خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت

” یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِہِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ، یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیھِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ، یَا اَبَاذَر !، اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ وَ صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَ فَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَ حَیٰوتَکَ قَبْلَ مَوْتِک”َ

اے ابو ذر! میری نصیحت پر عمل کرو تاکہ دونوں جہاں میں سعید و نیک بخت رہو ۔ اے ابو ذر ! بہت سے لوگ دو نعمتوں کے بارے میں دھوکہ میں ہیں اور انکی قدر نہیں کرتے ، ان میں ایک تندرستی کی نعمت ہے اور دوسری فرصتاور آسائش کی نعمت ہے ۔

اے ابوذر! اس سے پہلے کہ پانچ چیزوں سے تمھیں دو چار ہونا پڑے ، پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: جوانی کو بوڑھاپے سے پہلے ، تندرستی کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو پریشانی سے پہلے ، فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے ۔

”یَا اَباذر ! اِحْفظ مَا اُوصِیْکَ بِہِ تَکُنْ سَعِیداً فِی الدُّنیَا وَالآخِرَةِ ”

انسان ہمیشہ اپنی سعادت کے تحفظ کی جستجو میں رہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں سعادت انسان کا ذاتی اور بنیادی مقصد ہے لہذا انسان اس کے عوامل و اسباب کو حاصل کرنے اور اس تک پہنچنے کی راہ جاننے کی جستجو میں رہتا ہے اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ اگر میری نصیحتوں پر عمل کرو گے تو اپنے فطری مقصود ، یعنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلو گے اور اگر اس پر عمل نہ کرو گے تو اس سعادت سے محروم ہوجاؤ گے یہ تاکیداس کے اندر آمادگی پیدا کرنے اور بیشتر قبول کرنے کیلئے ہے جیسے کہ ڈاکٹر بیمار سے نصیحت کرتا ہے : اس نسخہ پر ضرور عمل کرنا تا کہ صحت مند ہوجاؤ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان اپنی صحت یابی کیلئے ہی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ اس تاکید کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

”یَا اَبَاذر ! نِعمَتَان مَغْبُون فِیھِمَا کَثِیر مِنَ النَاسِ : الصِّحَةُ وَ الفَرَاغُ ” 

تندرستی اور فراغت ایسی دو گراں قیمت نعمتیں ہیںجو خداوند عالم نے انسان کو عطا کی ہیں ، لیکن اکثر لوگ ان دو نعمتوں کی قدر نہیں جانتے اور مفت میں انھیں کھودیتے ہیں اس لحاظ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے تاکید فرماتے ہیں کہ ان دو نعمتوں کی قدر کرو اور مفت میں انہیں ہاتھ سے جانے نہ دو ۔

خداوند متعال نے بے شمار اور گراں قیمت نعمتیں انسان کو عطا کی ہیں اور انسان انھیں مفت میں کھودیتا ہے ، شاید اس لئے کہ انسان نے انھیں حاصل کرنے میں کوئی تکلیف نہیں اٹھائی ہے انسان نہ یہ کہ ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں معصیت اور ایسی راہ میں استعمال کرتا ہے نہ یہ کہ اس کیلئے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ نقصان کا بھی متحمل ہوتا ہے ۔

تندرستی ایسی گراں قدر نعمتوں میں سے ایک ہے کہ صحت مند انسان اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور وہ اس وقت اس کی قدر جانتا ہے جب کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کی مثال اس مچھلی کی جیسی ہے کہ جب تک پانی میں تیرتی ہے وہ پانی کی قدر نہیں جانتی ، جوں ہی پانی سے باہر آجاتی ہے ، تو پانی کی اہمیت کا احساس کرتی ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک دوست کو ایک حادثہ پیش آیاتھا ، اس نے نقل کیا: منبر پر تقریر کے دروان اچانک اس کی آواز بیٹھ گئی ، اگر چہ اس نے اپنے بیان اور بحث کو جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوآخرکار منبر سے اتر کر ہسپتال گیا اور خوش قسمتی اور خدا کی مہربانی سے کچھ عرصہ کے بعد اس نے شفا پائی ۔

