حق دین اور باطل دین، قرآن کریم کی روشنی میں

خلاصہ: جو دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے وہ دین حق ہے جو اسلام ہے، اور اس کے علاوہ سب دین باطل ہیں۔

حق دین اور باطل دین، قرآن کریم کی روشنی میں

     دین مقرر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہذا برحق دین وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
سورہ نصر کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً”، “اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں”۔
قرآن کریم میں شریعت کے معنی میں دین، ہر اُس دین کو کہا گیا ہے جس کے پیروکار اس کے سامنے خاضع اور فرمانبردار ہوں، چاہے حق ہو یا باطل:
حق دین کی ایک مثال یہ ہے جو آل عمران، آیت 85  میں ہے: وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ، “اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین اختیار کرے گا تو اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا”۔
باطل دین کی ایک مثال وہ ہے جو سورہ غافر، آیت 26 میں بیان ہورہی ہے: وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ، “اور فرعون نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو۔ میں موسیٰ(ع) کو قتل کر دوں اور وہ (اپنی مدد کیلئے) اپنے پرورگار کو پکارے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کہیں تمہارا دین (شرک) نہ بدل دے۔ یا زمین میں فساد برپا نہ کر دے”۔
فرعون کا دین سے مراد وہی قوانین تھے جن کے ذریعے وہ قبطیوں کا بنی اسرائیل پر تسلط فراہم کرتا تھا، یہ قوانین وہی ظالمانہ قوانین تھے جو طاقت اور جبر پر مبنی تھے۔
نیز سورہ کافرون، آیت 6 یعنی آخری آیت میں حق اور باطل دین دونوں کا ایک ہی آیت میں تذکرہ ہوا ہے: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ، “تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[شريعت در آينه معرفت، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]
 [ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]

تبصرے
Loading...