عدل و مساوات

چند افراد پر مشتمل خاندان ایک چھوٹے سے ملک کى طرح ہے اور ماں باپ اس چوٹے سے ملک کو چلاتے ہیں جیسے ایک ملک کا اچھا نظام عدل و مساوات کے بغیر ممکن نہیں ایک گھر کے نظام کے لیے بھى عدل و مساوات ضرورى ہے صاف دلى اور خلوص ، محبت و الفت ، اعتماد و حسن ظن ، آرام و راحت ، عدل و مساوات کے ماحول میں ہى میسّر آسکتى ہے ایسے ہى ماحول میں صحیح بچے پرورشپاسکتے ہیں اور انکى داخلى صلاحیتیں نکھر سکتى ہیں اور وہ ماں باپ سے عملى طور پر عدل ومساوات کا درس لے سکتے ہیں جیسے بڑے عدل وانصاف کے احتیاج مند ہیں ایسےہى بچّے بھى عدل ومساوات کے پیاسے ہیں حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک پیاسے انسان کے لیے جیسے ٹھنڈا اور اچھا پانى بہت اچھا لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے لیے عدل وانصاف کا ذائق شیرین تر اورعمدہ تر ہوتا ہے کاموں کو چلانے کے لے اگر چہ کوئی چھوٹا سا کام ہى کیوں نہ ہو عدل سے بہتر کوئی چیز ( نہیں ہے ( 1

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین طرح کے لوگ قیامت میں خدا کے قریب ترین ہوں گے اوّل وہ کو جو غصّے کے عالم میں اپنے ما تحتوں پہ ستم نہ کرے دوم کہ جو دوافرادمیں صلح کے لے ان کے پاس آئے جائے لیکن حق کى ذرا بھى خلاف ورزى نہ کرے ( سوم حق کہے اگر چہ خود اس کے اپنے نقصان میں ہو ” ( 2

الله تعالى قرآن میں فرماتاہے : ”انّ الله یامر بالعدل و الاحسان” ( ”الله عدل او ر نیکى کا حکم دیتا ہے” ( 3

عادل اور منصف ماں باپ سب چوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں اور کسى کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے ، بیٹى ہو یا بیٹا خوبصورت ہو یا بدشکل ، بڑاہو یا چھوٹا با صلاحیت ہو یا کم استعداد ، جسمانى طور پر سالم ہو یا غیر سالم سب کو اپنى اولاد سمجھتے ہیں اور ان کے درمیان تفاوت کے قائل نہیں ہوتے ، مہر بانى ، اظہار محبّت ، پیار ، احترام ، کھانے پینے لباس ، جیب خرچ ، گھر میں کاموں کى تقسیم اور زندگى کے باقى تمام امور میں بجوں کو برابر سمجھتے ہیں اور سب سے ایک طرح کا سلوک کرتے ہیں پیغمبر اکر صلى الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :

عدم مو جودگى میں بھى اپنى اولاد میں عدل کو ملحوظ رکھیں اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارى اولادتم سے ( احسان،محبّت اور عدالت کے ساتھ پسش آئے تو وہ بھى تم سے اسى بات کى توقع رکھتے ہیں ( 4

رسول اکرم صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنے ایک بچے سے پیار کر رہاتھا اوردوسرے سے نہیں تو آپ نے اس سے فرمایا : تم عدل ومساوات کا خیال کیوں نہیں رکھتے ( 5) ایک شخص آنحضرت صلى الله علمیہ و آلہ وسلم کى خدمت میٹ بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا و ہاں پر آگیا اس شخص نے اپنے بیتے کو چوم کراپنے زانو پر بٹھا لیا تھوڑى دیر کے بعد اس کى بیٹى آئی تو اس شخص نے بچى کو اپنے، سامنے بٹھا لیا آنحضرت صلى الله علیہ وآلہوسلم نے اس سے فرمایا : ( تم نے اپنى اولادکے در میان عدالت کاو ربرابرى کا لحاظ کیوں نہیں رکھّا ( 6

