امامت کے وجوب پر ادلہ

1. قانون لطف ایک عقلی دلیل و برہان کہ جس کی بنا پر اکثر متکلمین نے وجوب امامت پر استدلال کیا قاعدہ لطف ہے شیخ طوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: لطف وہ عنایت ہے کہ انسان کو جو کام ضروری کرنا چاہیے ا سکے انجام دینے پر برانگیختہ کرتا ہے اور اسے اس کام میں مدد فراہم کرتا ہے اگر اس کی طرف سے انگیزہ اور مدد نہ ہو تو انسان وہ کام انجام نہیں دے سکتا ، اسی طرح ہو کام جو انسان کو نہیں کرنا چاہیے لطف اسے اس کام سے دور کرتا ہے لطف کے تین مراحل ہیں:
1: توفیق: کام کو انجام دینے کےلۓ ضروری وسا ل اور اسباب فراہم کرنا-
2: ارشاد و راہنمائ (راستہ دکھلانا)
3: عمل میں رہبری (مقصود تک پہنچانا) 1
علامہ حلی (رح) اس حوالے سے فرماتے ہیں:
امامت دین و دنیا کے امور میں ایک کلی الہی رہبری و حاکمیت ہے بعنوان نا ب پیغمبر بعض افراد کےلیے یہ واجب عقلی ہے کیونکہ امامت لطف ہے ،ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کےلیے ایسا کوئ شخص ہو جو انکی رہبری کا ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے اور انکی راہنمائ کرے دوسرے لوگ اس کی اطاعت کریں اور وہ مظلوم کے حق کو ظالم سے لے اور ظالم کو ظلم سے منع کرے تو لوگ صلاح وخیر کے نزدیک اور فساد سے دور ہوجا یں گے 2
لطف کی تعریف

یہ اللہ تعالی کی صفات فعلی میں سے ہے ایسا الہی فعل ہے کہ جن کی بنا پر لوگ اطاعت کے قریب اور معصیت سےدور ہوجاتے ہیں-

لطف کی اقسام اس کی دو قسمیں بیان ہوئ ہیں :
1. لطف محصل

اللہ تعالی کی طرف سے ایسے اسباب فراہم ہونا کہ جن پر انسان کی خلقت کا ہدف موقوف ہے اگر اللہ تعالی یہ اسباب و احکام فراہم نہ کرے تو انسانی خلقت لغو ہوجا یں مثلا احکام شرعیہ بھیجنا ٬دین کی تبلیغ اور حفاظت کےلیے انبیا کا بھیجنا
2. لطف مقرب

وہ امور الہی کہ جن کے ذریعے احکام تکلیفہ کا ہدف پورا ہو کیونکہ اگر اللہ تعالی یہ لطف نہ کرے تو بہت سے بندگان اطاعت و امتثال کےلیے تیار نہیں ہوتے مثلا نیک لوگوں کو جنت کا وعدہ ، برے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے ڈراوا اور امتحان لینے کےلیے لوگوں کو نعمات اور مصا ب دینا۔ ۔ ۔ اس قسم کا لطف انسان کو الہی احکام بجا لانے کے نزدیک کرتا ہے اور سرکشی سے دور کرتا ہے
نتیجہ

اگر لطف محصل نہ ہو تو تکالیف شرعیہ کےلیے انبیا کی بعثت ہی نہ ہوگی اگر لطف مقرب نہ ہو تو اگرچہ انبیاء و آ مہ کی صورت میں راہنما ہونگے احکام شرعیہ ہونگے لیکن عموما لوگ امتثال و اطاعت نہیں بجا لا یں گے
قانون لطف کی امامت پر دلالت

