خداوند متعال کا وعدہ، مؤمنين کي حکومت

خداوند متعال کا وعدہ، مؤمنين کي حکومت

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( سورہ نور٬ آيہ ٥٥)

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اوراس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔

خداوند کريم نے اس آيہ مجيدہ ميں ايک وعدہ کا تذکرہ فرما رہاہے جو وعدہ ايسے گروہ سے مربوط ہے جن ميں دو بنيادي صفات پائي جائيں گي :١۔ ايمان۔٢۔عمل صالح

تو ان صفات والے لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمين ميں اپني خلافت عطا کرےگا اورپروردگار اپنے وعدے کي مخالفت نہيں کرتا۔

پروردگار نے جو وعدے کيے ہيں وہ چار وعدے ہيں:

١۔ان کو زمين ميں اپني خلافت عطا کرے گا۔

٢۔اس دين کو ان کے لئے محکم کردے گا جو ان کا پسنديدہ ہوگا۔

٣۔خوف کي جگہ امن کو لائے گا۔

٤۔فقط اللہ کي عبادت کريں گے۔

پہلا وعدہ: زمين پر خليفہ قرار دينے کا مطلب يہ ہے کہ تمام زمين پر مسلط کرنا۔

خدا نے اس سے پہلے بھي صالح قوموں کو زمين پر خلافت عطا کي ہے مثال کے طور پر قوم نوح اور صالح۔

دوسرا وعدہ: ايسے دين کو طاقت و قدرت عطا کرے گا جس کو خدا نے پسند کيا ہے اوروہ دين يقينا دين اسلام ہے ۔تمکين کا مطلب يہ ہے کہ يہ دين زوال نا پذير ہوگا اس طرح مضبوط ہوگا کہ اس کے اثرات کو کوئي چيز روک نہيں سکے گي اور کسي قسم کا کفر وشرک اس دين کا مقابلہ نہيں کرسکے گا ۔يہي وہ دين ہے جس کو پروردگار نے غدير خم ميں اپنے رسول (ص) کے ذريعہ علي (ع) مولي کي ولايت کا اعلان کروا کے مکمل کيا ہے﴿ اليوم اکملت لکم دينکم﴾ ( سورہ مائدہ ٬ آيہ ٣.)

تيسراوعدہ امن و امان ہے، ايسے زمانے ميں خوف اور ڈر کي جگہ امن اور سکون لے گا اور يہ بات اپني جگہ پر روشن ہے کہ خوف اور ڈر کے اسباب ہوتےہيں جب ڈر کے اسباب ختم ہوجائيں گے تو ڈر بھي ختم ہوجائے گا تو اس زمانے ميں مؤمنين کے لئے کوئي خوف کا سبب نہيں ہوگا۔

چوتھا وعدہ: سارے مؤمنين ميري عبادت کريں گے اور مشرک نہيں ہوں گے اس زمانہ ميں صرف خدا کي عبادت کي جائے گي مشرک کے سارے وسائل ختم ہوجائيں گے۔

اب ديکھنا يہ ہے کہ آيا کوئي ايسا وقت آياہے جس ميں يہ وعدے پورے ہوچکے ہيں اگر نہيں آيا تو پھر وہ کونسا زمانہ ہے کہ جس ميں يہ سارے وعدے اللہ کے مکمل ہوں گے تو روايات ميں پتہ چلتا ہے کہ يہ وعدے حضرت امام مھدي عليہ السلام کے زمانہ ميں مکمل ہوں گے ۔

علامہ طبا طبائي مفسر بزرگ فرماتے ہيں کہ آيہ مجيدہ کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ يہ آيہ امت اسلامي کے کچھ افراد سے متعلق ہے کہ وہ لوگ ايک نيک معاشرہ رکھتے ہوں گے اور وہ ايسا معاشرہ ہوگا جس ميں دين اللہ کي رضايت والا ہوگا اور دين اسلام معاشرے ميں ايسے مستحکم ہوگا کہ اس ميں کوئي تزلزل نہيں ہوگا اور اس ميں ايسي امنيت ہوگي کہ وہ لوگ کسي دشمن سے نہيں ڈريں گے اس معاشرے ميں عبادت ميں اخلاص ہوگا جس سے تقوي کے علاوہ باقي سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

ايسا اجتما ع اور معاشرہ ابھي تک وجود ميں نہيں آيا؟ پس اگر اس جيسا معاشرہ ہوگا تو ہ امام مھدي عليہ السلام کے زمانے ميں ہوگا اور اگر آيت کو اس کا حق ديں تو کہنا پڑتا ہے کہ ايسا معاشرہ فقط امام مہدي عليہ السلام کے وقت ہي تشکيل پائے گا ۔ ( تفسير الميزان ج١٥.)

آخر ميں ايک روايت امام صادق عليہ السلام سے نقل کي جاتي ہے کہ جس ميں امام نے اس آيت کي تفسير کي ہے۔

انہ لم يحيي تأويل ھذہ الآيۃ ولو قام قائمنا سيَري من يدرکہ ما يکون من تأويل ھذہ الآيۃ وليبلغنّ دين محمد ما بلغ الليل حتي لايکون شرک علي اظھر الارض کما قال اللہ تعالي و يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا. ( بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص٥٥ ٬ حديث ٤١.)

اس آيہ مجيدہ کي تاويل ابھي تک نہيں آئي جب ہمارے قائم عليہ السلام قيام فرمائيں گے تو اس وقت جو لوگ موجود ہوں گے وہ اس آيہ کي تأويل کو ديکھيں ۔ دين محمد ہر اس جگہ پہنچ جائے گا جہاں رات ہوگي يہاں تک کہ زمين کے اوپر کوئي مشرک نہيں ہوگا جيسے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے: ميري عبادت کريں گے اور ميرے ساتھ شريک قرار نہيں ديں گے۔

تبصرے
Loading...