عثمانیوں كی آل سعود سے جنگیں

عثمانیوں كی آل سعود سے جنگیں

خاندان آل سعود نے جب سے اپنی حكومت بنائی اسی وقت سے ان كا یہ نظریہ تھا كہ جزیرة العرب كے قرب وجوار كے تمام علاقے ان كی حكومت كے تحت آجائیں، اور ایك وسیع حكومت بن جائے، اور ان سب كو ایك پرچم كے نیچے جمع كرلےں، اور ایك وسیع اور قدرت مند بادشاھت تشكیل دی جائے،اور اسی وجہ سے ”قسطنطنیہ“ كے عثمانی بادشاهوں میں خوف ووحشت پیدا هوگئی جس كی بنا پر انھوں نے آل سعود سے جنگ كرنا شروع كردی، اور اس سلسلہ میں شدت عمل اختیار كیا۔

خاندان سعود اور آل عثمان كے درمیان دشمنی كی دوسری وجوھات بھی تھیں جن كی وجہ سے ان میں دشمنی بڑھتی گئی انھیں میں سے ایك یہ ھے كہ وہ محمل جو ھر سال بھت ھی اھتمام كے ساتھ حرمین شریفین میں بھیجی جاتی تھی اس كو وھابیوں نے روك دیا تھا (محمل كی تفصیل باب ہشتم جمعیة الاخوان كی بحث میں بیان كی جائے گی) اور ان وجوھات میں سے ایك اھم وجہ یہ بھی ھے كہ سعود نے حكم دیا كہ اب تك جو عثمانی بادشاہ كا نام خطبوں میں لیا جاتا تھا اب اس كو ترك كردیا جائے، اور ان سب سے بھی اھم وجہ یہ تھی كہ سعود نے اپنے ایك خط میں جو دمشق كے والی كے نام بھیجااس میں لكھا تھاكہ نہ صرف یہ كہ تمھیں وھابی مذھب قبول كرنا هوگا بلكہ سلطان عثمانی كو بھی یہ مذھب قبول كرنا هوگا۔

ان كے علاوہ وھابی لوگ ان علاقوں كی طرف بھی ھاتھ بڑھاتے رھتے تھے جو عثمانی حكومت كے زیر تحت هوتے تھے، چنانچہ ان تمام وجوھات اور اسی طرح كی دوسرے اسباب كی بناپر عثمانی درباریوں نے حجاز پر حملہ كر نے كی ٹھان لی (تاكہ وھابیوں كو نیست ونابود كردیا جائے) اور اس كام كی ذمہ داری مصر كے والی علی پاشا كو سونپ دی گئی ۔

جب26 12ھ شروع هوا تو امیر سعود كی پیشرفت اور ترقی كو دیكھ كر عثمانی بادشاہ بھت پریشان هوا كیونكہ سعود نے نجد، حجاز، یمن اور عُمّان پر قبضہ كركے ایك وسیع عربی ملك بنالیا تھا۔

عثمانی سلطان نے ماہ ذی قعدہ1226ھ میں ایك عظیم لشكر جنگی ساز وسامان كے ساتھمصر كی طرف روانہ كیا، اس وقت مصر كا والی محمد علی پاشا تھا، عثمانی سلطان نے لشكر كا سردار محمد علی پاشا كو بنایا، اور حكم دیا كہ اس لشكر كے علاوہ مصر سے بھی ایك لشكر تیار كرو۔

محمد علی پاشا نے مصر اور مغرب (ممكن ھے مغرب سے مراد مراكش یا الجزائر او رتیونس هو،) سے بھی ایك لشكر تیار كیا اور اپنے بیٹے احمد طوسون كی سرداری میں دریا كے راستہ سے نجد كی طرف روانہ كیا چنانچہ طوسون نے ” ینبع بندرگاہ“ دریائے سرخ كے سواحل میں (مدینہ منورہ سے نزدیك ترین بندرگاہ) پر حملہ كردیا اور اس كو آسانی سے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور جس وقت سعود كو یہ معلوم هوا كہ مذكورہ بندرگاہ پر قبضہ هوچكا ھے، تو اپنے تحت تمام علاقے والوں كو چاھے وہ شھری هوں یا بادیہ نشین سب كو حكم دیدیا كہ جلد سے جلد مدینہ كی طرف حركت كریں۔

دیكھتے ھی دیكھتے اٹھارہ ہزار كا لشكر تیار هوگیا اس لشكر كی سرادری اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كے سپرد كی، امیر عبد اللہ نے تُرك لشكر سے مقابلہ كیا اور چند حملوں كے بعد ترك لشكر كو شكست دیدی، طوسون نے مذكورہ بندرگاہ ترك كردی۔ ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ اس جنگ میں تركی لشكر كے چار ہزار اور سعودی لشكر كے چھ سو افراد قتل هوئے۔