اکثر علماء علم کلام امامت کے مسألہ کو لطف مقرب کے مصادیق میں سے شمار کرتے ہیں اس طرح کہ اللہ تعالی نے بندوں پر کچھ تکالیف واجب کیں تاکہ وہ ان تکالیف کی پیروی و اطاعت میں کمال و سعادت تک پہنچ جا یں ، یہ غرض الہی بغیر امام معصوم کو
منصوب کرنے اور لوگوں کو جنت کا وعدہ اور جہنم کے ڈراوے کے پوری نہیں ہوسکتی پس خدا ے حکیم یقینا ان امور کو انجام دے گا تاکہ تکالیف شرعیہ کے حوالے سے نقض غرض لازم نہ آۓاکثر بزرگ علماء اہل کلام یہاں ایک مثال دیتے ہیں کہ جب بھی کوئ غذا تیار کرے اور اس کا م قصد یہ ہو کہ لوگوں کو دعوت دے اور وہ انہیں پیغام دعوت بھیجے اب وہ جانتا ہے کہ لوگوں کے پاس اس کے ایڈریس کےلیے نشانی اور راہنمائ موجود نہیں ہے نہ کوئ انکے پاس ایسا راہنمنا ہے کہ جو اس کی نشانی بتاۓ اور وہ بھی نشانی بتانے کےلیے کوئ راہنما نہ بھیجے تو یقینا دعوت والا کام عبث اور فضول ہوگا-
اس عہد امامت لطف مقرب کے مصادیق میں سے ہے اور امام کا مرتبہ پیغمبر کے مرتبہ
کے قریب ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر تکالیف شرعی کو لانے اوربیان کرنے کےلیے ہوتے ہیں جبکہ امام بعنوان نا ب پیغمبر ان تکالیف شرعیہ کے محافظ اور پاسدار ہوتے ہیں 3
بلاشبہ قوانین الھی کی حفاظت اور امام کے دیگر وظا ف سے انسان الہی اوامر کی پیروی کے قریب ہوجاتے ہیں اور سرکشی سے دور ہوجاتے ہیں اور جب بھی کسی معاشرہ کا ایسا رہبر ہو جو انکو ظلم سے روکے اور صلح وعدالت کے راستہ پر لیجاۓ تو ایسا معاشرہ صلاح وخیر کے نزدیک اور فساد سے دور ہوگا- 4
اب ایسا رہبر اگر اللہ تعالی کی طرف سے ہو اور معصوم بھی ہو تو پھر اس کے لطف ہونے میں کوئ شک نہیں رہے گا کیونکہ الھی اور معصوم امام یا رہبر کے منصوب ہونے سے نہ کوئ مفسدہ اور نہ کوئ مشکل پیش آتی ہے کہ اللہ اس مشکل کی بنا پر امام کو منصوب نہ کرے
2. دین کے متخصص و ماہر کی ضرورت

ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ آخری پیغمبر ہیں اور دین اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے تو اس وقت یہ مشکل سامنے آتی ہے کہ پیغمبر اسلام کو 23 سالہ زمانہ تبلیغ میں اتنی فرصت نہیں ملی کہ امت کی راہنمائ کےلیے تمام جزئیات اور تفصیلات بیان کریں اس کے علاوہ لوگ بھی اس زمانہ میں بہت سے معارف کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور بعض مسا ل اس دور کے لوگوں کےلیے ضروری بھی نہ تھے کہ انہیں یاد کریں اور اور دوسروں تک پہنچا یں
یہیں سے پیغمبر اسلامۖ کے بعد دین کے ماہر و متخصص کی بعنوان امام ضرورت پیش آتی ہے ایسا ماہر و متخصص کو جو تبلیغ میں پیغمبر کی مانند کبھی خطا و اشتباہ نہ کرے-
یہ ایسا مسلہ ہے کہ جسے تمام عقلا عالم قبول کرتے ہیں کہ ہر کام میں ماہر و متخصص کی ضرورت ہے اسی طرح ہر مکتب و مذہب کی پیچیدگیوں اور مسا ل کے حل کےلیے اس مذہب کے ماہر کی طرف رجوع ہو-اگر ماہرین و متخصص نہ ہوں یا ہوں لیکن امام نہ ہوں بلکہ مسا ل میں خطا کرنے والے ہوں تو یہ مذہب لوگوں کےلیے ناکافی ہوگا اور بالآخر یہ مذہب ختم ہو جاۓ گا یا مسخ ہوجا یگا آیت اللہ سبحانی امامت پر ادلہ کی بحث میں ایک برہان یوں پیش کرتے ہیں:
1. الھی آیات کی شرح و تفسیر اور انکے اسرار و رموز کو کشف کرنا
2. جدید پیش آنے والے مسا ل میں احکام شرعیہ بیان کرنا
3. شبھات کا جواب اور اہل کتاب کے سوالات کا جواب
4. دین کو تحریف سے محفوظ رکھنایہ چار اہم وظا ف ہے کہ جو پیغمبر اکرم ۖ اپنی پر برکت حیات میں انجام دیتے تھے تو پیغمبر اکرم ۜ کے بعد کون ان وظا ف کو انجام دے گا ؟ تین احتمال موجود ہیں:
الف) شارع اس مسلہ کی طرف توجہ نہ کرے اسے ایسے ہی چھوڑ دے یہ بات نا ممکن ہے
ب) شارع اس مسلہ کو امت کے سپرد کردے کہ وہ خود انجام دیں تو یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امت اسلامی کیسے کیسے حوادث اور مسا ل میں گرفتار ہوئ جس کے نتیجے میں لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا لہذا یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں ہے-
ج) اللہ تعالی یہ ذمہ داری پیغمبر اکرم(ص) کی مانند کسی شخص کے سپرد کرے جو انکی مانند معصوم ہو اور دین کی درست تشریح و تفسیر کرے-
پہلے دو احتمال باطل ہیں تیسرا احتمال عقلا عالم کے نزدیک درست ہے اور یہ وہی بات ہے کہ اللہ تعالی پیغمبر اکرم کے بعد بعنوان امام انکا جانشین منتخب کرے-
3. سیرت مسلمین

