جبر و اختیار

جبر واختیار“ کا مسئلہ ایک طولانی بحث کا حامل ھے چند صفحات میں اس کو بیان نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اس کتاب میں اس کی تفصیل بیان ہوسکتی ھے۔
اور چونکہ مسئلہ ”جبر“ ایک سیاسی حربہ ھے یہ صرف غیر مذھبی حکام نے اپنے افعال واعمال کو صحیح کرنے کا ایک ذریعہ نکالا ھے، ان کا مقصد صرف اسلام کے مخالف اعمال کو غیر اختیاری (جبری) کہہ کر عذر پیش کرنا ھے ۔
یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پھلو رکھتا ھے اسی وجہ سے علم کلام کے اھم مسائل میں شمار ہوتا ھے اور عقائد کے باب میں اھم باب ھے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ھے۔
مسئلہ ”جبر“ یااس کے مثل دوسرے مسائل جن پر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ھے ان کی بنیاد یہ ھے کہ انسان کے افعال واعمال صرف اس کے ارادہ واختیار سے انجام نھیں پاتے بلکہ وہ خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انجام پاتے ھیں اور ان کے انجام دینے میں انسان کا کوئی کردار نھیں ہوتا، اس نظریہ کو ”جبر“ کھا جاتا ھے جس کے نتیجہ میں انسان کو مجبور ماننا پڑتا ھے، چاھے وہ اطاعت ہو یا معصیت یعنی ان کے انجام پر مجبور ہوتا ھے چاھے ان کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔
چنانچہ جبر کے قائل لوگوں نے اپنے گمان کے مطابق قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اس بات کا ایک ھلکا سا اشارہ پایا جاتا ھے، پیش کی ھیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:
1
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ ھم پر ھر گز کوئی مصیبت نھیں پڑسکتی مگر وھی جو خدا نے (ھماری تقدیر میں) لکھ دیا ھے۔“
2
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ سب خدا کی طرف سے ھے“
لہٰذا ان آیات کے پیش نظر ان لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان آیات کے ذیل میں انسان کے افعال واعمال بھی آتے ھیں۔
جبکہ بعض مسلمانوں کا عقیدہ یہ ھے (کیونکہ وہ مذکورہ نظریہ کو باطل جانتے ھیں) کہ انسان او ر خداوندعالم میں سوائے خلق اول کے کوئی رابطہ نھیں ھے، یعنی خداوندعالم نے ان کو خلق کرنے کے بعد مکمل آزاد کردیا ھے اور تمام چیزوں کو انھیں پر چھوڑ دیا ھے، ان کا خدا سے کوئی ربط نھیں ھے، ان کا ماننا یہ ھے کہ علت محدثہ معلول کی بقا کے لئے کافی ھے، اس حیثیت سے کہ معلول اپنے وجود کے بعد اپنی علت سے بے نیاز ہوجاتا ھے کیونکہ وہ فقط پھلی علت حدوث کا محتاج ہوتا ھے، چنانچہ علماء علم کلام اس نظریہ کو” تفویض“ کہتے ھیں یعنی خداوندعالم نے تمام کاموں کو انسان پر چھوڑ دیا ھے اور اب اس سے کوئی مطلب نھیں۔
جبکہ حقیقت میں صحیح نظریہ ان دونوں نظریات کا درمیانی راستہ ھے، اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کا بیان بہترین او ر دقیق ھے، آپ نے اپنی مشہور حدیث میں فرمایا:
”لا جبر ولا تفویض، بل منزلة بین المنزلتین“ 3
(نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ صحیح ھے)