بہت کم ایسا اتفاق پیش آتا ہے کہ انسان اپنے ارد گرد موجودہ نعمتوں ، جیسے گفتگو کرنے کی صلاحیت جیسی نعمت کے بارے میںغور کرے اور اس نعمت کی وجہ سے خدائے متعال کا شکر بجالائے، بلکہ وہ اس لمحہ میں اس نعمت کے بارے میں متوجہ ہوجاتا ہے جب اس کی آواز اچانک رک جاتی ہے اور بات کرنے کی طاقت اس سے سلب ہوجاتی ہے ایسی حالت میں حتی اس حد تک آمادہ ہوتا ہے کہ اس نعمت کو دوبارہ پانے کیلئے اپنی ساری دولت خرچ کردے ۔

لمحہ بھر کیلئے ہم اپنی تندرستی کے بارے میں فکر کریں اور اس موضوع پر غور کریں کہ اس سے کونسی نعمت بہتر ہے کہ ہم ہزاروں بیماریوں سے محفوظ ہیںجو ممکن ہے ہمارے جسم پر حملہ ور ہوسکتی تھیں۔ تندرستی کے عالم میں زندہ ہیں اور ان بیماریوں میں سے کسی ایک میں بھی مبتلا نہیں ہیں لہذا ہم ہر لمحہ ایک عظیم دولت سے مالامال ہیں ، اگر چہ یہ تندرستی پائدار اور ابدی نہیں ہے اور ہر لمحہ ممکن ہے ہاتھ سے چلی جائے ۔

اسی بیان کے مانند ایک اور جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوا ہے ۔

” نِعْمَتَانِ مَکْفُورَتَانِ اَلْاَمْنُ وَ الْعَافِیة ُ” ١

دو نعمتیں ہیں جن کی ( ہمیشہ ) ناشکری کی جاتی ہے : امن اور سلامتی ”

دوسری نعمت جس کی طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے وہ فراغت ہے اور یہ آسودگی اور مصروفیت کے نہ ہونے کے معنی میں ہے انسان اپنی زندگی میں مختلف حالات سے دوچار ہوتا ہے بعض اوقات آسودگی اور سکون و اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا اس حالت میں اپنے بارے میں تفکر کرسکتا ہے اور اپنے وجود میں پوشیدہ زاویوں کو پاسکتا ہے اور بعید نہیں اپنی اخلاقی اور نفسیاتی گمراہیوں کو دور کرنے کا عزم و ارادہ کرے ۔ اپنے انجام کے بارے میں غور کرے اور ایک خلوت ( کنج تنہائی )کدہ اور گوشہ میں جاکر عبادت میں مشغول ہوجائے یاسکون قلب کے ساتھ مطالعہ کرے، بہر صورت جسمی اور روحی آسودگی اس کے پورے وجود پر حکم فرما ہے اور یہ آسودگی اس کیلئے ایک سنہری موقع عطا کرتی ہے تا کہ ان فرصتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور ایک ایک لمحہ سے اپنے عروج و کمال کیلئے استفادہ کرے، اس کے بر عکس ممکن ہے کہ اپنی زندگی میں ایسے حالات سے دو چار ہو جس میں مختلف وجوہ کی بنا پر آسائش و فراغت نہ دیکھ سکے اور ایک لمحہ کیلئے دل میں اسکی حسرت رکھتا ہو ، لیکن کیا فائدہ کہ گزرا ہوا زمانہ کبھی واپس نہیں آتا ، فرصتوں سے بہتر استفادہ کرنے کے سلسلہ میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

”وَ الفُرصَةُ تَمُرُ مَرَّ السَّحَابِ فانْتَھزُوا فُرَصَ الخَیْرِ” ١

فرصت ( اور عمر ) بادل کے مانند گزر جاتی ہے لہذا نیک فرصتوں کی قدر کرو ”