اسلامی متکلمین نے اپنی کلامی کتب میں یہ دلیل ذکر کی مثلا خواجہ نصیر الدین طوسی نے تلخیص المحصل میں ٬عضد الدین ایجی نے مواقف میں ٬سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصداور شرح عقا د نسفیہ میں اور شہرستانی نے نہایہ الاقدام میں ذکر کیا ہے کہ: سیرت مسلمین بالخصوص صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت میں مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ سب لوگ وجوب امامت کو ایک مسلم امر شمار کرتے تھے حتی کہ وہ لوگ جو سقیفہ میں بھی حاضر نہ تھے مثلا حضرت علی(ع) بھی اسلامی معاشرے کی ایک امام کی طرف احتیاج کے منکر نہ تھے-
4. شرعی حدود کا اجراء اور اسلامی نظام کی حفاظت

بلاشبہ شارع مقدس نے مسلمانوں سے چاہا ہے کہ اسلامی حدود کو اجراء کریں اور اسلامی مملکت کی سرحدوں کی دینی دشمنوں سے حفاظت کریں یہ چیز بغیر با صلاحیت اور مدبر رہبر و امام کے ممکن نہیں ہے یہ کہ واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے اس امام کا منصوب کرنا بھی واجب ہے عالم اہلسنت سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں اس دلیل کی طرف اشارہ کیا ہے 5
5. بڑے خطرات سے بچنا واجب ہے

ایک اور دلیل کے جسے اسلامی متکلمین مثلا علماء اہلسنت ٬فخر رازی٬ 6 اور سعد الدین تفتازانی 7 نے امامت کے وجوب پر پیش کیا ہے یہ ہے کہ امامت کی شکل میں امت اسلامی کو بہت بڑے اور عظیم سماجی فوا د حاصل ہیں کہ اگر ان فوا د کو نظر انداز کردیا جاۓ تو شخص اور معاشرہ بڑے خطرات اور نقصانات سے دوچار ہوجا یگا کہ ایسے خطرات سے بچنا شرعا و عقلا واجب ہے
ان پانچ عقلی ادلہ کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ و سنی تمام اسلامی متکلمین کے نزدیک امامت کا وجود اور وجوب مورد اتفاق ہے-
——————
1. تمہید الاصول ص۷۶۷
2. شرح باب حادی عشر ص ۸۳
3. انیس الموحدین ٬محمد مہدی نراقی باب امامت
4. کشف المراد، ص۳۶۲
5. شرح مقاصد ج۵ ص۲۳۶- ۲۳۷
6. تلخیص المحصل ص۴۰۷
7. شرح مقاصد ج۵ ص۲۳۷-

تبصرے
Loading...