شرک کیا ھے؟

“شرک” لغت میں حصھ کرنے ، اور دو شریک کے مل جانے کو کھتے ھیں۔[1] قرآنی اصطلاح میں ” حنیف ” کے مقابلے میں استعمال ھوتا ھے۔ شرک سے مراد خداوند متعال کیلئے شریک ، مثل اور مانند قرار دیناھے ۔ حنیف کا مطلب گمراھی سے ھدایت کی طرف مائل ھونا ھے ۔ اس لحاظ سے کھ توحید خالص کے پیروکار، شرک سے دور ره کر توحید کی بنیادی اصل کی طرف مائل ھوتے ھیں انھیں “حنیف” کھا جاتا ھے ، اور اس دلیل کی پنا پر ” حنیف ” کے ایک معنی ” مستقیم” اور ” صاف ” کے ھیں [2]

 

خداوند کریم قرآن کریم میں اپنے حبیب رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے ارشاد کرتا ھے [3] :”آپ کھه دیجئے کھ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستے کی ھدایت دے دی ھے جو ایک مضبوط دین اور باطل سے اعراض کرے والے ابراھیم کا مذھب ھے اور وه مشرکین میں سے ھر گز نھیں تھے”

 

اسی طرح فرماتا ھے[4] :” آپ اپنا رخ بالکل دین کی طرف رکھیں ، باطل سے الگ رھیں اور ھرگز مشرکین کی جماعت میں شمار نھ ھوں”

 

اس طرح قرآن مجید کی نظر میں ، شرک ، دین حنیف کے مقابلے میں ھے۔ اس لئے شرک کو پھچاننے کیلئے دیں حنیف کو پھچاننا ضروری ھے کیونکھ ” تعرف الاشیاء باضدادھا”   یعنی اشیاء اپنی ضد کے ذریعے پھچانی جاتی ھیں۔ پس ایک جملھ کے اندر کھا جاسکتا ھے کھ شرک ، توحید کی ضد ھے اور جس طرح توحید کی مختلف اقسام ھیں ، شرک کی بھی مختلف اقسام ھیں۔

 

ایک کلی تقسیم میں شرک کی دو قسمیں ھیں:

 

۱۔ عقیده میں شرک۔

 

۲۔ عمل میں شرک۔

 

عقیده میں شرک کی تین قسمیں ھیں:

 

۱۔ الوھیت میں شرک : خدا کے علاوه کسی اور موجود پر اعتقاد رکھنا جو سارے صفات جمال و کمال کا مستقل طور پر حامل ھو۔ یھ اعتقاد کفر کا سبب ھے [5] اسی لئے خداوند متعال  نے قرآن کریم میں فرمایا: یقیناً وه لوگ کافر ھیں جن کا کھنا یھ ھے کھ مسیح ابن مریم ھی اللھ ھیں ۔ [6]

 

۲۔ خالقیت میں شرک : یعنی انسان عالم کیلئے دو خداؤں کا قائل ھوجائے ، جن کے ھاتھه میں عالم کا خلق اور اسکے امورکی تدبیر ھو ۔ بالکل اسی طرح جس طرح مجوسی (زرتشتی) “یزدان ” اور “اهرمن” کے قائل ھیں۔

 

۳۔ ربوبیت میں شرک : یعنی انسان یھ عقیده رکھے کھ عالم میں مختلف رب (پروردگار) ھیں اور خدا “رب الارباب” ھے اس معنی میں کھ عالم کی تدبیر مستقل طورپر مختلف پروردگاروں کے سپرد کی گئی ھے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت ابراھیم کے زمانے میں مشرک اس طرح کے شرک میں مبتلا تھے اور ایک گروه ستاروں کو عالم کا مدبر جانتا تھا اور ایک گروه چاند کو اور دوسرا سورج کو ۔

 

عمل میں شرک:

 

عمل میں شرک کے معنی طاعت اور عبادت میں شریک ٹھرانے کے ھیں ۔ اور اس کا مطلب یھ ھے کھ انسان کا خضوع اور خشوع ، کسی کی الوھیت ، خالقیت یا ربوبیت کے اعتقاد کی وجھ سے ھو جس کیلئے وه خضوع اور خشوع کرتا ھے اور اسے احترام کی نظر سے دیکھتا ھے شرک کا یھ معیار قرآن مجید سے استفاده ھوتا ھے ۔