 
وضاحت

ھرانسان فطری طور پر اس بات کو سمجھتا ھے کہ وہ بہت سے کاموں پر قادر ھے اور وہ جن کاموں کا ارادہ کرے ان کو انجام دے سکتا ھے اور جن کاموں کو انجام نہ دینا چاھے ان کو چھوڑ سکتا ھے اور ھمارے لحاظ سے کوئی بھی ایسا انسان نھیں ہوگا جو اس بات میں شک کرے، جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ھے۔
اسی طرح ھر انسان یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا ھے کہ تمام صاحبان عقل اس بات پر متفق ھیں کہ جو شخص اچھے کام کرتا ھے اس کی مدح وتعریف کرتے ھیں اور جو شخص برے کام کرتا ھے اس کی مذمت کرتے ھیں، اور یہ بھی اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ انسان اپنے افعال میں مکمل آزاد ھے اور (اگر اختیار نہ ہو) تو صاحبان عقل کا مدح ومذمت کرنا صحیح نہ ہوگا۔
اسی طرح انسان فطری طور پر اس بات کا بھی احساس کرتا ھے کہ انسان کے کسی بلندی سے سیڑھی کے ذریعہ نیچے اترنے اور بلندی سے زمین کی طرف کودنے میں فرق ھے کیونکہ انسان پھلی صورت پر قادر ھے اور دوسری صورت میں مجبور۔
اسی طرح عقل سلیم کے نزدیک یہ بات بھی مسلم ھے اور کسی کو بھی اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ انسان میں ان طاقت وتوانائی کا خلق کرنے والا ان کو ایجادکرنے کے بعد ان سے جدانھیںہوا ھے، بلکہ ان چیزوں کاباقی رہنا ھر لمحہ اس موٴثر کا محتاج ھے، کیونکہ ان اشیاء کا خالق کسی معمار کی طرح نھیںھے کہ مکان بننے کے بعد مکان کو معمار کی ضرورت نھیں ہوتی، بلکہ عمارت اپنی جگہ پرباقی رہتی ھے چاھے اس کابنانے والا معمار مرھی کیوں نہ ہوجائے، اسی طرح کتاب جو اپنے لکھے جانے میںکاتب کی محتاج ھے، بلکہ اس کائنات اور جوکچھ اس میں موجود ھے؛ کاخالق روشنی کے لئے بجلی کی طرح ھے کہ جب تک بجلی رہتی ھے روشنی باقی رہتی ھے، اورروشنی اپنی بقاء میں ھر لمحہ بجلی کی محتاج رہتی ھے اوراگر بجلی کا تار ایک لمحہ کے لئے ہٹالیاجائے تو روشنی فوراًختم ہوجاتی ھے، بالکل اسی طرح اس کائنات کی تمام چیزیں اپنے وجود اور بقاء میںھر لمحہ اپنے مبدع اور مصدر (خالق) کی محتاج ھیں۔
قارئین کرام! ھماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ھے کہ انسان کے اعمال وافعال جبر وتفویض کے درمیان ہوتے ھیں، اور ان کے لئے دونوں میں حصہ ہوتا ھے، لہٰذا فعل یا ترک کو انجام دینے کی طاقت اگرچہ انسان کے اختیار سے ھی ہوتی ھے لیکن یہ قدرت خدا کا عطیہ ھے، اور انسان کا فعل ایک لحاظ سے خود انسان کی طرف منسوب ہوتاھے، اور ایک لحاظ سے خدا کی طرف منسوب ہوتا ھے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن سے ”جبریوں“ نے استدلال کیا ھے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ انسان کا اختیار کسی کام کو انجام دینے میں خدا کی قدرت کے نافذ ہونے میں مانع نھیں بن سکتا، اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان خدا کی ذات اور اس کی قدرت سے بے نیاز ہوگیاھے؟ ! ۔
اس سلسلہ میں ھمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رحمةاللہ علیہ نے اپنے درس میں ”المنزلة بین المنزلتین“ کی تفسیر کرتے ہوئے درج ذیل بہترین مثال پیش کی:
”اگر کسی انسان کا ھاتھ اس طرح شَل ہوجائے کہ وہ اس کو نہ چلا سکے، اور کوئی ڈاکٹر اس کے کوئی ایسا آلہ لگائے جس کی وجہ سے اس کا ھاتھ حرکت کرنے لگے، اس طرح کہ جب وہ آلہ لگا ہوا ہو تو انسان اپنے ھاتھ کو حرکت دے سکے، تو جب تک وہ آلہ لگا ہوا ھے اس کا ھاتھ کام کرتا ھے اور جب اس کو الگ کردیا جائے تو اس کا ھاتھ اپنی پھلی حالت پر پلٹ جائے، تو جب اس کے وہ آلہ لگا ہوا ھے اور وہ اپنے ھاتھ کو حرکت دینے پر قادر ھے اور اپنے معمولی کاموں کو انجام دے رھا ھے تو اس کی یہ حرکت دونوں چیزوں کی سبب ہوگی ایک لحاظ سے صاحب دست کی طرف مستند ھے کیونکہ وہ اپنا ھاتھ خودچلا رھا ھے، دوسری طرف وہ حرکت اس آلہ کی طرف بھی منسوب ھے کیونکہ وہ اس آلہ کے ذریعہ اپنا ھاتھ چلانے پر قادر ھے۔“
قارئین کرام! یھی گذشتہ مثال مسئلہ ”جبر وتفویض“ کو اچھی طرح واضح کردیتی ھے کیونکہ ایک انسان حیات وقدرت کے عطا کرنے والے کا محتاج ھے جو ھر حال میں خدا کی طرف سے عطا ہوتی ھے لہٰذا ”تفویض“ بھی نھیں اوردوسری طرف انسان اپنے اعمال میں مجبوربھی نھیں ھے اور اس کے افعال بغیر اس کے ارادہ کے انجام نھیں پارھے ھیں لہٰذا ”جبر“ بھی نھیں ھے۔
لہٰذا مذکورہ مطلب کے پیش نظر ھم پر یہ بات واضح ہوجاتی ھے کہ انسان فعل وترک پر مکمل اختیار رکھتا ھے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نھیں رہتی۔
اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے یعنی انسان کے مختار ہونے کے سلسلہ میں کچھ دلائل پیش کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں ہوئے اعتراضات کے جوابات بھی پیش کرتے ھیں:

