اکمال دین، اتمام نعمت اور خدا پر بدگمانی -2

حدیث غدیر 110 صحابیوں سے منقولہ ایک متواتر حدیث کا نام ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکا ہے لیکن اس کی دلالت میں تأویل کرکے اس کے معنی و مقصود کی تحریف کی کوشش کی ہے۔…

تحریر: خلیل حسین حسینی

اکمال دین، اتمام نعمت اور خدا پر بدگمانی -2

اب سوال یہ ہے کہ:

* یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے لئے اللہ تعالی نے اپنے حبیب سے اس لہجے میں بات کی،

* یہ کیسی دوستی تھی کہ اگر آپ (ص) نے اس کا اعلان نہ کیا تو گویا آپ (ص) نے رسالت کی ذمہ داری نبھائی ہی نہیں!

* یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان کرتے ہوئے آپ (ص) کو تحفظات کا سامنا تھا؟

* یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان کرتے وقت اللہ تعالی کو فرمانا پڑا کہ “میں لوگوں سے آپ کی حفاظت کروں گا؟

٭ ان سوالات کا جواب نہ ملنے کی صورت میں کیا ہمیں اس سادہ سی بات کی طرف نہیں لوٹنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ (ص) پر جو کچھ نازل فرمایا تھا وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کا اعلان تھا؟

اب ایک بار پھر خدا اور اس کے رسول (ص) کے کلام کی تأویل کی طرف لوٹ آتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ:

چلئے مان لیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہی فرمایا ہوگا کہ “اے رسول (ص)! مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ میں جس کا دوست ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے دوست ہیں لیکن اس سے قبل معترضین و معارضین و مخالفین اور منکرین ولایت کو بعض بنیادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا؛

سوالات کچھ یوں ہیں:

1۔ سورہ مائدہ کی آیت 55 (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ …) مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں خداوند متعال نے فرمایا تھا کہ میں بھی تمہارا ولی ہوں اور رسول(ص) بھی تمہارے ولی ہیں اور وہ مؤمن کامل (علی (ع)) بھی تمہارے ولی ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکاة بھی دیتے ہیں… الله نے فرمایا میں تمہارا حاکم و سرپرست ہوں اور رسول (ص) بھی اور علی(ع) بھی تمہارے حاکم و سرپرست ہیں لیکن مخالفین نے کہا کہ نہیں “ولی” کا مطلب دوست ہے؛ چلئے ہم نے مان لیا کہ اس “ولی” کے معنی وہی ہیں جو تم کہتے ہو لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ دوستی کا یہ اعلان تو مدینہ میں ہوچکا تھا آیت 55 کے ضمن میں، پھر یہ غدیر کے مقام پر تھکے ماندے حاجیوں کو تین دن تک لق و دق صحرا میں بٹھا کر یہی اعلان دوباره کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

2- کیا دوستی اور اخوت و برادری کا اعلان 23 سالہ تبلیغ رسالت کے دوران دسیوں مرتبہ نہیں ہوا تھا؟ اگر نہیں ہوا تھا تو “انماالمؤمنون اخوة”، “محمد رسول اللہ والذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم”، اور “لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ” اور ان جیسی متعدد آیات قرآنی اور اسی مضمون پر مروی دسیوں حدیثوں کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟

3۔ اگر مان لیا جائے کہ آخری حج کے بعد رسول اللہ(ص) کی حیات طیبہ کے آخری اور حساس ایام میں مکہ سے مدینہ تشریف لاتے ہوئے آپ(ص) کو حکم ہوا کہ آپ (ص) امت مسلمہ کے ساتھ “علی کی دوستی” کا اعلان کر ہی دیں تو حجاج کو نہایت شدید گرمی میں روکنا کیوں پڑا! تین دن تک پڑاؤ ڈالنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ لوگوں کو دوستی کے اس معمولی سے اعلان کے لئے زحمت کیوں دینا پڑی؟ کیا رسول اللہ (ص) اونٹ کے پیٹھ سے ہی اللہ کی طرف سے اس مفروض دوستی کا اعلان نہیں کرسکتے تھے؟ کیا آپ (ص) غدیر خم سے گذر کر دور ہونے والوں کو واپس بلانے اور پیچھے رہنے والوں کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت دینے کی بجائے لوگوں سے نہیں فرما سکتے تھے کہ حاضرین سن لیں اور غائبین کو بھی ابلاغ کریں کہ “میں جس کا دوست ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے دوست ہیں؟!

