانی سیر اس کے وجود پانے سے ہی شروع ہوتی ہے۔

واضح ہے کہ یہ سیر اور حرکت ، مادی سیر اور مکانی حرکت نہیں ہے۔ اس لیے کہ خدا جسم تو رکھتا نہیں اور نہ ہی کسی جگہ اور مکان میں محدود ہے تا کہ ہم اس کی طرف حرکت کریں۔ ہاں، خدا وند عالم کا ایک گھر ہے خانہ کعبہ جسے “بیت اللہ” کہا جاتا ہے۔ اس نے لوگوں کو دعوت دی ہے کہ اس کے گھر کی طرف آئیں، اور اس کے گھر کا طواف کریں اور حج بجا لائیں۔ لیکن یہ طواف یا یہ سیر اور حرکت ، وہ سیر نہیں کہ جو انسان کو خدا تک پہنچادے، بہت ہیں ایسے لوگ جو بیت اللہ کے پاس حرم الٰہی میں رہتے ہیں لیکن حقیقت میں خدا کے دشمن ہیں۔ اور خانہ خدا کے طواف سے سوائے خدا سے دوری کے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

وہ سیر و سلوک جو انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے وہ باطنی اور قلبی سیر و سلوک ہے ایسی حرکت ہے جو انسان کے باطن میں انجام پاتی ہے۔ اس سیر و سلوک میں انسان کی روح حرکت کرتی ہے نہ بدن۔ اور کمال کے مراتب کو طے کرتی ہوئی اس مقام پر پہنچتی ہے کہ جسے قرآن کریم نے ” مقام عند اللہ ” سے یاد کیا ہے: فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔

لہذا سیر و سلوک میں انسان کو اپنے دل کی طرف متوجہ رہنا چاہیے یعنی جو چیز خدا سے نزدیک یا دور کرتی ہے انسان کا دل ہے نہ اس کا بدن۔ عرفانی سیر و سلوک کا نتیجہ انسان کے دل کا خدا سے قریب ہونا ہے۔ یہ کہ روح انسان کے خدا سے قریب ہونے اور اس کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے بعد اسے کیسا احساس ہوتا ہے یہ قابل گفتن نہیں ہے بلکہ قابل چشیدن ہے۔ البتہ کسی حد تک اس کی عقلی تحلیل کی جاسکتی ہے لیکن ان تحلیلات اور بحثوں سے ہر گز حقیقی عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ صرف عرفان سے آشنائی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

اگر خدا انسان کے دل کی طرف ایک نگاہ کر دے تو اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ لیکن افسوس سے ہماری ایسی حالت ہے کہ خدا ہماری طرف نگاہ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ہمارے اور خدا کے درمیان گناہوں کے حجاب ہیں۔ اگر یہ حجاب اور پردے اٹھا دئے جائیں اور دل خدا کے نزدیک ہو جائے ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی واسطہ نہ رہے تو ہماری حالت بدل سکتی ہے۔

بہر حال اگر چہ یہ حالت اورکیفیت حاصل کرنے کے قابل ہے اور انسان کو یہ مقام اور حال حاصل کرنا چاہیے تا کہ حقیقت اس پر آشکار ہوجائے۔ لیکن آیات اور روایات کے ذریعے اور عقلی تحلیلات کے ذریعے کم و بیش اس کے آثار اور علائم کو جانا جا سکتا ہے۔ اجمالی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں انسان اپنے مقام و منزلت کو نہیں دیکھ سکتا اپنے لیے کسی حیثیت کا قائل نہیں ہو تا۔ اس مقام کو فنائے فی اللہ ، بقائے باللہ اور مقام محو کہا جاتا ہے۔

لیکن ہمیں اپنے آپ کو ان اصطلاحات میں الجھانا نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کی طرح کہ جو عرفان نظری کی چند اصطلات کو پڑھ لیتے ہیں اور انہیں میں الجھے رہتے ہیں اور دل خوش کرتے رہتے ہیں۔

الفاظ اور مفاہیم کو یاد کر کے کوئی حرکت وجود میں نہیں آتی بلکہ برعکس یہ الفاظ اور اصطلاحات اس کے لیے حجاب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور سیر و سلوک کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے ” العلم ھو الحجاب الاکبر” علم خود سب سے بڑا حجاب ہے علمی الفاظ اور مفاہیم کو یاد کرنے سے کوئی مشکل حل نہیں ہوگی یہ وہ مفاہیم ہیں جو انسان کے ذہن کو الجھا دیتے ہیں اور انسان کو جہاں تک پہنچنا چاہیے نہیں پہنچ سکتا۔

