زمين پر سجدہ كے سلسلہ ميں معروف حديث نبوي

اس حديث كو شيعہ و اہل سنت نے پيغمبر اكرم(ص) سے نقل كيا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا ”جُعلت لى الارضُ مسجداً و طہوراً” كہ زمين ميرے ليے محل سجدہ اور طہارت ( تيمم) قرار دى گئي ہے” (1)

بعض علماء نے يہ خيال كيا ہے كہ حديث كا معنى يہ ہے كہ پورى روئے زمين اللہ كى عبادت كا مقام ہے- پس عبادت كا انجام دينا كسى معيّن مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے جيسا كہ يہود و نصارى گمان كرتے تھے كہ عبادت كو حتماً كليساۆں اور عبادت خانوں ميں انجام دينا چاہيے”-

ليكن اگر غور كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ تفسير حديث كے حقيقى معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہے كيونكہ پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا” زمين طہور بھى ہے اور مسجد بھي” اور ہم جانتے ہيں كہ جو چيز طہور ہے اور جس پر تيمّم كيا جا سكتا ہے وہ زمين كى خاك اور پتھر ہيں پس سجدہ گاہ كو بھى وہى خاك اور پتھر ہونا چاہيے-

اگر پيغمبر اكرم(ص) اس معنى كو بيان كرنا چاہتے كہ جسكا بعض اہلسنت كے علماء نے استفادہ كيا ہے تو يوں كہنا چاہيے تھا كہ ” جُعلت لى الارض مسجداً و ترابُہا طہوراً” پورى سرزمين كو ميرے ليے مسجد قرار ديا گيا اور اس كى خاك كو طہارت يعنى تيمم كا وسيلہ قرار ديا گيا ہے” ليكن آپ(ص) نے يوں نہيں فرمايا- اس سے واضح ہوجاتا ہے كہ يہاں مسجد سے مراد جائے سجدہ ہے لہذا سجدہ گاہ كو بھى اسى چيز سے ہونا چاہيے جس پر تيمم ہو سكتا ہے-

پس اگر شيعہ زمين پر سجدہ كرنے كے پابند اور قالين و غيرہ پر سجدہ كو جائز نہيں سمجھتے تو يہ كوئي غلط كام نہيں كرتے بلكہ رسول خدا(ص) كے دستور پر عمل كرتے ہيں-

 

حوالہ جات :

1) صحيح بخارى جلد 1، ص 91و سنن بيہقي، جلد 2- ص 433 (اور بہت سى دوسروى كتابوں ميں يہ حديث نقل ہوئي ہے)-

 

تبصرے
Loading...