4- غدیر خم ایک لق و دق صحرا کا نام ہے جہاں رہن سہن کی سہولیات نہیں تھیں اور کوئی عمارت نہ تھی اور کوئی سایہ بھی نہ تھا، منبر و محراب بھی نہ تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حکم دیا کہ “اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنائیں اور پھر لوگوں کو جتایا: کیا میں تم ہر روز لا الہ الااللہ اور محمد رسول اللہ(ص) ورد نہیں کرتے ہو؟ کیا تم مجھے اپنے نفسوں پر اپنے سے زیادہ حق کے قائل نہیں ہو؟ اور یہ کہ “میں تمہارے درمیان دو گرانقدر اشیاء چھوڑے جارہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت و اہل بیت(ع) ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے تو گمراہی سے بچ کر رہو گے اور جان لو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونے والے نہیں ہیں جب تک یہ حوض کوثر کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔ پھر علی(ع) کو بلایا اور اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اس قدر اونچا اٹھایا کہ راویوں نے کہا ہے کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی اور پھر فرمایا: من کنت مولاه فهذا علی مولاه؛.

یاد رہے کہ حدیث ثقلین بھی غدیر کے مقام پر زبان نبوی سے صادر ہوئی اور اس کے منابع و مآخذ اور غیر شیعہ کتب سے اس کے ثبوت دیکھنے کے لئے یہاں رجوع فرمائیں۔

اب اگر فرض کیا جائے کہ مولا سے مراد دوست ہے تو اتنے اہتمام کی اور اتنی زیادہ زحمت و مشقت کی ضرورت ہی کیا تھی؟

5۔ اگر اللہ کے حکم کا حکم امت سے علی (ع) کی دوستی کا اعلان کرانا تھا تو سخت لب و لہجے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو …

6۔ اگر ہدف دوستی کا اعلان تھا تو رسول اللہ (ص) نے بڑا خیمہ لگوا کر مسلمانوں سے علی(ع) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا فرمان کیوں جاری کیا؟ اور لوگوں سے کیوں فرمایا کہ “آؤ اور مجھے علی کی ولایت اور دین کے مکمل ہونے پر مبارک باد دو”؟ کیا مسلمانوں سے علی (ع) کی دوستی کے اعلان کے لئے علی(ع) کی بیعت کرنا اور رسول اکرم(ص) کو مبارک دینا عجیب نہیں ہے؟ اور یہ ولایت واقعی امامت و خلافت کے سوا کچھ اور ہوسکتی ہے؟

7. غدیر کی دن جب ولایت امیرالمؤمنین(ع) کا اعلان ہوا تو الله تعالی نے دین اسلام سے کفار کی ناامیدی، الله سے ڈرنے اور کفار سے نہ ڈرنے کا حکم دیتے ہوئے اور اکمال دین و اتمام نعمت اور ایک بار پھر دین اسلام کو ہمارے لئے پسند فرمانے کا اعلان کرتے ہوئے آیت بھیجی: “الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ ديناً (مائده – 3)” = آج کافر لوگ تمہارے دین کی طرف سے نااُمیدہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کوکامل کر دیااور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر ولایت سے مراد دوستی تھی تو:

یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے ساتھ ہی کفار دین اسلام کو نقصان پہنچانے سے ناامید ہوگئے؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان ہونے کے بعد خاص طور مسلمانوں کو صرف خدا سے ڈرنا اور کفار سے نہ ڈرنا چاہئے؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کے اعلان کے ساتھ ہی الله نے اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کیا؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کا اعلان ہوتے ہی الله نے مسلمانوں پر اپنی نعمتِ اسلام تمام کرنے کا اعلان کیا؟