 

لیکن بعض لوگوں نے اپنی ھی طرف سے شرک کے لئے معیار ایجاد کردیئے ھیں اور دوسرے مسلمانوں کو شرک سے متھم کرتے رھتے ھیں۔

 

ھمارے  نقطھ نظر سے انھوں نے شرک کا جو معیار قرار دیا ھے اس کا کوئی اعتبار نھیں کیوں کھ ان کا معیار قرآن مجید کی آیات اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کی کسوٹی پر پورا نھیں اترتا۔

 

یھاں پر ھم ان کے بعض معیاروں کو جو انھوں نے اپنی طرف سے ایجاد کئے ھیں ، کی جانب اشاره کرتے ھیں:

 

۱۔ غیر خدا کیلے غیبی طاقت کا قائل ھونا ؛ وه کھتے ھیں : اگر کوئی پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم یا اولیاء اللھ سے استغاثھ اور حاجت طلب کرے ، اور اس بات پر اعتقاد رکھے کھ وه اس کی دعا کو سنتے ھیں اور اس کے حالات سے باخبر ھیں یا اسکی حاجتوں کو پورا کرتے ھیں. یھ شرک اکبر کی اقسام میں سے ھے ۔ [7]

 

۲۔ اموات سے حاجت مانگنا: کھتے ھیں شرک کی اقسام میں سے ،اموات سے حاجت مانگنا اور ان سے استغاثھ کرنا اور انکی طرف توجھ کرنا ھے. یھ دنیا میں شرک کی بنیاد ھے ۔[8]

 

۳۔ دعا اور توسل کرنا عبادت ھے ، وه کھتے ھیں : عبادت خدا سے مخصوص ھے اور دعا کرنا بھی عبادت کی ایک قسم ھے پس غیر خدا سے درخواست کرنا شرک ھے ۔[9]

 

۴۔ قبروں کی زیارت کرنا شرک ھے۔

 

۵۔ انبیاء اور صالحین سے برکتیں ڈھونڈھنا ، شرک ھے۔

 

۶۔ میلاد النبی کے جشن کی محفل منانا شرک ھے۔

 

۷۔ قبروں پر گنبد اور آستان بنانا شرک ھے۔

 

ان کے ان خود ساختھ معیاروں اور عقیدوں  کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔

 

۱۔ ان معیاروں میں سے ایک قسم ” اس لحاظ سے کھ اس کو “عقیده میں شرک” جانتے ھیں مشرکانھ اعمال کھتے ھیں۔ اس قسم کے عقیده کی رد میں یھ کھنا چاھئے : کھ اگر غیبی طاقت کے ھونے اورشفا دینے پر اعتقاد ، اور حاجت پوری کرنے پر اعتقاد وغیره اس طرح ھو کھ یھ سب امور خداوند متعال کے مستند ھیں اور غیر خدا کے پاس جو بھی طاقت ھے وه خداوند متعال کی طرف سے عطا شده ھے تو یھ ھرگز شرک نھیں ھے۔ کیونکھ غیر خداکے علاوه کسی بھی موجود کیلئے کسی طرح کا استقلال نظر میں نھیں رکھا گیا ھے۔ ھم نے الوھیت میں شرک ، خالقیت میں شرک اور ربوبیت میں شرک کی تعریف میں کھا کھ عقیده میں شرک کی صورتیں اس وقت متحقق ھوتی ھیں، جب  کوئی یھ عقیده رکھے کھ غیر خدا مستقل طورپر صفات کمال و جلال کا حامل ھو یا وه مستقل طورسے خلق کرے یا مستقل طورپر تدبیر کرے۔  لیکن اگر اس کی قدرت خداوند متعال سے وابستھ قدرت ھو تو پھر شرک نھیں ھے۔ ھم اورپورے مسلمان جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم یا ان کے جانشینوں سے حاجت مانگتے ھیں یا ھماراعقیده یھ ھے کھ وه غیر معمولی طاقت کے حامل ھیں۔۔۔۔   تو اس کو ھم خدا کی طرف سے عطا شده ایک مقام جانتے ھیں اور اس خصوصیت کے ساتھه کیا  پھر بھی  یھ شرک ھے؟۔