 
1۔ اختیاری اور اضطراری افعال میں فرق

ھم نے اس بات کی طرف پھلے بھی اشارہ کیا ھے کہ انسان کے وہ افعال جواس کے قصد وارادہ سے انجام پاتے ھیں اور ان افعال میں جو اس کے اراداہ کے بغیر انجام پاتے ھیں ان دونوں میں واضح فرق ھے مثلاً کسی کے ھاتھ میں رعشہ پیدا ہوجائے اور اس کا ھاتھ ھلتا رھے، تو یہ اس کے مرض کی وجہ سے ھے اور انسان اس کو روکنے پر قادر نھیں ھے کیونکہ اسکے اختیار اورطاقت سے باھر ھے اور کبھی اس کاکام اختیاری ہوتاھے اوروہ اپنے اختیارسے انجام دیتاھے۔
اسی طرح انسان دوسرے افعال میں بھی فرق محسوس کرتاھے کہ کچھ کام اس کے اختیار سے ہوتے ھیں اور کچھ کام بغیر اختیار کے۔
او رجب ھمارے تمام افعال (ایک گمان کے مطابق) خداوندعالم کی مخلوق ھیں اور ان میں ھمیں ذرہ برابر بھی اختیار نھیں ھے تو پھر اختیاری و اضطراری کاموں میں فرق کااحساس کیسے کرسکتے ھیں؟!
اس سلسلہ میں بعض متکلمین نے فلسفہ تراشی کی ھے اور دونوں (اختیاری واضطراری) میں فرق بیان کیا ھے، ان کا کہنا ھے کہ فعل اضطراری وہ افعال ھیں جو خدا کے ارادہ سے انجام پاتے ھیں انسان کی قدرت او ر اس کے ارادہ کا کوئی دخل نھیں ہوتا، او ر فعل اختیاری وہ ہوتے ھیں جن کو خداوندعالم انسان کے ارادہ کے ساتھ ساتھ ایجاد کرتا ھے۔ لیکن ان کا یہ قول بالکل واضح البطلان ھے۔
کیونکہ اگرقدرت سے مراد، مشہور لغوی معنی ہوںکہ” اگر چاھے انجام دے اورنہ چاھے تو انجام نہ دے“ تو یہ مذکورہ جبر کے معنی کے خلاف ھیں بلکہ یہ تو اختیار پر دلیل ھے اور اگر اس قدرت سے کوئی دوسرے معنی مراد ہوں، تو پھر یہ اکراہ کے خلاف نھیں ھے، اور اس کو کبھی بھی قدرت نھیں کھا جاسکتا۔
لیکن اگر ارادہ کے معنی مذکورہ فلسفی لحاظ سے لئے جائیں تواسکے معنی بھی اختیار کے ہوں گے۔ (جیسا کہ صحیح بھی ھے) کیونکہ قائل کے گمان کے مطابق یھاںپر اختیار ھے ھی نھیں۔ کیونکہ (دعوی کے مطابق) فعل انسان کے ارادے واختیارسے نھیں ھے، او ر اگر قائل کے نزدیک ارادہ کے معنی فعل کوانجام دینے میں رغبت مراد ہو تو یہ رغبت فعل کا ایجاد کرنانھیں ھے جیسا کہ ھماری عقل بھی یھی کہتی ھے، کیونکہ ایسے بہت سے کام ھیں جن میں انسان رغبت رکھتاھے لیکن صرف رغبت سے وہ کام نھیںہوپاتے، جبکہ رغبت عین فعل نھیں ھے (جیساکہ ھم پھلے کہہ چکے) تو پھراختیار واضطرار میں مذکورہ فرق لاحاصل ہوجاتاھے۔