مشکلات ، بعض اوقات گھریلو مسائل میں مشغولیت اور اہل و عیال کی ذمہ داری قبول کرنے سے پیدا ہوتی ہیں اور بعض اوقات سماجی مصروفیتوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے وجود میںآتی ہیں ۔ یہ مشکلات انسان کی تمام جسمی اور روحی قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنی طرف مشغول کرتی ہیں اور اسے ایک لمحہ کیلئے بھی سوچنے کی فرصت نہیں دیتیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت سے ذمہ دار افراد اسی حالت سے دوچار ہوئے ہیں حتی کہ اپنے ذاتی مسائل کی طرف توجہ کرنے کی فرصت بھی نہیں رکھتے ۔

اس کے برعکس کچھ لوگ ہمیشہ وقت گزاری کی تلاش میں ہوتے ہیں ، اور یہ نہیں جانتے کہ کس طرح اپنی گراں بہا فرصت سے استفادہ کریں ، اخباروں کے معمے حل کریں ؟ یا رات گئے تک ٹی وی کی فلمیں یا ورزشی پروگرام دیکھتے رہیں یا شطرنج کھیلنے میں مشغول رہیں ؟ ان کی مثال اس انسان کی ہے جس نے اپنی ایک بڑی دولت کو ایک جگہ جمع کیا ہے اور ایک ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں پر اپنی اس دولت کو تدریجاً آگ لگادے اور اس کا تماشا دیکھتے ہوئے لذت کا احساس کرے۔ اگر ہم ایسے کسی شخص کو دیکھیں گے تو اسے پاگل کہیں گے ہم اس سے غافل ہیں کہ خود ہم میں سے بہت لوگ اسی دیوانگی سے دوچار ہیں اوراپنی عمر کے سرمایہ کو ۔ جو دنیوی دولت سے قابل موازنہ نہیں ہے اپنی ہوس کی آگ میں جلادیتے ہیں ۔

حقیقت میں ایسے ہی انسان کومتضرر اور فریب خوردہ کہنا چاہیئے کیوںکہ فریب خوردہ وہ شخص ہے جو اپنی گراں قیمت اشیا کو بیچتا ہے اور ا سکے عوض میں بے قیمت یا کم قیمت والی چیز حاصل کرتا ہے ۔ کوئی بھی ایسی قیمتی چیز نہیں ہے جس کا عمر کے سرمایہ سے موازنہ کیا جاسکے اور انسان عمر کے سرمایہ کیلئے بہشت سے کم تر چیز پر راضی نہیں ہوسکتا ، لہذاجب تک فرصت ہاتھ سے نہ چلی جائے اس کی قدر کیجئے اور ایسا کام انجام دیجیئے کہ دوسرے تمام کاموں کی بہ نسبت زیادہ سے زیادہ سود مند اور شائستہ ہو .” یا ابا ذر !اغنتم خمسا قبل خمس شبابک قبل ہرمک”

”اے ابو ذر ! پانچ چیز کو پانچ چیز سے پہلے غنیمت شمار کرو ،جوانی کو بڑھاپے سے پہلے”

جوانی کا مختصر دور جو نشاط اور زندہ دلی کے ہمراہ ہوتا ہے ، انسان کی عمر کا بہترین دور محسوب ہوتا ہے اور وہ دور خصوصیت کا حامل ہوتاہے ، اگر چہ انسان کی پوری زندگی اور عمر ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن جوانی کا دور ایک دہری نعمت ہے ، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے جوانی کے دور کا ذکر فرماتے ہیں اورپھر آخر میں اصل حیات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ۔ با وجودیکہ زندگی کا دور مرحلۂ جوانی پر بھی مشتمل ہے ، لیکن چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر میں جوانی کا دور خاص اہمیت کاحامل ہے ، اس لئے ابتدا میں اس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ۔

امام خمینی مکرر فرماتے تھے : ” اے جوانو! جوانی کی قدر جانو” کیونکہ جوانی کی نعمت ایک عظیم نعمت ہے ، اس سے صحیح اور مناسب استفادہ کرکے انسان ترقی اور بلند مقام حاصل کرسکتا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو بوڑھاپے میں کم حاصل ہوتی ہے ۔ اسی لئے ائمہ اطہار علیہم السلام کی اقوال میں بھی اس حقیقت کی وضاحت وتشریح کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