 

۲۔ دوسری قسم جسے وه شرک جانتے ھیں وه اس لحاظ سے ھے  کھ اس طرح کے اعمال کو وه عبادت جانتے ھیں جیسے رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا میلاد منانا ، اولیاء اللھ کی قبروں پرآستان اور گنبد بنانا اور ان کی قبروں کی ضریح (جالی ) کو چومنا وغیره لیکن اسلام میں عبادت خاص خصوصیات کی حامل ھے اور ان خصوصیات کے ساتھه۔ عبادت خدا،  کیلئے مخصوس ھے عبادت کا مطلب یھ ھے کھ  وه خضوع اور خشوع جو الوھیت خالقیت، یا ربوبیت کے اعتقاد کے ساتھه ھو۔ لیکن اگر خضوع اور خشوع اس اعتقاد کے ساتھه نھ ھو تو وه کسی بھی صورت میں عبادت نھیں ھے ۔ اس لئے جب خداوند متعال سوره یوسف میں حضرت یوسف کے مقابلے میں ان کے بھائیوں کے سجده کرنے کو نقل کرتا ھے تو اس کو شرک نھیں جانا ھے کیوں کھ وه کبھی بھی حضرت یوسف کے بارے میں الوھیت ، خالقیت یا ربوبیت کا اعتقاد نھیں رکھتے تھے۔

 

خوش قسمتی سے اسلام کے علماء او رھوشیار دانشوروں نے ان سب خود ساختھ معیارات کو رد کرکے ان کا جواب دیا ھے۔

 

اس سلسلے میں مزید آگاھی کیلئے رجوع  کریں :

 

کتاب ” بحوث قرآنیۃ فی التوحید و الشرک ” جعفر سبحانی۔

 



[1]  مجمع البحرین ، ج ۵ ص ۳۷۴۔ ؛ العین ، ج ۵ ص ۲۹۳۔

[2]  حنیف ، حنف کے ماده ( بر وزن ھَدَفَ) سے ھے جو گمراھی سے سچائی کی طرف مائل ھونے کے معنی میں ھے۔ جب کھ “جَنَفَ” اس کا برعکس ھے ، یعنی سچائی سے گمراھی کی جانب مائل ھونااور چونکھ خالص توحید کے ماننے والے شرک سے مڑ کر توحید کی بنیادی اصل کی جانب مائل ھوئے ھیں اس لئے انھیں حنیف کھتے ھیں اور اس دلیل کی بنا پر حنیف کے ایک معنی مستقیم اور صاف ھونے کے ھیں۔

یھاں سے واضح ھوتا ھے کھ جو تفاسیر مفسروں نے حنیف کے بارے میں کی ھیں جیسے خدا کے گھر کا حج ، حق کی پیروی ، ابراھیم کی پیروی ، اخلاص عمل وه سب اس کلی اور جامع معنی کی طرف لوٹتی ھیں اور وه سب اس کے مصادیق میں سے ۔ ( تفسیر نمونھ ، ج ۳، ص ۶۰۵)

[3]  ” قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا و ما کان من المشرکین ” سوره انعام / ۱۶۱۔

 [4]  ” ان اقم وجھک للدین حنیفا لا یکونن من المشرکین” سوره یونس / ۱۰۵۔

[5]  اس بات کی یاد آوری ضروری ھے کھ شرک کی سب اقسام ، کسی نوع کے کفر کا سبب بنتی ھیں۔ لیکن غور کرنا چاھئے کھ ھماری کفر سے مراد کفر کا عام مفھوم جو کفر کلامی ، کفر فقھی دونوں کو شامل ھے۔

[6]  ” لقد کفر الذین قالوا ان اللھ ھو المسیح بن مریم ” سوره مائده / ۱۷۔

[7]  مجموعھ فتاوی بن باز۔ ج ۲ ص ۵۵۲۔

[8]  فتح المجید۔

[9]  الرد علی الرافضه ( طبق نقل شیعھ شناسی ) رضوانی ، علی اصغر ، ص ۱۳۵ ، ۱۴۳۔

تبصرے
Loading...