 
2۔ اختیارکے سلسلہ میں قرآن مجید کی وضاحت

قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیات موجودھیں جو اختیار کو بہترین طریقہ سے ثابت کرتی ھیں، اور واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھےں کہ انسان اپنے افعال واعمال میں مکمل طور پر مختارھے اوراگر ھر فعل اس انسان کی طرف منسوب ھے جس میں کسی بھی طرح کی تاویل وتفسیرنھیں کی جاسکتی۔
ارشادخداوندی ہوتاھے:
4
”ھرشخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرو ھے“
5
”اور جو بھی برام کام کرے گا بھر حال اس کو سزا ملے گی“
6
”اگر تم لوگ اچھے کام کروگے تو اپنے فائدہ کے لئے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو(بھی) اپنے لئے۔“
7
”بس جو چاھے ایمان لائے اور جو چاھے کفر اختیار کرے“
8
”جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ھے وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ھے تو اسے (بھی) دیکھ لے گا“
9
”اور رھے ثمود تو ھم نے ان کو سیدھا رستہ دکھادیا مگر ان لوگوںنے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا“
10
”جو کچھ تم کرتے تھے تمھیں اس کی سزا دی جائے گی“
11
”ھم تم میں سے کسی کے عمل کو ضایع نھیں کرتے“
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ھیں جو تمام کی تمام اس بات کی واضح دلیل ھیں کہ فعل کی نسبت اس کے اختیار کی وجہ سے خود انسان کی طرف ھے، لیکن کوئی فعل خدا کی مشیت اور اس کے ارداہ کے بغیر انجام نھیں پاتا۔
لیکن بعض لوگوں نے اس نظریہ کو نھیں مانا اور کھا کہ خداوندعالم کا یہ قول:
12
”اللہ ھر چیز کا خالق ھے“
اس بات کی دلیل ھے کہ تمام افعالِ انسان، خدا کی مخلوق ھیں کیونکہ ”كُلِّ شَیٴٍ“ میں افعال انسان بھی آتے ھیں اور یہ افعال صرف انسان کی تخلیق نھیں ھیں، لہٰذا یہ ”جبر“ ھے۔
جبکہ حقیقت یہ ھے کہ یہ آیت انسان کے افعال واعمال کے سلسلہ میں نھیں ھے بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کی رد ھے جو متعدد خالق مانتے تھے مثلاً زمین کا خالق، افلاک کا خالق، انسانوں کا خالق وغیرہ وغیرہ، لہٰذا یہ آیت ان لوگوں کی ردّ میں نازل ہوئی ھے اور یہ کہتی ھے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نھیں ھے اور تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالیٰ ھی ھے۔
لفظ ”خالق“ کا خداوندعالم سے مخصوص ہونا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ھم اس کی خلقت کو تمام چیزوں میں عمومیت دیدیں یھاں تک انسان کے افعال بھی خدا کی مخلوق میں شمار ہونے لگےں، کیونکہ قرآن مجید میں تو خلق کی نسبت انسان کی طرف بھی دی گئی ھے جیسا کہ ارشاد الٰھی ہوتا ھے:
13
”اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے چڑیا کی مورت بناتے پھر اس پر (کچھ) دم کردیتے تو میرے حکم سے (سچ مچ) چڑیا بن جاتی۔“
14
”میں گندھی ہوئی مٹی سے ایک پرندہ کی مورت بناؤں گا پھر اس پر (کچھ) دم کرونگا تو وہ حکم خدا سے اڑنے لگے گا“
: 15
”تم ان کو گھڑتے ہو۔“
16
”(سبحان اللہ) خدا بابرکت ھے سب بنانے والوں سے بہتر ھے“
17
”اور خدا کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بہتر پیدا کرنےوالا ھے“
قارئین کرام! مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ انسان بھی خالق ھے لیکن خداوندعالم احسن الخالقین ھے۔ لیکن قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے یہ استدلال کرنا کہ افعالِ انسان، خداوندعالم کی ایجاد ھے:
18
” خدا تمھارا خالق ھے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو“19
کیونکہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ھے کہ جو کچھ انسان انجام دیتا ھے وہ خداوندعالم کی خلقت ھے تو نتیجہ باطل ھے کیونکہ یہ آیہٴ شریفہ پھلی آیت کا نتیجہ ھے ارشاد ہوتا ھے:
20
(جناب ابراھیم نے کھا کہ افسوس) تم اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم لوگ خود تراش کر بناتے ہو“
لہٰذا اس سوال کے جواب میں یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی:
21
اگر انسان ان دونوں آیات کوسامنے رکھے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ آیہ کریمہ ان لوگوں کی ردّ میں نازل ہوئی جو لکڑی اور پتھر سے بت بناکر ان کی عبادت کیاکرتے تھے اور ان سے قربت حاصل کرتے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاھر کردیا کہ ھم ھی نے ان مشرکین کو پیدا کیا ھے اور ان چیزوں کو پیدا کیا جن کے ذریعہ سے مشرکین بت بناتے ھیں۔
لہٰذا اس آیت میں بندوں کے افعال واعمال کے متعلق کوئی بات نھیں ھے۔