حضرت على علیہ السّلام نے فرمایا : ( عدالت و مساوات کى پا سدارى بہترین سیاست ہے ( 7

ایک عورت اپنے دو چھو ٹے بچوں کے ہمراہ زوجہ رسول حضرت عائشےہ کے پاس آئی حضرت عائشےہ نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں ان بچوں کى ماں نے ہر بچے کو ایک ایک کھجورد ے دى پھر تیسرى کھجور کے بھى دوحصّے کرکے آدھى آدھى دونوں کو دے دى جب پیغمبر اکرم صلى الله علیہ وآلہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشےہ نے انہیں واقعہ سنا یا رسول کریم صلى الله علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا : کیا تجھے اس عورت کے عمل پر حیرت ہوئی ہے ؟ الله عدالت و مساوات کا خیال رکھنے کى بناء پر اس عورت ( کو جنّت میں داخل کرے گا ( 8

اگر ماں باپ اپنى اولاد کے ساتھ عادلا نہ بر تا ؤ کے بجائے امتیازى طرز عمل کامظاہر ہ کریں اور ایک کو دوسرےپر تر جیح دیں تو ان بچوں پر اخلاقى لحاظ سے نا قابل تلا فى برے اثرات پڑیں گے مثلا 1گھر کے ماحول میں بچے عملى طور پر ماں باپ سے نا انصافى کا سبق سیکھیںگے اور رفتہ رفتہ اس کے عدى ہو جائیں گے

جن بچوں سے ن انصافى کى گئی ہو ماں باپ کے بار ے میں ان کے دل میں کینہ پیداہو جاتا ہے ممکنہے وہ کسى ردّ عمل کا مظاہرہ کریں اور نا فرمانى و سرکشى پر اتر آئیںغیر عادلانہ سلوک سے بہن بھا ئیوں کے در میان حسد اور دشمنى پیدا ہو جائے گى اور وہ ہمیشہ لڑتےجھگڑ تے رہیں گے ممکن ہے وہ کسى سخت ردّ عمل کا اظہار کریں اور کسى مسئلے پر شرارت اور زیادتى کے مرتکب ہوں

وہ بچے جن سے نا انصافى کى گئی ہے ، احساس محرومى و مظلومى کا شکار ہو جاتے ہیں اور بات انکے دل میں بیٹھ جاتى ہے ممکن ہے یہى بات ان کى پر یشانى ، اظطراب ، بے چینى ، اعصاب کى کمزورىاور متعد د نفسیاتى بیماریؤن کا باعث بن جائےان تمام قباحتوں کے ذمہ دار وہ ماں باپ ہیں جنہوں نے عدل و مساوات کے لازمى قانون کى خلاف ورزى کرتےہو ئے فرق رو ارکھا ہو

البتہ ماں باپ اپنى تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلو ک نہیں کرسکتے محتلف عمر میں بچوں کى ضروریات مختلف ہوتى ہیں مختلف اد وار اور مختلف جنسہونے کے اعتبار سے بھى ان کى ضروریات ایک جیسى نہیں ہوتیں عدل و مساوات کا قانون بھى ایسے مواقع پر ایک جیسے سلوک کا تقاضا نہیں کرتا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بڑے بچّے کو گود میں لیا جائے اور اس سے دودھ پیتے بچے کى طرح پیار کیا جائے؟ اسى طرح کیا ہو سکتا ہے کہ تین سالہ بچے کو اتنا ہى جیب خرچ دیا جائے جتنا اٹھارہ سالہ بچے کو دیا جاتا ہے ؟ کیا بیٹى بھى بیٹے کى طرح آزادى سے آنے جانے اور ملنے جلنے کا حق رکھتى ہے عدالت و مساوات بھى اس بات کا تقاضا نہیں کرتى اور ہم بھى اس بات کا مشورہ نہیں دیتے بہر حال ماں با پ کو چاہیے کہ وہ پورى طرح سے عقل و تدبیر کے ساتھ ایسے سلوک کا انتخاب کریں کہ جسان کے بچے نا انصافى کا احساس نہ کریں یہ بات حسد کى بحث میں بیان کى گئی ہے اس حصّے کى طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ایک صاحب اپنى یادداشتوں میں لکھتے ہیں :