”مَنْ قَرََ الْقُرآنَ وَھُوَ شابّ مُؤمِن ِخْتَلَطَ الْقُرآنُ بِلَحْمِہِ وَ دَمِہِ ” ١

”جو بھی مومن جوان قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے ، قرآن اس کے گوشت و خون میں ممزوج ہوجاتا ہے ”

جوانی کا دور انعطاف اور حق پذیری کا دور ہوتا ہے اس دور میں انسان اپنے آپ کو بنا سکتا ہے اور اپنے آپ کو بری عادتو سے ادور رکھ سکتا ہے جوانی کے دوران ہی انسان :

۔ دوسرے تمام ادوار سے کہیں زیادہ حق بات سے متاثر ہوتا ہے ۔

۔ صحیح و سالم بدن کا مالک ہوتا ہے اس لئے اپنے اجتماعی فرائض کو انجام دے سکتا ہے ۔

۔ قوی جسم اور روح کا مالک ہونے کی وجہ سے عبادت کے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ 

۔ اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کیلئے کافی قدرت رکھتا ہے ۔

۔ اپنے جسم و روح سے استفادہ کرکے علم کے بلند مراحل تک پہنچ سکتا ہے ۔

۔ انسان قوی اور مستحکم عزم و اراد ہ کا مالک بن سکتا ہے ۔

۔ تھکن محسوس کئے بغیر بہتر صورت میں سوچ سکتا اور گھنٹوں تفکر کرسکتا ہے ۔

۔ اچھی عادتوں کو اپنے اندر انتہائی حد تک مستحکم کرسکتا ہے ۔

اس کے برعکس بوڑھاپے کا زمانہ ضعف، سستی کسالت انحطاط ،ناقابل تلافی ، کمزوری، پست ہمتی اور خلاصہ کے طور پر جسم و روح پرفرسودگی ضعیفی کے تسلط کا دور ہوتا ہے ۔

قرآن مجید میں تین مواقع پر بڑھاپے کو ” شَیب” و ” شَیبہ” سے تعبیر کیا گیا ہے اور چار مواقع پر ” شیخ ” و”شیوخ” سے تعبیر کیا گیا ہے ا ور اکثر مقامات پرانسانی زندگی کے اس دور میں فطری ضعف کے بارے میں وضاحت یا اشارہ کیا گیا ہے ۔ 

مثلاً حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے :

( قَالَ رَبِّ ِنِّی وَھَن الْعَظْمُ مِنِّی وَ اشْتَعَلَ الرَّاسُ شَیْباً …)(مریم ٤)

کہا کہ پروردگارا !میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں ۔

اسی طرح انسانی حیات کے مراحل کے بارے میں فرماتا ہے ، 

( ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفاً وَ شَیْبَةً) ( روم ٥٤)

اور پھر طاقت اور امنگ کے بعد کمزوری اور ضعیفی قرار دی ہے ۔

(تمام تعبیروں میں بھی قرآن مجید نے بڑھاپے کے دورکو عجز و ناتوانی کے دور کے عنوان سے اشارہ کیا ہے)

لہذا جوانی کاد ور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کیلئے ایک گراںقیمت زمانہ ہے اور یہ کام بڑھاپے کے دوران انجام پانا بہت مشکل ہے ، لیکن افسوس ہے کہ انسان احساس و تجربہ کے بغیر کسی چیز پر یقین نہیں کرتا ہے ، یعنی جب تک بوڑھا نہ ہوجائے بڑھاپے کا درد محسوس نہیںکرتا ہے اگر اس دور کے مشکلات اسے بتائے جائیںتو اس کے بارے میں کما حقہ باور نہیں کرتا ہے ۔

ہم نے ایسے بزرگوں کو دیکھا ہے جو بڑے کمالات کے مالک تھے ، لیکن ا ن میں جوانی کے زمانہ کی بعض اخلاقی کمزوری باقی رہ گئی تھی اس کی وجہ یہ تھی یا اس دور میں انھوں نے اس کی شناخت نہیں کی تھی یا اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بہر صورت وہ اخلاقی کمزوری ایک ناسور کی صورت اختیار کر کے لاعلاج بیماری میں تبدیل ہوچکی تھی ۔