دوسرا حملہ

1227ھ میں محمد علی پاشا نے پھلے لشكر سے بڑا اور طاقتور لشكر حجاز كے لئے روانہ كیا اور اس لشكر یا شكست خوردہ لشكر كے باقی لوگوں نے مدینہ كو چاروں طرف سے گھیر لیا اور چاروں طرف توپیں لگادیں، اور شھر كی دیوار كے نیچے گڈھے كھودنے شروع كردئے اور وھاں ”بارود“ركھ كر آگ لگادی جس كے نتیجہ میں دیوار گر گئی، اور تركی لشكر نے شھر پر قبضہ كرلیا۔

اس حملہ میں سعودیوں كے چار ہزار لوگ مارے گئے، یہ دیكھ كر مدینہ كے حاكم نے صلح كی مانگ كی، اور كچھ ھی مدت كے بعد مصری لشكر نے مكہ كا بھی رخ كیا، شریف غالب نے جو عہد وپیمان سعود سے كرركھا تھا اس كی پرواہ نہ كرتے هوئے تركی اور مصری لشكر سے سمجھوتہ كرلیا اور اپنے سپاھیوں كو تركی لشكر كے ساتھ مل جانے كا حكم دیدیا، احمد طوسون كسی جنگ كے بغیر شھر مكہ پر قبضہ كے بعد وھاں كے قصر میں داخل هوگیا۔

اس كے دوسرے سال (یعنی 1228ھ) میں خود محمد علی پاشا ایك عظیم لشكر كے ساتھ جن میںمصری حجاج كے كاروان بھی شامل تھے، مكہ میں داخل هوا،شریف غالب اپنے معمول كے مطابق اس كے احترام میں اس كے پاس گیا، اس سے پھلی ملاقات میں تومحمد علی پاشا نے اس كو بڑے احترام سے بٹھایا، لیكن بعد میں هونے والی ملاقاتوں میں سے ایك ملاقات كے دوران اس نے اس كو گرفتار كرنے اور اس كے مال پر قبضہ كرنے كا حكم دیدیا، اور خود شریف غالب كو جلا وطن كركے ”جزیرہٴ سالونیك“ (یونان) میں بھیج دیا، شریف غالب وھیں رھے یھاں تك كہ1231ھ میں طاعون كی بیماری كی وجہ سے انتقال كرگئے۔

وهابیوں كا مسقط پر حمله اور امام مسقط كا فتح علی شاه سے مدد طلب كرنا

1226ھ كے واقعات كی تفصیل كے بارے میں جناب ”سپھر“ صاحب كھتے ھیں كہ اس جماعت (وھابی لوگ) كی قدرت میں روز بروز اضافہ هوتا جارھا تھا، یھاں تك كہ انھوں نے سر زمین بحرین كو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس كے بعد مسقط میں بھی قتل وغارت كا منصوبہ بنالیا۔

امام مسقط نے فارس كے فرمان گذار شاہزادہ حسین علی میرزا كو اطلاع دی اور یہ درخواست كی كہ صادق خان دولوی قاجار جو عربوں سے جنگ كا تجربہ ركھتے تھے، وہ ایران كی فوج كے ساتھ مسقط آجائیںاور وھاں سے اپنے ساتھ مزید لشكر لے كر ”درعیہ“شھر پر حملہ ور هوجائیں۔

امیر سعود نے ایرانی لشكر سے مقابلہ كرنے كے لئے سیف بن مالك اور محمد بن سیف كی سركردگی میں اپنا ایك عظیم لشكر بھیجا،جنگ شروع هوگئی، اس جنگ میں سیف بن مالك اور محمد بن یوسف كو بھت زیادہ زخم لگے یہ دونوں وھاں سے بھاگ نكلے، اور وھابیوں كے لشكر كے بھت سے لوگ مارے گئے، اور اس جنگ میں امام مسقط كو فتحیابی حاصل هوئی انھوں نے اس كا شكریہ ادا كرتے هوئے شاہزادہ حسین علی كی قابلیت كی داد تحسین دیتے هوئے كچھ ہدایا اور تحائف بھیجے، فتح علی شاہ كواسواقعہ كی خبر 20 ربیع الاول كو پهونچی۔

قارئین كرام! جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس واقعہ كی تفصیل ”سپھر“ صاحب نے1226ھ كے واقعات میں نقل كی ھے، لیكن ”جبرتی“ صاحب نے اس واقعہ كو1218ھ كے واقعات میں ذكر كیا ھے وہ لكھتے ھیں:

وھابیوں نے مكہ او رجدّہ كو خالی كردیاكیونكہ ان كو یہ اطلاع مل گئی تھی كہ ایرانیوں نے ان كے ملك پر حملہ كركے بعض علاقوں پر قبضہ كرلیا ھے۔