یہ کیسی دوستی تھی جس کے بعد الله تعالی نے اسلام کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر اعلان کیا کہ “میں نے تمہارے لئے یہ اسلام ـ جو آج مکمل ہوگیا ہے ـ پسند کیا؟ جبکہ اس سے قبل بھی اللہ تعالی نے اعلان فرمایا تھا کہ “إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران – 19) = بلاشبہ حقیقی دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔

سوال نمبر 8 آخر میں ملاحظہ فرمائیں

اور ہاں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ اللہ کی آیات کی تأویل بالرائے حرام ہے اور باعث عذاب و عِقاب ہے اور اہل بیت(ص) قرآن کے قرین ہیں اور قرآن سے جدا ہونے والے نہیں ہیں چنانچہ آیات کے معانی و مفاہیم میں تبدیلی در حقیقت آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

میں نے یہاں بعض آیات نقل کی ہیں جو خدا اور رسول (ص) اور آیات الہی کا مذاق اڑانے اور مذاق اڑانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛ میں نے ان آیات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا صرف ان کا ترجمہ پیش کیا ہے پڑھ لیں اور عبرت لیں اور ساتھ ساتھ اپنی نجات کے بارے میں ضرور سوچیں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس کو دین سمجھ رہے ہیں وہ دین نہ ہو! یا ہم جن عقائد کو اسلامی عقائد سمجھ رہے ہیں وہ اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ رکھتے ہوں؛ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الله کی آیات کا مذاق اڑانے اور الله پر بدگمانی کرنے والوں میں شمار ہوجائیں!!

الله کی آیتون پر بدگمانی نه کرنا؛ شک نه کرنا؛ الله کی آیتوں کا مذاق مت اڑانا:

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

٭ وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ آيَاتِ اللہ هُزُوًا وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللہ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُواْ اللہ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (بقره 231)

اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بناؤ اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور اس نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے۔ اس کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے اور اللہ کے غضب سے بچو اور سمجھے رہو کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

٭ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُواْ اللہ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

٭ وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْقِلُونَ (مائده 57 و 58)

ترجمہ:

اے ایمان لانے والو ! اس جماعت میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب عطا ہوئی ہے، ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل سمجھ رکھا ہے اور کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ کے غضب سے بچو اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔

اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔

٭ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا۔ (کهف 56)

٭ اور ہم نہیں بھیجتے پیغمبروں کو سوا خوش خبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے کے اور جو کافر ہیں وہ غلط دلائل سے بحث کرتے ہیں تاکہ ان سے حق کو شکست دیں اور انہوں نے مذاق بنا لیا میری آیتوں کو اور جو انہیں ڈرایا گیا۔

٭ ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا۔ (کهف 106)

یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا تو ان کے اعمال اکارت گئے۔ اب ہم روز قیامت ان کا کوئی وزن نہ سمجھیں گے۔

“یہ ان کی سزا ہے دوزخ، اس وجہ سے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق اڑایا۔

٭ وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ۔ (انبیاء 36)

اور جب کافر لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ “کیا یہی وہ ہے جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟”اور ان کا عالم یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن کے ذکر سے منکر ہیں۔

٭ وَ إِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللہ رَسُولًا۔ (سوره فرقان 41)

اور جب وہ آپ کو دیکھیں گے تو بس آپ کا مذاق اڑائیں گے، کیا یہ وہ ہے جسے اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔

٭ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللہ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔

٭ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔ (لقمان 6 و 7)

اور انسانوں میں ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو تفریحی باتوں کا خریدار ہے تاکہ اللہ کے راستے سے بغیر واقفیت کے بھٹکائے اور اس کا مذاق اڑائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پیش ہوتی ہیں تو وہ منہ موڑتا ہے تکبر سے کام لیتا ہوا جیسے کہ اس نے سنا ہی نہیں جیسے کہ اس کے کانوں میں گرانی ہے تو اسے خوشخبری دو دو نا دو ن عذاب کی۔