 
3۔ عذاب، خود اختیا رپر دلیل ھے

قارئین کرام! خداوندعالم کا گناہکاروں پر عذاب کرنا، انسان کے مختار ہونے پر بہترین دلیل ھے، اس سلسلہ میں قرآن مجید میںموجودہ آیات کو ملاحظہ فرمائیں:
22
”اگر (کھیں) شرک کیا تو یقیناً تمھارے سارے اعمال اکارت ہوجائیں گے اور ضرور تم گھاٹے میں آجاؤگے“
23
”اور برائی کرنے والوں کو اتنی ھی سزا دی جائے گی جیسے وہ اعمال کرتے رھے ھیں“
24
”جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ھاتھ اور پیر ان کی کارستانیوں کی گواھی دیں گے“
25
”اور جیسی جیسی تمھاری کرتوتیں تھیں (ان کے بدلے) اب ھمیشہ عذاب کے مزے چکھو“
26
”اور ظالموں سے کھا جائے گا کہ تم دنیا میں جو کچھ کرتے تھے اب اس کے مزے چکھو۔“
27
”جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ (مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے“
28
”اور جس نے ھمارے حکم سے انحراف کیا اسے ھم (قیامت میں) جہنم کے عذاب کا مزا چھکائیں گے“
کیونکہ اگر خداوندعالم اپنے بندوں کے افعال کا خالق ہو اور پھر ان کاموں پر ان کو عذاب میں بھی مبتلا کرے تو یہ محال ھے کیونکہ یہ تو کھلم کھلا ظلم ھے، (کہ افعال کو خود انجام دے اور سزا بندوں کو دے) اور خداوندعالم ھر ظلم سے پاک وپاکیزہ ھے:
29
”اور تمھارا پروردگا ر بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نھیں ھے“
30
” خدا تو کبھی بندوں پر ظلم کرنے والا نھیں“
31
”اور میں اپنے بندوں پر (ذرہ برابر بھی) ظلم کرنے والا نھیں ہوں“
32
”اور خدا سارے جھان کے لوگوں (میںسے کسی) پر ظلم کرنا نھیں چاہتا“
33
”اور خدا تو اپنے بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ھی نھیں“
34
”خدا تو ھر گز ذرہ برابر بھی ظلم نھیں کرتا“
35
”خدا تو ھر گز لوگوں پر کچھ ظلم نھیں کرتا“
36
”اور تیرا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر) ظلم نہ کرے گا“
(یہ تھیں وہ آیات جن میں خداوندعالم نے اپنے سے ظلم کی نفی کی ھے۔)
لیکن بعض علماء علم کلام نے خداوندعالم کی طرف ظلم کی نسبت کو صحیح مانا ھے، چنانچہ ان کے نظریہ کا خلاصہ یہ ھے:
”خداوندعالم کے لئے ظلم قبیح نھیں ھے کیونکہ وہ ظلم قبیح ھے جس کو عقل مکروہ جانے، یعنی وہ ظلم قبیح ھے جو دوسرے پر کیا جائے لیکن اگر اپنے پر ظلم کیا جائے چاھے وہ اپنے بدن پر ہو یا اپنے مال اور اپنی عزت پر، کیونکہ انسان اپنے مال میں تصرف کرنے میں آزاد ھے اور بغیر کسی قید وشرط کے تصرف کرسکتا ھے اور اس کا یہ تصرف کرنا قبیح نھیں ھے۔
اسی طرح خداوندعالم کو بھی اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کامکمل حق ھے کیونکہ وھی ان کا خالق اور مالک ھے اور چونکہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ھے وہ سب اللہ کی ملکیت ھے اور اس کی قدرت وسلطنت کے آگے خاضع ھیں، لہٰذا وہ جس طرح چاھے ان میں تصرف کرسکتا ھے، پس جس کو چاھے عذاب کرے چاھے وہ مومن ھی کیوں نہ ہو، اور جس کو چاھے اپنی نعمتوں سے سرفراز کرے چاھے وہ کافر ھی کیوں نہ ہو، کیونکہ تمام انسان اس کی ملکیت ھےں:
37
”جو کچھ وہ کرتا ھے اس کی پوچھ گچھ نھیں ہوسکتی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس ہوگی۔“
لہٰذا انسان کو یہ حق نھیں ھے کہ خدا کی عظمت کے سامنے اپنی قابلیت دھائے اور کھے کہ خداوندعالم کا یہ فعل حسن ھے اور یہ فعل قبیح۔
قارئین کرام! یہ اعتراض چند وجوھات سے مردود اور باطل ھے:

1۔ کیونکہ خداوندعالم کے بارے میں حکمِ عقل کے فرض کی گفتگو نھیں ھے بلکہ اس چیز کا بیان ھے جس سے بندوں کے معاملات میں فضل ولطف کی امید ہو، کیونکہ ھم اس بات کو مکمل طور پر قبول کرتے ھیں کہ محال پر تکلیف کرنا یا جس کام کے انجام دھی کی قدرت نہ ہو، اس کا حکم دینا یا گناہکار کوجنت میں داخل کرنا یا مطیع اور فرمانبردار کو جہنم میں داخل کرنا، ان تمام چیزوں پر خداوندعالم مکمل قدرت رکھتا ھے، اور ھر طریقہ کا تصرف کرسکتا ھے اور کوئی بھی حکم کرسکتا ھے، اور ھم یہ بھی یقین رکھتے ھیں کہ وہ اس طرح کے کام انجام نھیں دیتا لیکن اس کا ان کاموں کو انجام نہ دینا اس کے لطف وکرم کی وجہ سے ھے نہ یہ کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے سے قاصر اور عاجز ھے۔

2۔ اگر ھم ظلم کو قبیح نہ مانیں تو پھر انسان خداوندعالم کے احکامات کی پیروی نھیں کرے گا کیونکہ ان احکامات اور ان کے نتائج کے درست ہونے پر یقین نہ ہوگا، اور اسی طرح اس کو خدا کے وعدہ وفا کرنے پر بھی اطمینان نہ ہو گا۔
جبکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
38
”بے شک خدا اپنے وعدہ کے خلاف نھیں کرتا“
کیونکہ یہ سب کچھ اس اعتبار سے ھے کہ ظلم، کذب اور خلف وعدہ قبیح ھے، لیکن اگر مسئلہ قبح وقباحت کو ہٹالیا جائے جیسا بعض لوگوں کا گمان ھے تو پھر انسان، خدا کی اطاعت، خواہشات نفس کی مخالفت ہوا اور نفس امارہ سے جنگ پر اطمینان اور اعتماد نھیں کرے گا۔