بچپن کى یہ یادتو بہت ہى تلخ ہے کہ جسے میں فراموش نہیں کرسکتا ابو میرے اور بھائی کے درمیان فرق روار کھتے تھے اس کى پورى خواہشوں پر عمل کرتے اور میرى طرف اعتنا نہ کرتے اسکا احترام کرتے اور میرى توہین کرتے اسے مجھ سے زیادہ پیار کرتے اور اس پر نواز شیں کرتے نتیجہ یہ ہوا کہ ابو اور بھائی مجھے بہت برے لگنے لگے میرا دل چاہتا کہ اس غیر انسانى سلوک پر ابوسے بدلہ لوں لیکن یہ کام میرے بسمیں نہ تھا پریشانى کے مارے ہر وقت میں تنہا تنہا رہتا مہمان خانے میں چلا جاتا دیواروں میں کہیں تھوکتا اور انہیں خراب کرکے رہتا شیشے توڑدیتا اورکیا کرتا؟ کچھ اورکر نہیں سکتا تھا لیکن ابو کو اس بات کا خیال بھى نہ تھا اور انہیں ہرگز پتہ نہ تھا کہ میں یہ نقصان ان کو پہنچا رہا ہوں ایک خاتون اپنى ڈائرى میں لکھتى ہیں: …ہمارے قریبى عزیزوں میں سے ایک خاتون کو دو بیٹیاں تھیں ایک زیادہ لائق تھى اور دوسرى کچھ کم دونوں سکول جاتیں بڑى بیٹى جو زیادہ لائق تھى اور دوسرى کچھ کم دونوں سکول جاتیں بڑى بیٹى جو زیادہ با صلاحیت نہ تھى کم نمبر لاتى اور چھوٹى زیادہ نمبر لاتى ماں جسکے پاس بھى بیٹھتى چھوٹى کى تعریف کرتى رہتى اور بڑى کو برا کھلا کہتى چھوٹى کو زیادہ نوازتى ، شاباش کہتى اور بڑى سے کہتى تمہارے سر میں خاک کیا فضول بچى ہو پیسے حرام کرتى ہو اور سبق یاد نہیں کرتى ہو کھانا کھانے اور لباس بدلنے کا تمہیں کیا فائدہ بدبخت ، سست آخر کیا بنوگى ،

وہى بڑى بیٹى اب شادى شدہ ہے اس کے چند بچے ہیں وہ ایک معمول کى خاتون نہیں ہے بیمارى لگتى ہے احساسکمترى کا شکار ہے چپ چپ او رڈرى ڈرى رہتى ہے کسى دعوت میں ہو تو کونے میں جا بیٹھتى ہے اور بات نہیں کرتى جب میں اسسے کہتى ہوں کو تم بھى کچھ کہو تو آہ بھرتى ہے کہتى ہے کیا کہوں اس کى شادى سے پہلے کى بات ہے کہ میں ایک مرتبہ اسے اعصاب کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی ڈاکٹر نے معانہ اور اسسے گفتگو کے بعد کہا یہ صاحبہ مریض نہیں ہے بلکہ اس کے ماں باپ مریض ہیں جنہوں نے اس بے گناہ بیٹى کو ان دنوں تک پہنچایا ہے ایک دن ڈاکٹر نے اسسے پوچھا کہ کھانا پکالیتى ہو وہ رونے لگى اور اس نے کہا پکالیتى ہوں لیکن جب بھى کھانا پکاتى ہو ں تو امّى ابو پرواہ نہیں کرتے کہتے ہیں ماشاء الله اس کى بہن خوب کھانا پکاتى ہے

 _______________

1اصول کافى ، ج 2، ص 147

2بحار ، ج 75 ، ص 33

3سورہ نحل ، آیہ 90

4مکارم الاخلاق ، ج ، ص 252

5مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 252

6مجمع الزوائد ، ج 8 ، ص 156

7عزر الحکم ص 64

8سنن ابن ماجہ ، ج 2 ، ص 1210

 

 

تبصرے
Loading...