بہر حال مقام قرب کی حقیقت کے بارے میں ہم صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ انسان ان حجابوں اور پردوں کو درکنار کر کے اپنے معشوق حقیقی سے جا ملتا ہے اور پھر اپنا وجود اسے نظر نہیں آتا حتیٰ اپنی حیات اور زندگی سے بھی بے خبر ہو جاتا ہے۔

حقیقت میں یہ کیسا مقام اورکیسی حالت ہے؟ ہم کتنا بھی مفاہیم اور الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں صرف اس حقیقت کا ایک مبہم تصور پیدا کر سکتے ہیں یہ مقام اس پھل کی طرح ہے جس کا مزہ نہ چھکا ہو۔ ہم کتنی بھی تلاش و کوشش کریں اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارا وجود اور ہماری ہستی ہماری اپنی ہےہم اپنے وجود میں مستقل ہیں۔ اگر چہ ہر چیز کی ظاہری زندگی خود اسی سے ہے لیکن در حقیقت ہم کسی چیز کے بھی مالک حتیٰ اپنی زندگی اور وجود کے بھی مالک نہیں ہیں یہ ایسی واقعیت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور دلائل اور براہین کی روشنی میں ثابت ہے۔ لیکن یہ دلائل صرف عقلی ہیں ہمارا دل انہیں نہیں مانتا۔ ہم یہ احساس کرتے ہیں کہ ہم استقلال رکھتے ہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں حالانکہ ہمارا یہ احساس جھوٹا ہے اور ہماری خدا سے دوری اسی احسا س اور گمان کی بنا پر زیادہ ہوتی ہے۔

عقلی دلائل اور فلسفی براہین یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم خود سے کچھ نہیں ہیں ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں ہے نہ زندگی نہ علم، نہ قدرت اور نہ کوئی دوسری چیز، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے دوسرے کا عطا کردہ ہے ہم نے اپنی ہستی ، اپنا وجود اور دوسری تمام چیزوں کو دوسرےسے قرض لیا ہے اگر کوئی عقلی اور فلسفی بحثوں سے گہری آشنائی رکھتاہو اس کے لیے یہ بات مکمل طور پر واضح اور آشکار ہے۔

فلسفہ کی اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ انسان اور خدا کے علاوہ تمام دیگر موجودات یعنی ممکنات نہ صرف فقیر الی اللہ ہیں بلکہ عین فقر ہیں۔ نہ صرف محتاج خدا ہیں بلکہ عین احتیاج ہیں۔ لیکن ہر صور ت میں یہ مطالب عقلی اور فلسفی ہیں۔ انسان کے دل اور باطن کے ساتھ ان کا کوئی سروکارنہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمیشہ ہماری اور ہمارے دل یا ہماری گفتار اور رفتار کے درمیان تضاد نظر آتا ہے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ کوئی مستقل نہیں خدا کے علاوہ سب محتاج اور عین احتیاج ہیں لیکن دل استقلال اور غیر محتاجی کا احساس کرتا ہے اور ادھر سے اکثر افراد عقلی اور فلسفی اصطلاحوں اور دقتوں سے آشنا بھی نہیں ہوتے حتی اپنی عقل سے بھی اپنے محتاج ہونے کو درک نہیں کر سکتے لیکن اگر کچھ لوگوں کی عقلیں عدم استقلال ہونے کا ادراک کرتی بھی ہیں توان کی اس بات پر قانع نہیں ہوتے۔

ہاں ، یہ واقعیت ہے کہ ہم میں سے بہت سارے دلی طور پر معتقد نہیں ہیں کہ کوئی موجود خدا کے علاوہ مستقل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سارے خدا کے علاوہ دوسری ہر چیز سے ڈرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل یہ باور اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے علاوہ یہ تمام چیزیں قدرت، فاعلیت اور تاثیر رکھتی ہیں پیغمبر اکرم [ص] اور آئمہ معصومین (ع) کا کہنا ہے : من اخاف اللہَ اخاف اللہُ من منہ کل شئی و من لم یخف اللہَ اخافہ اللہُ من کل شیء۔[1]