ممكن ھے كوئی یہ كھے كہ نجد پر ایرانیوں كے كئی بار حملے هوئے ھیں، جیسا كہ آپ حضرات نے ”آقائے سپھر“ كی تحریر میں دیكھا كہ انھوں نے ” صادق خان دولو“ كے بارے میں یہ كھا ھے كہ وہ عربوں سے جنگ كرنے كا تجربہ ركھتے تھے، لہٰذا اس بات كا احتمال دیا جاسكتا ھے كہ جبرتی صاحب نے آقائے سپھر كے ذكر شدہ حملہ كے علاوہ دوسرے حملہ كی طرف اشارہ كیا هو، بھر حال1227ھ میں نجد كی حكومت نے ایران كی حكومت سے صلح كی درخواست كی، اورظاھراً اسی كے بعد سے طرفین كے مابین كوئی اھم حادثہ پیش نھیں آیا۔

سعود كا انتقال

امیر سعود گیارہ جمادی الاول1229ھ میں مثانہ كی بیماری كی وجہ سے مرگیا، معلوم هونا چاہئے كہ سعود نے محمدبن عبد الوھاب سے دو سال درس پڑھا تھا اور علم تفسیر، فقہ اور حدیث میں مھارتحاصل كرلی تھی اور وہ بعض لوگوں كو درس بھی دیتا تھا۔

امیر عبد اللہ بن سعود اور عثمانیوں كے درمیان دوبارہ حملے

سعودكے مرنے كے بعد اس كے بیٹے عبد اللہ كی بیعت كے لئے عرب كے تمام علاقوں سے لوگ آتے تھے اور عبد اللہ كے ھاتھوں پر بیعت كررھے تھے ا ور اپنی اطاعت گذاری كا اظھار كررھے تھے، اسی اثنا میں محمد علی پاشا جو مكہ میں تھے، وھابیوں سے مقابلہ كے لئے ایك عظیم لشكرتیار كرلیا۔

طرفین میں كئی جنگیں هوئیں، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ دونوں نے آپس میں صلح كرلی، لیكن چونكہ عثمانی سلطان اور محمد علی پاشا كا دلی ارادہ یہ تھا كہ وھابیوں كی حكومت كو نیست ونابود كردیا جائے ادھر نجد اور حجاز كے لوگوں نے مصر میں جاكر امیر عبد اللہ كی بدگوئیاں كرنا شروع كردی، (اس وقت مصر كے والی محمد علی پاشا تھے)، اسی وجہ سے محمد علی پاشا نے تركوں اور مصریوں اور اھل مغرب، شام اور عراق كے لوگوں پر مشتمل ایك عظیم لشكر آمادہ كیا اور چونكہ اس كا بیٹا طوسون1231ھ میں انتقال كرچكا تھا اس وجہ سے اس مرتبہ لشكر كی سرداری اپنے دوسرے بیٹے ابراھیم پاشا (یا ایك قول كے مطابق بیوی كے ساتھ آیا هوا دوسرے شوھر كا بیٹا ابراھیم پاشا) كے حوالہ كی، ابراھیم پاشا اس بھادر لشكر كے ساتھ مصر سے روانہ هوا، اور سب سے پھلے مدینہ منورہ كارخ كیا اور اس كو مع قرب وجوار كے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس كے بعد ”آب حناكیہ“ كا رخ كیا اور وھاں پر قتل وغارت شروع كیا۔

ابراھیم پاشا كا اس علاقہ میں اس طرح رعب و دبدبہ تھا كہ ان میں سے بعض لوگ اس كی اطاعت كا اظھاركرنے لگے تھے، اور انھوں نے اس كے ساتھ مل كر جنگ كرنے كا بھی اعلان كیا، ابراھیم پاشانے 1232ھ كے شروع تك حناكیہ میں قیام كیا اور اس كے بعد نجد كے علاقہ ”رَجلہ“ پر حملہ كیا۔ لیكن اس كے بعد امیر عبد اللہ نے ایك عظیم لشكر تیار كیا، اور جن قبیلوں نے ابراھیم پاشا كی اطاعت قبول كرلی تھی ان كی نابودی كے لئے حجاز گیا لیكن جیسے ھی مذكورہ قبیلوں نے امیر عبد اللہ كو ایسا كرتے دیكھا تو حناكیہ میں جاكر ابراھیم پاشا كے یھاں پناہ لے لی۔