3۔ ظلم کسی غیر پر تعدی کرنے سے مخصوص نھیں ھے بلکہ درمیانی راستہ سے افراط وتفریط کرنا بھی ظلم ھے، اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ فلاں شخص نے اپنے اوپر ظلم کیا، جبکہ اس سے مراد یہ ہوتی ھے کہ وہ شخص اپنے تصرف، لباس، طعام، اور خرچ میں راہ اعتدال سے خارج ہوگیا ھے، درحالیکہ یہ سب کچھ اس کی ملکیت میں ہوتے ھیں، اور وہ اپنے مال میں تصرف کرنے میں بھی مکمل آزاد ہوتا ھے لیکن مذکورہ طریقہ کو عرف عام میں ظلم شمار کیا جاتا ھے۔
مثلاً اگر کوئی انسان کسی حیوان کو مارے جبکہ وہ حیوان اس کی ملکیت بھی ہو، اور اس کا فرمانبردار، اور اس کو اذیت نہ دینے والا ہو تو کیا اس کو مارنے پر یہ عذر پیش کرسکتا ھے کہ میں تو اس کا مالک ہوں؟!

 
4۔ ظلم قبیح ھے۔

اگر انسان اپنے افعال کے انجام دینے پر قادر اور مختار نہ ہو، اور صرف اس کے ارادہ سے ایجاد ہوجائے تو پھر خداوندعالم (معاذ اللہ) ”اظلم الظالمین“ ہوجائےگا، کیونکہ گناہگار شخص کو عذاب دیا جانا ضروری ھے اور چونکہ معصیت انسان کے اپنے اختیار سے نھیں ھے، لہٰذا اس کو عذاب کرنا کئی گنا ظلم سے بھی بُرا ھے۔
قارئین کرام! ”جبر“ کا عقیدہ رکھنے والے اس سلسلہ میں دو جواب پیش کرتے ھیں:
عذاب کسی فعل کی بنا پر نھیں ھے بلکہ ”کسب “کی بنا پر ھے۔
لیکن ھم ان کے جواب میں کہتے ھیں کہ:
جو بات ”کسب“ کے لغوی معنی اور قرآن کریم میں استعمالات سے سمجھی جاتی ھے وہ یہ ھے کہ کسب اختیار کے ذریعہ انجام شدہ فعل کو کہتے ھیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ھے:
39
”اور جو شخص کوئی گناہ کرتا ھے تو اس سے کچھ اپنا ھی نقصان کرتا ھے“
40
”اس (انسان) نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا (وبال) اسی پر پڑے گا“
41
”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت تم ان کے کرتوت کی سزا میں ان کا (داہنا) ھاتھ کاٹ ڈالو“
42
”اور جن لوگوں نے برے کام کئے ھیں تو گناہ کی سزا ان کے برابر ھے “
43
”جو لوگ گناہ کرتے ھیں انھیں اپنے اعمال کا عنقریب ھی بدلا دیا جائے گا“
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ھیں جو تما م اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ ارادہ واختیار کے ذریعہ جو فعل انجام پائے اس کو ”کسب“ کہتے ھیں لیکن اختیار کی ایک شرط قدرتِ انسان ھے۔
لہٰذا ان کو جب خود اپنا دعویٰ ناقص دکھائی دیا تو انھوں نے یہ کھا کہ وہ کسب جو عذاب کا سبب بنتا ھے وہ ایسا فعل ھے جو خدا سے صادر ہوتا ھے لیکن انسان کے ارادہ کے ساتھ یعنی اس فعل کے وجود کے لئے انسان کا ارادہ اور خدا کا اس کام کوکردینا ضروری ھے۔
لیکن ھم اس کا جواب یوں دیتے ھیں:

1۔اگر یہ مقارن ہونا (ارادہ انسان اور فعل خدا کا ایک ساتھ ملنا) اختیار سے خارج ہو تو انسان پر عذاب کرنا صحیح نھیں ھے کیونکہ ان کے گمان کے مطابق انسان تو صرف اس فعل سے رغبت رکھتا تھا، لیکن اس فعل کو خداوندعالم نے ایجاد کیا (ان کے گمان کے مطابق)
پس در حقیقت رغبتِ انسان اور ایجاد خدا میں مقارنت پائی گئی، اور یہ مقارنت بھی خدا کے ارادہ اور اس کی قدرت کے ذریعہ پیدا ہوئی کیونکہ ان کے گمان کے مطابق وھی فاعل حقیقی ھے، تو پھر یہ کس طرح صحیح ہوگا کہ خداوندعالم اس بندہ پر عذاب کرے جس نے فعل ھی انجام نہ دیا ہو، یا اس مقارنت کی بنا پر جس پر اُسے ذرا بھی اختیار نھیں۔