جو خدا سے ڈرتا ہے خدا ہر چیز کے اندر اس کا خوف پیدا کر دیتا ہے اور جو خدا سے نہیں ڈرتا خدا ہر چیز کاخوف اس کے دل کے اندر پیدا کر دیتا ہے۔

اللہ کے صالح بندے اورحقیقی عرفاء وہ لوگ ہیں جو خدا کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے خوف وہراس نہیں رکھتے انہوں نے دل سے باور کر لیا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز خدا کے علاوہ تاثیر گذار اور فاعل مستقل نہیں ہے کائنات اس کی ہے اور اس کے اختیار میں ہے اس کی منشا کے بغیر نہ پتہ درخت پر اگے گا اور نہ زمین پر گرے گا۔ اگر کوئی اس عقید ہ کو اپنے دل میں جگہ دے تو اس کا اثر یہ ہو گا کہ خدا کے علاوہ کسی چیز سے خوف نہیں کھائے گا۔ اور اگر کوئی اس منزل پر پہنچ جائے کہ خدا کے علاوہ واقعا کسی سے نہ ڈرے خدا اس کی ہیبت کو دوسروں کے دل میں ڈال دے گا ( تاکہ دوسرے اس سے خوف کھائیں)۔ اس حقیقت کو ہم نے اپنی آنکھوں سے امام خمینی(رہ) کے اندر مشاہدہ کیا ہے دنیا کی سپر پاور طاقتیں ایک ستر سالہ بوڑھے اور نحیف آدمی سے ہراساں تھیں مغرب اور مشرق، سامراجی اور استکباری طاقتیں اس کے باوجود کہ جدید ترین ٹیکنالوجی ان کے پاس تھی فوج، اسلحہ، پیسہ سب کچھ ان کے پاس تھا لیکن امام خمینی (رہ) کے نام سے لرزہ بر اندام ہو جاتے تھے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ امام خود یہ کہتے تھے : خدا کی قسم میں اب تک کسی سے نہیں ڈرا۔ ہاں، چونکہ آپ حقیقت میں ایسے تھے کہ خدا کے علاوہ کسی چیز سے بھی خوف نہیں رکھتے تھے دنیا کی تمام سپر پاور طاقتیں ان سے خوف کھاتی تھیں۔

اس کے علاوہ ، جو شخص خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا وہ خدا کے علاوہ کسی سے دل بھی وابستہ نہیں کرتا۔ وہ خدا کے علاوہ کسی کو اپنا محبوب اور معشوق انتخاب نہیں کرتا۔ ایسا شخص اگر خدا کے علاوہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے کسی چیز کو دوست رکھتا ہے صرف اس لیے کہ خدا نے اس کی محبت کو طلب کیاہے۔ اور اس سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔

طبیعی طور پر غیر خدا سے ایسی محبت افراط کا شکار نہیں ہو گی کہ انسان اپنے اختیار کی لگام اپنےہاتھ سے کھو دے اور اپنی زندگی کی باگ ڈور غیر خدا کے اختیار میں دے دے۔ غیر خدا سے محبت ، محبت خدا کے طور میں رہنا چاہیے۔ یعنی محبوب واقعی صرف خدا ہے اور غیر خدا سے محبت اس کی محبت کے سایہ میں اس کے حکم سے انجام پائے۔