دونوں طرف میں لڑائی جھگڑے هوتے تھے تو ان میں اكثر نقصان امیر عبد اللہ كا هوتا تھا اس كی وجہ یہ تھی كہ ابراھیم پاشا كا لشكر تعداد كے لحاظ سے بھی اورتوپ اور دیگر اسلحہ وغیرہ كے لحاظ سے بھی امیر عبد اللہ كے لشكر سے طاقتور تھا، ابراھیم پاشانے آہستہ آہستہ ”رَسّ“ نامی علاقہ اور ”عنیزہ اور ”خبرا“ شھروں پر بھی قبضہ كرلیا، اور شھر ”شقراء“ كو بھی صلح كے ذریعہ اپنے قبضہ میں كرلیا تھا ۔

خلاصہ یہ كہ ابراھیم پاشا آگے بڑھتا رھا اور نجد وحجاز كے دوسرے علاقوں پر قبضہ كرتا رھا، اس كی پیشرفت اور ترقی قتل وغارت كے ساتھ هوتی تھی،آخر كارابراھیم پاشا نے امیر عبد اللہ كے دار السلطنت شھر ”درعیہ“ كو گھیر لیا، اور بھت سے حملے كرنے كے بعد اس شھر كو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، اور امیر عبد اللہ كی بھت سی اھم شخصیتوں كو توپ كے سامنے كھڑا كركے ان پر توپ كے گولے چلا دئے، یہ سب دیكھ كر امیر عبد اللہ نے بھی اس كے سامنے ھتھیار ڈال دئے۔

اور جیسے ھی نجد فتح هونے كی یہ خبر مصر پهونچی تو خوشیاں منانے كی وجہ سے توپ كے تقریباً ایك ہزار گولے داغے گئے، او رسات دن تك مصر كے علاقوں میں چراغانی كی گئی۔

مصر میں امیر عبد اللہ اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا خزانہ

ابراھیم پاشا نے دو دن كے بعد عبد اللہ كو خبر دی كہ تیار هوجاؤ تاكہ تمھیں اسلامبول سلطان عثمانی كی خدمت میں پیش كردیا جائے، اسے ایك لشكر كے ساتھ روانہ كردیا گیا اور یہ تاكید كردی كہ راستہ میں اس كی عثمانی سلطان كے دربار عالی تك پهونچنے تك بھر پور حفاظت كی جائے۔

ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ امیر عبد اللہ كو ان كے تین یا چار ساتھیوں كے ساتھ (اور زینی دحلان كے بقول بھت سے نجدی رؤساٴ كے ساتھ) درعیہ سے روانہ كیا گیا، او رمحرم1234ھ میںمصر میں پهونچا دیا گیا، اور ان كے لئے ایك جگہ تیار كی گئی تاكہ دیكھنے والے اس كو دیكھ سكیں، او رجب عبد اللہ محمد علی پاشا كے سامنے لایا گیا توپاشاصاحب اس كے احترام میں كھڑے هوگئے، اور ان كو اپنی بغل میں بٹھایا، اور اس سے گفتگو كے دوران سوال كیا كہ ابراھیم پاشا كو كیسا پایا؟!

توامیرعبد اللہ نے جواب دیا كہ اس نے اپنے وظیفہ میں كوئی كوتاھی نھیں كی، او رضروری كوشش كو بروئے كار لائے، ھم بھی اسی طرح تھے، لیكن خداوندعالم نے جو مقرر كردیا تھا وھی انجام پایا، اس كے بعد محمد علی پاشا نے اس كو بھترین كپڑے پہنوائے۔

امیرعبد اللہ كے ساتھ ایك چھوٹا سا صندوق بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال كیا كہ یہ كیا ھے؟

تو عبد اللہ نے جواب دیا كہ اس كو میرے باپ نے حجرے سے (پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ سے) لیا تھا اور میں اس كو سلطان (عثمانی سلطان) كے پاس لے جارھا هوں۔

محمد علی پاشا كے حكم سے اس صندوق كو كھولا گیا، تو دیكھا كہ اس میں قرآن مجید كے تین نسخے تھے اور یہ قرآن بادشاہ كے خزانہ سے متعلق تھے اور اب تك كسی نے ایسے قرآن نھیں دیكھے تھے، اسی طرح اس صندوق میں مروارید او رزمرّدكے تین سو بڑے بڑے دانے بھی تھے، اسی طرح ایك سونے كا ظرف بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال كیا كہ كیا آپ نے حجرے سے ان كے علاوہ دوسری چیزیںبھی لی تھیں ؟

تب اس نے جواب دیا كہ یہ چیزیں میرے باپ كے پاس تھیںاور وہ جو كچھ بھی حجرے میں آتا تھا صرف وھی نھیں اٹھاتے تھے بلكہ اھل مدینہ اور حرم مطھر كے خادمین بھی اس كو اٹھالیتے تھے۔

محمد علی پاشانے كھا كہ یہ بات صحیح ھے كیونكہ ھم نے بھی ان میں كی بھت سی چیزیں شریف مكہ كے پاس دیكھی ھیں۔

تبصرے
Loading...