توسّل اور اسکی اعتقادی جڑیں

توسل کا معنی انبیاء و آئمہ اور صالحین کو خداوند متعال کی بارگاہ میں واسطہ قرار دیناہے اسکی مشروعیت اور جواز کے بارے میں دو اعتبار سے بحث ہو سکتی ہے : 

١۔ قرآن کریم ٢۔ احادیث 

قرآن کریم سے چند ایک آیات کو توسل کی مشروعیت وجواز کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے . سورہ مائدہ میں پڑھتے ہیں : 

یا أیھاالذین آمنوا اتقوااللہ وابتغوا الیہ الوسیلة وجاھدوا فی سبیلہ (١)

ترجمہ :اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو . 

دوسری آیت سورہ مبارکہ نساء کی ہے جس میں یوں بیان کیا گیاہے : 

ولو أنّھم اذ ظلموا أنفسھم جاؤوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توّابا رحیما. (٢)

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے . 

تیسری آیت مبارکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندوں کے بارے میں ہے جب وہ اپنے عمل پر پشیمان ہوئے اوراپنے والد گرامی کے پاس پہنچے تاکہ وہ خدا وند متعال سے ان کی بخشش کی دعا کریں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی ان کی درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا : میں جلدپروردگارسے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا . اس مطلب کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا : 

قالوایا أبانا استغفرلنا ذنوبنا انّا کنّا خاطئین . قال سوف أستغفر لکم ربّی انّہ ھو الغفورالر حیم .(۳)

ترجمہ: ان لوگوں نے کہا بابا جان! اب آپ ہمارے گناہوں کے لیے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے . انھوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اورمہربان ہے .۔

١۔ سورہ مائدہ : ٣٥؛ 
٢۔سورہ نسا ء : 

۳:۔سورہ یوسف : ٩٧ اور ٩٨.

 

تبصرے
Loading...