خالق کائنات کے بارے میں قرآن مجیدکی تعلیم

(…افی اللّہ شکّ فاطر السّموات والارض۔۔۔)  (ابراہیم ١٠)

”کیا تمھیں اﷲکے بارے میں  شک ہے جو زمین وآسمان کا پیدا کرنے والاہے….؟”

وضاحت

دن کے اجالے میں تمام چیزیں آنکھوں کے سامنے نمایاں ہوتی ہیں، ہم اپنے آپ کو، گھر ، شہر، بیابان، پہاڑ، جنگل اور دریا کو دیکھتے ہیں۔ لیکن جب رات کااندھیرا چھاجاتا ہے تو تمام وہ چیزیں جو روشن و نمایاں تھیں ، اپنی روشنی کو کھو دیتی ہیں، ہم اس وقت سمجھتے ہیں کہ ان کی وہ روشنی اپنی نہیں تھی بلکہ سورج سے مربوط تھی کہ وہ ایک قسم کے رابطہ کی وجہ سے انھیں روشن کئے ہوئے تھا۔ سورج بذات خود روشن ہے اور اپنے نور سے زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کو روشن اورنمایان کرتاہے۔ اگر ان اشیاء کی روشنی اپنی ہوتی تو ہرگز اسے کھو نہیں دیتیں۔

انسان اور دیگر تمام زندہ حیوانات اپنی آنکھوں، کانوں او ردیگر حواس سے اشیاء کو درک کرتے ہیں اور ہاتھ، پاؤں اور تمام اندرونی و بیرونی اعضاء سے سرگرمی انجام دیتے ہیں، لیکن وہ بھی ایک مدت کے بعد حس و حرکت کو کھو کرکسی قسم کی سرگرمی انجام نہیں دے پاتے۔ دوسرے الفاظ میں  یہ کہا جائے کہ وہ مرجاتے ہیں۔

ہم اس چیز کامشاہدہ کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ان جانداروں سے ظاہر ہونے والا شعور ، ارادہ اورتحرک ، ان کے جسم و بدن سے نہیںہے، بلکہ ان کی روح وجان سے ہے کہ جس کے نکل جانے کے بعد اپنی زندگی اورتحرک کو کھودیتے ہیں۔

اگر دیکھنے او رسننے کا تعلق مثلا صرف آنکھ او رکان سے ہوتا، تو جب تک یہ دو نوں عضو موجود ہوتے دیکھنا اور سننا بھی جاری رہنا چاہئے تھا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اسی طرح یہ عظیم کا ئنات کہ، جس کے اجزاء میں  سے ہم بھی ایک جزو اور ایک وجود ہیں ہرگز شک و شبہ نہیں کرسکتے، کہ یہ کائنات اور ناقابل انکار خلقت ، اگر خود سے ہوتی، تو ہرگز اسے کھونہ دیتی، جبکہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اس کے اجزاء یکے بعد دیگرے اپنے وجود کو کھود یتے ہیں اورہمیشہ تغییر و تبدل کی حالت میں  ہوتے ہیں، یعنی ایک حالت کو کھوکرد وسری صورت اختیار کرتے ہیں۔

 لہذاہمیں  قطعی فیصلہ کرنا چاہئے کہ تمام مخلوقات کی خلقت اوروجود کا سرچشمہ کوئی دوسری چیز ہے جوان کا خالق اور پروردگار ہے اور جوں ہی خلقت کا رابطہ اس ذات سے ٹوٹ جاتاہے تو وہ نیستی و نابودی کے دریا میں  غرق ہو جاتی ہے

تبصرے
Loading...