2۔ خداوندعالم کا اپنے بندوں پر ظلم کرنا قبیح نھیں ھے کیونکہ یہ تو مالک کے تصرف کا ایک حصہ ھے اور وہ جو چاھے کرسکتا ھے، (ھم نے اس سلسلہ میں وضاحت کردی ھے) کیونکہ خود ذات افعال میں ایسی کوئی چیز نھیں ھے جس کی وجہ سے ان کو حسن یا قبیح کا نام دیا جائے، اور انسان کے کاموں کو حسن وقبیح کہنا شریعت کی بناپر ہوتے ھیں کیونکہ جس کام کا شریعت نے حکم دیدیا ھے وہ حسن ھے اور جن کاموں سے روک دیا ھے وہ قبیح ھیں، کیونکہ اگر شارع کی نظر بدل جائے اور جس کام کا امر کیا تھا اس کے بارے میں نھی کردے اور جس چیز کے بارے میں منع فرمایا تھا اس کا حکم دیدے تو پھر قبیح، حسن سے اور حسن، قبیح سے بدل جائے گا، یعنی جو چیز حسن تھی وہ قبیح ہوجائے گی اور جو قبیح تھی وہ حسن ہوجائے گی۔
اور چونکہ (ان کے گمان کے مطابق) فعل کا حُسن وقبح شریعت مقدس کی وجہ سے ھے نہ کہ حکمِ عقل کی بنا پر، تو پھر خداوندعالم کے فعل کو حسن وقبح کا نام نھیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ تو شریعت سے بھی بالاتر ھے، پس نتیجہ یہ ہوا کہ ھر وہ کام جو خدا انجام دے (چاھے ظلم پر ھی کیوں نہ منطبق ہو) وہ حسن وجمیل اور نیک ھے اور عقلِ انسانی یہ حکم کرنے سے قاصر ھے کہ خداوندعالم سے ظلم صادر ہونا قبیح ھے۔
قارئین کرام! صحیح نظریہ بیان کرنے سے پھلے ھم حسن و قبح کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

 
پھلے معنی

حسن وقبح کا اطلاق کمال ونقص پر ہوتا ھے، لہٰذا علم حسن ھے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وکرم حسن ھیں اور ان کے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ھیں، اور ان میں کسی بھی مفکر اور دانشمند نے کوئی اختلاف نھیں کیا ھے کیونکہ یہ ایسے یقینی مسائل ھیں جن کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ھے۔

 
دوسرے معنی

حسن اس کو کہتے ھیں جو طبیعت کو اچھا لگے، اور قبیح اس کو کہتے ھیں جس سے طبیعت نفرت کرے، مثلاً یہ منظر، حسن ھے، یہ آواز حسن ھے یا بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن ھے، اسی طرح یہ بھی کھا جاتا ھے کہ یہ منظر قبیح ھے یہ آواز قبیح ھے، اور اس معنی میں بھی کوئی اختلاف نھیں ھے، کیونکہ اس کا فیصلہ بھی خود انسانی شعور کرتا ھے اور اس میں شرع کا کوئی دخل نھیں ھے۔

 
تیسرے معنی

حسن وقبح کا اس چیز پر اطلاق کرنا جو مستحق مدح وذم ہو، لہٰذا اسی بناپر یہ دونوں اختیاری افعال کی صفت قرار پاتے ھیں، اس حیثیت سے کہ عقلاء کے نزدیک حسن کے فاعل کو مستحق مدح وثواب سمجھا جاتا ھے اور تمام ھی لوگوں کے نزدیک قبیح کے فاعل کو مستحق ذم وعذاب سمجھا جاتا ھے، اور یھی تیسرے معنی موضوع بحث ھیں۔
چنانچہ اشاعرہ کا عقیدہ ھے کہ افعال کے حُسن وقُبح پر عقل کوئی حکم نھیں کرتی، بلکہ حسن وہ ھے جس کو شریعت حسن قرار دے اور قبیح وہ جس کو شریعت مقدس قبیح قرار دے، اور ان چیزوں میں عقل کی کوئی دخالت نھیں ھے۔
لیکن شیعہ امامیہ اور معتزلہ مذکورہ نظریہ کو قبول نھیں کرتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ھے کہ عقل کی نظر میں خود افعال کی ارزش واھمیت ھے بغیر اس کے شریعت کا اس میں کوئی دخل ہو، اور انھی افعال میں سے بعض وہ افعال ھیں جو بذات خود حسن ھیں اور بعض بذات خود قبیح ھیں اور بعض ایسے افعال ھیں جن کو ان دونوں صفات میں سے کسی بھی صفت سے متصف نھیں کیا جاسکتا، شریعت مقدس انھی چیزوں کا حکم کرتی ھے جو حسن ہوتی ھیں اور ان چیزوں سے منع کرتی ھے جو قبیح ہوتی ھیں اور چونکہ صدق بذات خود حسن ھے اسی حسن کی وجہ سے خداوندعالم نے صدق کے لئے حکم کیا ھے اور جھوٹ چونکہ بذات خود قبیح ھے، اسی قبح کی وجہ سے خداوندعالم نے اس سے روکا ھے، نہ یہ کہ خدا نے منع کرنے کے بعد جھوٹ کو قبیح قرار دیا ہو۔
اس مطلب پر ھماری دلیل یہ ھے کہ جو لوگ دین اسلام کو نھیں مانتے اور مختلف نظریات کے حامل ھیں وہ بھی صدق کو حسن اور جھوٹ کو قبیح مانتے ھیںجبکہ ان کو شریعت نے حسن وقبح کی تعلیم نھیں دی ھے۔
لہٰذا ان تمام باتوں سے ثابت یہ ہواکہ حسن وقبح ذاتی دونوں شرعی ہونے سے پھلے عقلی ھیں، عدل حسن ھے کیونکہ عدل ھے اور ظلم قبیح کیونکہ وہ ظلم ھے، بغیر اس کے کہ ان کے حسن وقبح میں کوئی شرعی اور دینی حکم ہو۔ لہٰذا عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا عادل ہونا ضروری ھے کیونکہ عدل حسن ھے، اسی طرح عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا ظالم ہونا محال ھے کیونکہ ظلم قبیح ھے۔

