عدل الہٰی کے دلائل

۔حسن وقبح عقلی
 پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری عقل اشیاء کی ”خوبی“اور ”بدی“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتی ہے ۔(یہ وہی چیز ہے،جس کا نام علماء نے ”حسن قبح عقلی“رکھا ہے)
مثلا ہم جانتے ہیںکہ عدالت واحسان اچھی چیز ہے اور ظلم وبخل بری چیز ہے۔یہاں تک کہ ا ن کے بارے میں دین و مذہب کی طرف سے کچھ کہنے سے پہلے بھی ہمارے لئے یہ چیز واضح تھی،اگر چہ دوسرے ایسے مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں ہمارا علم کافی نہیں ہے اور ہمیں رہبران الہٰی و انبیاء کی رہبری سے استفادہ کر نا چاہئے۔
اس لئے اگر”اشاعرہ“ کے نام سے مسلمانوں کے ایک گروہ نے ”حسن قبح عقلی“ سے انکار کر کے اچھائی اور برائی کو پہچاننے کا راستہ ۔حتی عدالت وظلم وغیرہ کے سلسلہ میں۔صرف شرع ومذہب کو کافی جانا ہے ،تو یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔
کیونکہ اگر ہماری عقل نیک وبد کو درک کر نے کی قدرت وصلاحیت نہ رکھتی ہوتو ہمیں کہاں سے معلوم ہو گا کہ خداوند متعال معجزہ کو ایک جھوٹے انسان کے اختیار میں نہیں دیتا ہے؟لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بُرا اور قبیح ہے اور خدا سے یہ کام انجام پا نا محال ہے،تو ہم جانتے ہیں کہ خدا کے وعدے سب حق ہیں اور اس کے بیانات سب سچے ہیں ۔وہ کبھی جھوٹے کی تقویت نہیں کرتا ہے اور معجزہ کو ہر گز جھوٹے کے اختیار میں نہیں سونپتا ہے۔
اسی وجہ سے شرع ومذہب میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
اس لئے ہم نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ حسن وقبح عقلی پر اعتقاددین و مذہب کی بنیاد ہے۔(توجہ کیجئے!)
اب ہم عدل الہٰی کے دلائل کی بحث شروع کرتے ہیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں جاننا چاہئے:
۲۔ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟
”ظلم“کا سر چشمہ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ہے:
الف۔جہل:بعض اوقات ظالم انسان حقیقت میں نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔نہیں جانتا ہے کہ وہ کس کی حق تلفی کرتا ہے،اور اپنے کام سے بے خبر ہے۔
ب۔احتیاج:کبھی دوسروں کے پاس موجود چیز کی احتیاج انسان کو وسواس میں ڈالتی ہے کہ اس شیطانی کام کو انجام دے،جبکہ اگر بے نیاز ہو تا،اس قسم کے مواقع پر اس کے لئے ظلم کر نے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تی۔
ج۔عجز و ناتوانی: بعض اوقات انسان راضی نہیں ہو تا کہ دوسروں کا حق ادا کر نے میں کو تاہی کرے لیکن اس میں یہ کام انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہو تی ہے اور ناخواستہ ”ظلم“کا مرتکب ہو تا ہے۔
د۔خود پرستی ، حسد اور انتقامی جذبہ۔ گاہےمذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک مؤثرنہیں ہوتا ہے،لیکن”خود پرستی“اس امر کا سبب بنتی ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کو پائمال کرے ۔یا ”انتقامی جذبہ“اور”کینہ وحسد“ اسے ظلم وستم کر نے پر مجبور کرتے ہیں ۔یا کبھی”اجارہ داری“دوسروں کی حق تلفی کا سبب بن جا تی ہے۔اور ان کے مانند دوسرے عوامل و اسباب۔
لیکن چونکہ مذکورہ بری صفات اور عیوب ونقائص میں سے کو ئی چیز خدا وند متعال کے وجود مقدس میں نہیں پائی جاتی ،وہ ہر چیز کا عالم ،سب سے بے نیاز،ہر چیز پر قادر اور ہر ایک کے بارے میں مہر بان ہے،اس لئے اس کے لئے ظلم کا مرتکب ہو نا معنی نہیں رکھتا ہے۔
اس کا وجود بے انتہا اور کمال لا محدود ہے،ایسے وجود سے خیر،نیکی،عدل وانصاف ،مہر بانی اور رحمت کے علاوہ کوئی چیز صادر نہیں ہو تی ہے ۔
اگر وہ بد کاروں کو سزا دیتا ہے تو وہ حقیقت میں ان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انھیں ملتا ہے،اس شخص کے مانند جو نشہ آورچیزیں یا شراب پینے کے نتیجہ میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورہ نمل/۹۰)
”کیا تمھیں تمھارے اعمال کے علاوہ بھی کوئی معادضہ دیا جاسکتا ہے۔“
۳۔قرآن مجید اور عدل الہٰی
قابل توجہ بات ہے کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔
ایک جگہ پر فر ماتا ہے:

(سورہ یونس/۴۴)
”اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خودہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“
ایک دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:
”اللہ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے۔“
روز قیامت کے حساب اور جزا کے بارے میں فر ماتا ہے:
(سورہ انبیاء/۴۷)
”اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازوقائم کریں گے اور کسی نفس پر ادنیٰ ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
(قا بل توجہ بات ہے کہ یہاں پر ”میزان“سے مقصود نیک و بد کو تولنے کا وسیلہ ہے نہ اس دنیا کے مانند کو ئی ترازو)
۴۔عدل و انصاف کی دعوت
ہم نے کہا کہ انسان کی صفات ،خدا وند متعال کی صفات کا ایک پر تو ہو نا چاہئیں تا کہ انسانی معاشرے میں الہٰی صفات کا نور پھیلے ۔اسی اصول کی بنیاد پر جس قدر قرآن مجید عدل الہٰی کو بیان کر تا ہے ،اسی قدر انسانی معاشرے اور ہر انسان میں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہمیت دیتا ہے۔قرآن مجید بار بار ظلم کو معاشروں کی تباہی و بر بادی کا سبب بتاتا ہے اور ظالموں کے انجام کو درد ناک ترین انجام شمار کرتا ہے۔
قرآن مجید گزشتہ اقوام کی داستان بیان کر نے کے ضمن میں باربار اس حقیقت کی یاد دہانی کرتا ہے کہ دیکھو ظلم وفساد کے نتیجہ میں کس طرح وہ اقوام عذاب الہٰی سے دو چار ہو کر نابود ہوئے ،تم بھی اس سے ڈرو کہ کہیں ظلم کر نے کے نتیجہ میں اس قسم کے انجام سے دوچار نہ ہو جاؤ۔
قرآن مجید واضح الفاظ میں ایک بنیادی اصول کے عنوان سے کہتا ہے:
(سورہ نحل/۹۰)
”بیشک اللہ عدل،احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بد کاری ،ناشائستہ حر کات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔“
قابل توجہ بات ہے کہ جس طرح ظلم کر نا ایک برا اور قبیح کام ہے ،اسی طرح ظلم کو بر داشت کر نا بھی اسلام اور قرآن کی نظر میں غلط ہے،چنانچہ سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۹ ۲ میں آیا ہے:
”لا تظلمون ولا تظلمون > ( سورہ بقرہ/۲۷۹)
”نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے “
اصولی طور پر ظلم کو قبول کر نا ظلم کی حوصلہ افزائی ،اس کی تقویت اور ظالم کی مدد
کر نے کا باعث ہے۔

تبصرے
Loading...