اس مضمون میں شامل موضوعات

تندرستی اور دولتمندی کی قدر جاننے کی ضرورت
”صِحَتَکَ قَبْلَ سُقمِکَ وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ”
دوسرے یہ کہ : تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو ۔
تیسرے یہ کہ : دولتمندی کو فقر و پریشانی سے پہلے غنیمت جانو ۔
اگر زندگی کو چلانے کی اگر چہ سادہ اورپاک و صاف حالت میں طاقت رکھتے ہو اور مالی کمزوری نے تجھے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں کیا ہے ، تو خدا نخواستہ فقر و پریشانی میں مبتلا ہونے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کو چلانے کیلئے دوسروں کے محتاج ہونے سے پہلے اس نعمت کی قدر کرو اگر اس وقت تمھارے اختیار میں معمولی امکانات ہیں اور تم قناعت سے اپنی روز مرہ کی زندگی چلاسکتے ہو تو اس کے حصول کو جاری رکھو اور اسے غنیمت جانو اور اس دن سے ڈرو جس دن اس معمولی زندگی کو چلانا تیرے لئے دشورا ہوجائے اور اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام میں مشغول ہوجاؤ ، اگر زاہدانہ زندگی گزار سکتے ہو تو اس فرصت سے استفادہ کرو اورغیر موجود اور نادر چیزوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے جو کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے ، اسی کی فکر کرو اور اس کی قدر کر و کسی کے محتاج نہ ہونے کے ایام میں تمھارے لئے دوسروں کی مدد کرنے کی اچھی فرصت ہے ، لہذا فرصت کو کھونے اور فقر وناداری سے دوچار ہونے سے پہلے حاجتمندوں کی مدد کرو ۔
اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ شرم آور فقر و تنگدستی انسانی کرامت کے شایان شان نہیں ہے اور ناپسند صفت کے طور پر ا س کی مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی اپنے بندہ کیلئے ذلت پسند نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی عزت و سربلندی چاہتا ہے لہذا حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں او رمحتاجی سے مقابلہ کرنے کے طریقوں ، جیسے : قناعت اور عالی ظرفی کو اپنا شیوہ بنائے اور عیاشی ، فضول خرچی سے پرہیز کو اچھی طرح سیکھ کر ان پر عمل کرناچاہیئے ۔
” و فِرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ”
چوتھے یہ کہ: فراغت و آسودگی کی نعمت کو مصروفیت و گرفتاری سے دوچار ہونے سے پہلے غنیمت جانو۔
اس جملہ کے مفہوم پر اس سے پہلے بحث ہوئی ، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے سبکدوش اور سماجی فرائض سے پہلو تہی کرکے بے کاری کو غنیمت سمجھیں ، یہ تصور منفی اور غلط ہے ۔ شاید آنحضرت ۖ کی مراد یہ ہے کہ ناخواستہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور ہونے ،تھوپے جانیوالی مصروفیتوں اور انتخاب کا حق سلب ہونے سے پہلے ان فرصتوں کو غنیمت جانوکہ آزادی کے ساتھ انتخاب کیا جائے اور کسی جبرو اکراہ کے بغیر فیصلہ کیا جائے ، لہذا بہتر امر کا انتخاب کرنے میں ان فرصتوں سے استفادہ کرناچا ہیئے۔

” وَحیواتک قبل موتک ”

پانچویں : زندگی کی نعمت کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانو ۔

زندگی کی نعمت ایک عمومی اور وسیع نعمت ہے ، جس کا تمام نعمتوں کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔ حقیقت میں دوسری نعمتیںزندگی کی نعمت سے وابستہ ہیں اگر زندگی نہ ہو تو دوسری نعمتوں کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے، لہذا تمام نعمتوں کی بنیاد دنیوی زندگی کی نعمت ہے ، جو خداوندمتعال کی طرف سے بندوں کو عطا کی گئی ہے اگرچہ انسان اخروی زندگی کی نعمت سے بھی مستفید ہے لیکن اس سے عمل ، انتخاب اور آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے وہاں پر انسان اپنی پہلی زندگی کی فرصتوں کو کھودینے اور اپنے غلط انتخاب پر حسرت کھائے گا اور گزشتہ غلطیوں کی تلاش کرنے کیلئے پھر سے دنیا میں بھیجے جانے کی درخواست کرے گا لیکن کیا فائدہ کہ اس کی یہ درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔

( حَتٰی اِذَا جَائَ اَحَدَھُمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی اَعْمَلُ صَالِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلاَّ اِنَّھَا کَلِمَة ھَوَ قَائِلُھَا وَمِنْ وَرَائِھِمْ بَرْزَخ اِلٰی یَومَ یُبْعَثُونَ ) (مومنون ٩٩۔ ١٠٠)

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہے کہ پروردگارا مجھے پلٹادے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ، ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ حسرت سے کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے ۔

بعض بزرگ شخصیتیں تاکید کرتی تھیں کہ سوتے وقت تصور کرناکہ شاید اس نیند سے بیدار نہیں ہوگے اور اسی حالت میںملک الموت آکرتمھاری روح کو قبض کرے گا کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے : 

( اﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِینَ مَوتِھَا وَ الَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِھَا …) (زمر ٤٢ )

اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلاتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روح کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔

نیند کی حالت میں ، روح تقریباً بدن سے خارج ہوجاتی ہے اور اگر انسان کی موت آئی ہو تو مکمل طور پر بدن سے اس کا رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اس لحاظ سے خداوند عالم مذکورہ آیۂ شریفہ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے :

( فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْریٰ اِلیٰ اَجلٍ مُسَمّیً) 

اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کواپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے اور جس کی موت کا فیصلہ نہیں کیا ہے دوبارہ اس کے جسم میں واپس کر دیتا ہے اس کی موت آنے تک کے لئے۔ 

حقیقت میں انسان نیند کی حالت میں موت کا نصف سفر طے کرتا ہے لہذا تاکید کی گئی ہے کہ نیند کی حالت میں فرض کریں کہ روح بدن سے جدا ہونے کے بعد واپس بدن میں نہیں لوٹے گی اور جب نیند سے بیدار ہوجاؤ تو خدا کا شکر بجا لائو کیوں کہ خداوند عالم نے تمہارے بدن میں دوبارہ جان ڈال دی ہے اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی ہے، دوسرے الفاظ میں فرض کریں کہ تم عالم برزخ میں گئے تھے اور وہاں پر تمہارے برے اعمال واضح ہوگئے اور تمہیں مجازات کا سامنا کرنا پڑا اور تو نے ملائکہ مقرب الہی سے پھر سے دنیا میں آنے کی درخواست کی اور انھوں نے تمہاری یہ درخواست منظور کی ہے اورتمہیں پھر سے دنیا میں آنے کی اجازت دے دی اب جبکہ تم دوبارہ دنیا میں آئے اور اعمال انجام دینے کی فرصت مل گئی تو تم کیا کرو گے اور کیسے رہو گے ؟ ہمیں ا س دوبارہ دی گئی فرصت کی قدر جاننی چاہیئے اور ا سکے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے ، کیونکہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جہاں پر ایک”لاالہ الااﷲ”کہنے کی حسرت رہے گی اور بقول امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام 

” مَنْ قَصَّر فِی العَمَلِ اُبْتُلِی بَالَھم وَ لٰاحاجَةَ ﷲِ فِیْمَنْ لَیْسَ ِﷲ فِی مَالِہِ وَ نَفْسِہِ نَصیب ” ١

جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

١۔ بحار الانوار ،ج ٨١ ، ص ١٧٠ ،باب ١
2:وسائل الشیعہ ، ج ١٦ ، باب ٩١، ص ٨٤
3: بحار الانوار ،ج٧ص٣٠٥

4:۔نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، کلمات قصار ، نمبر ١٢٢ ، ص ١١٤٦)

تبصرے
Loading...