٭ وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ۔

٭ يَسْمَعُ آيَاتِ اللہ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ۔

٭ وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔

جاثیه 7 و 8 و 9

وائے ہو ہر گنہگار جھوٹے کے لیے۔

جو سنتا ہے آیات الٰہی کو کہ وہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر سے کام لیتا ہوا ہٹ دھرمی کرتا ہے جیسے کہ انہیں اس نے سنا ہی نہیں تو اسے خوشخبری دیجئے دردناک عذاب کی۔

اور جب ہماری نشانیوں میں سے کسی کا اسے علم ہوتا ہے تو اسے مذاق کا ذریعہ بنا لیتا ہے یہ وہ ہیں کہ ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

٭ وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون۔

٭ وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوَاكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ۔

٭ ذَلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللہ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ۔ (جاثیه 33 تا 35)

اور ان کے سامنے آئیں برائیاں اس کی جو انہوں نے کیا تھا اور گھیر لیا انہیں اس نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

اور کہا گیا کہ آج ہم تمہیں بھلاوے میں ڈالتے ہیں جس طرح تم نے بھلایا تھا اپنے اس دن کے سامنے آنے کو اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور تمہارے کوئی مددگار نہیں ہیں۔

اس لیے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور تمہیں دنیوی زندگی نے فریب میں مبتلا کیا تو اب آج وہ یہاں سے نکل نہیں سکتے اور نہ ان سے رضاجوئی کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔

غدیر کا واقعہ ان آیات شریفہ کے نزول پر مکمل ہوا:

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ * لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ * مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ.

(المعارج – آیات 1 تا 3)

ترجمہ:

ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے * کافروں کے لئے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے * اللہ کی طرف سے جو بلندی کے زینوں کا مالک ہے۔

ان آیات کریمہ کی سبب نزول کا مطالعہ کرکے بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیات حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت و خلافت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔

مرحوم علامہ عبدالحسین امینی (رح) نے ان آیات کے نزول کے اسباب کو اہل سنت کے مشہور و معروف علماء کی کتب سے نقل کیا ہے۔ وہ اہل سنت کے ان ہی علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں: غدیر خم میں امیرالمؤمنین (ع) کی ولایت و خلافت بلافصل کا اعلان ہوا تو جابر بن نضر نامی شخص کو بهی یہ اعلان اچها نہ لگا اور اس نے رسول اللہ (ص) کے سامنے آکر گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: تو نے ہمیں توحید خداوندی اور اپنی رسالت اور نماز و روزہ و حج و زکاة قبول کرنے کی دعوت دی تو ہم نے یہ سب قبول کیا اور اب تو نے ہماری اتنی ساری اطاعت پر اکتفا نہ کیا اور اپنے چچازاد بهائی کو ہم پر برتری عطا کی اور کہا کہ “میں جس کا مولا ہوں علی بهی اس کے مولا ہیں”؛ بتا کہ یہ بات خود تیری طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے؟

رسول اکرم (ص) نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ سب اللہ ہی کی جانب سے ہے۔

جابر بن نضر رسول اللہ (ص) کا جواب سننے کے بعد اپنے سازو سامان کی طرف لوٹنے لگا اور جاتے ہوئے کہہ رہا تھا: “پروردگارا! اگر تیرے پیغمبر (ص) کی بات درست ہے تو آسمان سے ایک پتھر بھیج یا عذاب نازل فرما!

ابھی جابر بن نضر اپنے سازو سامان تک نہیں پہنچ پایا تھا کہ ایک پتھر آسمان سے نازل ہوکر اس کے سر کو لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہوکر مرگیا۔

(علامہ عبدالحسین امينى – کتاب “الغدير” – جلد1 ص 239 تا 246.