وہ شخص جس کے دل میں صرف خدا ہے اور خدا کے علاوہ اس کا کوئی محبوب نہیں ہے وہ اس کی عبادت کے وقت کا شدت سے انتظار کرتا ہے وہ اس لمحہ سے جب سورج طلوع کرتا ہے بار بار آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب سورج آسمان کے درمیان پہنچے اور ظہر کی نماز کا وقت ہو اور وہ خدا کی بارگا ہ میں حاضر ہو۔ رات کو جب بستر پر لیٹتا ہے اس شخص کی طرح مضطرب رہتا ہے جو کسی کے آنے کا منتظرہو ۔ اس کی آنکھوں میں نیند نہیں آتی اگر آبھی جائے تو بار بار آنکھ کھلتی ہے کہ کب سحر کا وقت آئے اور وہ ایک عاشق کی طرح راز و نیاز اور مناجات کرے وہ لمحہ بہ لمحہ گھڑی کی طرف نگاہ کرتا ہے اور نماز شب کے وقت کا اور اپنے یار سے خلوت کا شدت سے انتظارکرتا ہے اصل میں کلمہ تہجد کے معنی ہی یہی ہیں یعنی بار بار نیند سے اٹھنا۔ پیغمبر اسلام بھی ایسے ہی تھے نماز شب کو ادا کرنے کے لیے کئی بار نیند سے اٹھتے تھے آپ آدھی رات سے تھوڑی دیر بعد اٹھتے تھے وضو کر کے چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور سو جاتے تھے۔ پھر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ اٹھتے تھےوضو کرکے چار رکعت نماز پڑھ کر سو جاتے تھے پھر سحر کے وقت صبح صادق سے پہلے اٹھتے تھے اور نماز صبح تک نماز تہجد اور راز و نیاز میں مشغول رہتے تھے اور مہم یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ پیغمبر اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے مجبور کر رکھا ہو اور زحمت کے ساتھ انجام دیتے ہوں بلکہ یہ خدا سے والہانہ عشق و محبت کا نتیجہ تھا۔ انہیں الارم والی گھڑی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ الارم دے کر انہیں جگائے۔ کیا ہمارے اور آپ کے درمیان عارف ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد میں سے ہے کوئی ایسا ہے جو اس طریقے سے عبادت خدا کا شوق رکھتا ہو؟ یہ ان لوگوں کی ایک علامت ہے جو عرفان کی حقیقت سے آشنا ہیں اور قرب الٰہی کے مقام پر فائز ہیں۔ واقعی عارف وہ ہے جس کے نزدیک تمام دنیا کی ثروت سونے اور چاندی کے پہاڑ خاک کے ٹیلہ کے برابر ہیں اس سلسلے میں اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ مال دنیا اس کے پاس ہے صرف اللہ کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے ۔وہ شخص جو سادہ زیست ہو جس کے گھر میں زندگی کی ضروری اشیاء نہ ہوں وہ کہے کہ مجھے مال دنیا سے وابستگی نہیں ہے تو یقینا کہا جا سکتا ہے لیکن وہ شخص جو کروڑوں اور عربوں کو مالک ہو اور اس کے پڑوس میں ایسے فقیر زندگی کر رہے ہو جنہیں دو وقت کا کھانا نصیب نہ ہوتا ہو ایسا شخص اگر عرفان ، تصوف اور علی علیہ السلام کا شیعہ ہونے کا دم بھرتا ہے تو ہزار بار قسم بھی کھائے تب بھی اس کے دعوے پر یقین نہیں کیا سکتا۔

خلاصہ یہ کہ اگر کوئی عرفان کی حقیقت اور خدا وند عالم کی واقعی معرفت حاصل کر لے تو اس کے اور اس کے خدا کے درمیان سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ پھر خدا کے علاوہ کسی کے لیے استقلال کا قائل نہیں ہوتا۔ اس شخص کی گفتار اور رفتا ر کا آغاز اور انجام صرف خدا ہے ” میں” اس کی زبان پر نہیں آسکتا بلکہ “میں ” خدا میں بدل جاتا ہے۔ عارف حقیقی امام خمینی(رہ) کی طرح ہوا کرتا ہے کہ جن کی زبان پر کبھی “میں” نہیں آیا۔ آپ ہمیشہ تمام امور کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے اور فرماتے تھے :”خدا نے اس قوم کو کامیاب کیا ہے۔ خدا نے اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ خدا نے خرم شہر کو آیاد کیا ہے”۔ ایسے شخص کو اگر کہا جائے کہ ان کی توجہ ہمیشہ خدا کی طرف تھی تو قابل یقین ہے۔ لیکن جو گدی نشین ہو اطراف میں ہاتھ پیر چومنے والوں کا مجمع لگا ہو وہاں اس کے لب حرکت میں ہوں اور تسبیح ہاتھ میں ہو اور جب وہاں سے اٹھے تو دنیا داری کی فکر میں ہو اپنے چیلے چانٹھے بنانے کوشش میں ہو۔ اپنے مرنے کے بعد اپنی اولاد میں اس مقام کو منتقل کرنی کی سوچ رہا ہو کہ وہ بھی اس مقام “قطبیت” تک پہنچے ۔آیا ایسے شخص کو کہاجاسکتا ہے کہ یہ غیر خدا کی طرف توجہ نہیں کرتا؟!

[1] اصول کافی، ج ۲،ص۶۷، روایت۳

 

 

تبصرے
Loading...