 
خلاصہ بحث

عقلی اور قرآنی دلائل کے پیش نظر انسان اپنے فعل میں صاحب اختیار ھے اور اپنے تصرفات میں مکمل آزاد ھے اور کوئی جبر اکراہ نھیںھے، اور جو باتیں جبر کو ثابت کرنے کے لئے لوگوں نے بیان کی ھیں وہ ھماری بیان کردہ محکم نصوص ودلائل کے سامنے بے کار ھیں۔(لہٰذا نظریہ جبر باطل وبے بنیاد ھے)
خداوندعالم کا فرمان صادق اور سچا ھے:
ارشاد ہوتا ھے:
44
”(اور قسم ھے) جان کی جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرھیزگاری کو اسے سمجھادیا، (قسم ھے) جس نے اس جان کو(گناہ سے) پاک رکھا وہ تو کامیاب ہوا، اور جس نے گناہ کرکے اسے دبادیا، وہ نامراد رھا“
———-
1. سورہ توبہ آیت ۵۱۔
2. سورہ نساء آیت ۷۸۔
3. عیون اخبار الرضا(ع) تالیف شیخ صدوق، ج ۲ ص ۱۱۴، روضة الواعظین تالیف فتال نیشاپوری، ص۳۸، احجاج طبرسی، ص ۱۹۸، بحار ا لانوار ج ۷۵ ۳۵۴، (تحقیق مترجم)
4. سورہ طور آیت ۲۱۔
5. سورہ نساء آیت ۱۲۳۔
6. سورہ نساء آیت ۱۲۳۔
7. سورہ کہف آیت ۲۹۔
8. سورہ زلزلة آیت ۷، ۸۔
9. سورہ فصلت( حم سجدہ) آیت ۱۷۔ (۶) سورہ تحریم آیت ۷۔
10. سورہ آل عمران آیت ۱۹۵۔
11. سورہ زمر آیت ۲۶۔
12. سورہ مائدہ آیت ۱۱۰۔
13. سورہ آل عمران آیت ۴۹۔
14. vسورہ عنکبوت آیت ۱۷۔
15. سورہ مومنون آیت ۱۴۔
16. سورہ مومنون، آیت 14.
17. سورہ صافات آیت ۱۲۵۔
18. سورہ صافات آیت ۹۶۔
19. ترجمہ معترض کے لحا ظ سے ھے۔ مترجم)
20. سورہ صافات آیت ۹۵۔
21. سورہ صافات آیت ۹۶۔
22. سورہ زمر آیت ۶۵۔
23. سورہ قصص آیت ۸۴۔
24. سورہ نور آیت ۲۴۔
25. سورہ سجدہ آیت ۱۴۔
26. سورہ زمر آیت ۲۴۔
27. سورہ نور آیت۶۳۔
28. سورہ سبا آیت ۱۲۔
29. سورہ حم سجدہ آیت ۴۶۔
30. سورہ آل عمران آیت ۱۸۲۔
31. سورہ ق آیت ۲۹۔
32. سورہ آل عمران آیت ۱۰۸۔
33. سورہ غافر آیت ۳۱۔
34. سورہ نساء آیت ۴۰۔
35. سورہ یونس آیت ۴۴۔
36. سورہ کہف آیت ۴۹۔
37. سورہ انبیاء، آیت ۲۳ ۔
38. سورہ آل عمران آیت ۹۔
39. سورہ نساء آیت ۱۱۱۔
40. سورہ بقرہ آیت ۲۸۶۔
41. سورہ مائدہ آیت ۳۸۔
42. سورہ یونس آیت ۲۷۔
43. سورہ انعام آیت ۱۲۰۔
44. سورہ شمس آیت ۷ تا ۱۰۔

تبصرے
Loading...