علامہ امینی نے ان تیس علماء کے حوالے کچھ یوں بیان کئے ہیں:

– الحافظ أبو عبيد الهروي- تفسير “غريب القرآن” ج 4 ص223۔

– أبو بكر النقاش الموصلي البغدادي المتوفى 351 – تفسير ” شفاء الصدور “۔

– أبو إسحاق الثعلبي النيسابوري المتوفى 427 / 37، تفسير”الكشف والبيان”۔

– الحاكم أبو القاسم الحسكاني – كتاب – “دعاة الهداة إلى أداء حق الموالاة”۔

– أبو بكر يحيى القرطبي المتوفى 567 – تفسير سورة المعارج۔

– شمس الدين أبو المظفر سبط ابن الجوزي الحنفي المتوفى 654، “التذكره” ص 19۔

– الشيخ إبراهيم بن عبد الله اليمني الوصابي الشافعي، كتاب – “الاكتفاء في فضل الأربعة الخلفاء” – حديث الثعلبي المذكور ص 240۔

– شيخ الاسلام الحمويني المتوفى 722۔ – ” فرايد السمطين ” باب الثالث عشر۔

– الشيخ محمد الزرندي الحنفي دو کتابیں “معارج الوصول ” اور ” ودرر السمطين “۔

– شهاب الدين أحمد دولت آبادي المتوفى 849، كتاب – “هداية السعداء” – “الجلوة الثانية من الهداية الثامنة”۔

– نور الدين ابن الصباغ المالكي المكي المتوفى 855۔ کتاب “الفصول المهمة” ص 26۔

– السيد نور الدين الحسني السمهودي الشافعي المتوفى 911 – کتاب “جواهر العقدين”۔

– أبو السعود العمادي المتوفى 982، – “تفسير العمادی” ج 8 ص 292۔

– شمس الدين الشربيني القاهري الشافعي المتوفى 977 – تفسير “السراج المنير” 4 ص 364۔

– السيد جمال الدين الشيرازي المتوفى 1000، – كتاب “الأربعين في مناقب أمير المؤمنين (ع)” – الحديث الثالث عشر۔

– الشيخ زيد الدين المناوي الشافعي المتوفى 1031 – كتاب “فيض القدیر في شرح الجامع الصغير” 6 ص 218 – شرح حديث الولاية۔

– السيد ابن العيدروس الحسيني اليمني المتوفى 1041 – كتاب “العقد النبوي والسر المصطفوي”۔

– الشيخ أحمد بن باكثير المكي الشافعي المتوفى 1047 – کتاب “وسيلة المآل في عد مناقب الآل”۔

– الشيخ عبد الرحمن الصفوري، – کتاب “النزهة” ج 2 ص 242 حديث القرطبي۔

– الشيخ برهان الدين علي الحلبي الشافعي المتوفى 1044 – کتاب “السيرة الحلبية” 3 ص 302۔

– السيد محمود بن محمد القادري المدني، – کتاب “الصراط السوي في مناقب النبي (ص)”۔

– شمس الدين الحفني الشافعي المتوفى 1181 – کتاب “شرح الجامع الصغير للسيوطي” 2 ص 387۔

– الشيخ محمد صدر العالم سبط الشيخ أبي الرضا – کتاب “معارج العلى في مناقب المرتضى (ع)”۔

– الشيخ محمد محبوب العالم – کتاب “تفسير شاهي”۔

– أبو عبد الله الزرقاني المالكي المتوفى 1122 – کتاب “شرح المواهب اللدنية” 7 ص 13۔

– الشيخ أحمد بن عبد القادر الحفظي الشافعي – کتاب “ذخيرة المآل في شرح عقد جواهر اللآل”۔

– السيد محمد بن إسماعيل اليماني المتوفى 1182 – کتاب “الروضة الندية في شرح التحفة العلوية”۔

– السيد مؤمن الشبلنجي الشافعي المدني “نور الأبصار في مناقب آل بيت النبي المختار (ص) ص 78۔

– الأستاذ الشيخ محمد عبدة المصري المتوفى 1323 – کتاب “تفسير المنار” ج 6 ص 464 عن الثعلبي۔ اس کے بعد انھوں نے اس باب میں ابن تیمیہ کے دعوے کی تردید کی ہے اور آپ بھی پڑھیں گے تو جدید دور کے امام المنکرین و التکفیریین اور وہابی و سلفی اسلام کے اصلی بانی “ابن تیمیہ” کے کلام کے بطلان سے واقف ہوجائیں گے۔

…….

سورةالمعارج کی پہلی آیات کی روشنی میں سوال نمبر 8 اور اس کے ضمنی سوالات یہاں ملاحظہ فرمائیں:

سورةالمعارج کی پہلی تین آیات کے سبب نزول کو مدنظر رکھ کر کچھ مزید سوالات اٹھتے ہیں جنہیں بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے:

– اگر من کنت مولاہ فهذا علی مولاه میں مولا سے مراد دوست ہے تو جابر بن نضر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ کیوں کہا کہ “تو نے اب اپنے چچا زاد بھائی کو ہم پر برتری دی؟” کیا دوست دوستوں پر برتری رکھتا ہے، یا پهر حاکم ہے جو محکومین پر برتری رکھتا ہے؟

– کیا یہ علی(ع) کی دوستی کا اعلان تھا جو جابر کو اتنا گراں گذرا تھا یا پھر ولایت و خلافت کا اعلان تھا جو کسی بھی منکر یا دشمن یا مخالف کو گراں گذرسکتا تھا اور گراں گذر سکتا ہے جیسے کہ اعلان بہت سوں گراں گذرا اور اس وقت بھی بہت سوں کو گراں گذر سکتا ہے۔

– کیا جابر بن نضر انکار ولایت میں تنہا تھا یا دوسرے بھی اس کے ساتھ اس انکار میں شریک تھے؟

– جابر بن نضر کو ولایت علی (ع) گراں گذری تو اس نے اللہ سے عذاب کی التجا کی اور اس پر عذاب نازل ہوا؛ کیا جن لوگوں نے ولایت علی (ع) کا عملاً انکار کیا اور بیعت کرکے توڑ دی کیا ان لوگوں کا اخروی مقام جابر بن نضر سے بہتر ہوگا؟

– اللہ کا عذاب بھی تو اس کی ایک آیت اور ایک نشانی ہے؛ کیا اس نشانی کو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہ کرنے والے اور ولایت کو جھٹلاکر اور اس کا درجہ ولایت و خلافت سے گھٹا کر دوستی میں بدلنے ـ اور دوستی کا اقرار کرکے دشمنی کرنے والے ـ اس عظیم آیت کو جھٹلانے والے شمار نہ کئے جائیں گے؟ اور پھر ولایت کو جھٹلانے والوں کا دامن پکڑ کر ولایت کے تاجدار کو مؤخر سمجھنا اور حتی کہ اس پورے واقعے کو جھٹلانا اور علی و آل علی (ع) کے دشمنوں سے دوستی کے پینگے بڑھانا اور اہل بیت (ع) اور ان کے دوستوں سے دشمنی کرنا، نقص ایمان کا سبب نہیں ہوگا؟

……..

اس مضمون کا آغاز آیت قرآنی سے ہوا تھا اور اس کا اختتام بھی قرآن کی نورانی آیات سے کرتے ہیں جہاں جھٹلانے والوں سے خدا کی ناامیدی کا اعلان ہوتا ہے:

ارشاد ربانی ہے:

“وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ” (العنكبوت – 18)

ترجمہ:

اور اگر تم جھٹلاؤ تو تمہارے پہلے بہت سی قوموں نے جھٹلایا اور نہیں ہے پیغمبر کے ذمے مگر کھلی ہوئی تبلیغ۔

والسلام

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ (یس – 17) – اور ہمارے ذمے نہیں ہے مگر صاف صاف پہنچادینا۔

 

تبصرے
Loading...