امامت کے سلسلہ میں دو نظریئے

خلافت ،علمائے اہل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عہدہ و منصب ہے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے۔ جب کہ شیعی نقطہ ٴ نظر سے امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ہے اور وہ بہت سے حالات اور ذمہ داریوں میں پیغمبر (ص) کے برابر و یکساں ہے۔

خلافت ،علمائے اہل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عہدہ و منصب ہے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے۔ جب کہ شیعی نقطہ ٴ نظر سے امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ہے اور وہ بہت سے حالات اور ذمہ داریوں میں پیغمبر (ص) کے برابر و یکساں ہے۔

لہٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یہاں دو نظریئے پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اہل سنت کے علماء کا ہے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ہے :

الف۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ -:

علمائے اہل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سرپرستی ہے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفہ“ وہ شخص ہے جو پیغمبراکرم (ص)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ہر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ہے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں :

”الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا خلافۃ عن النبی (ص)“ (۱)

اہل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عہدہ و منصب ایک سماجی بخشش ہے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ہوئی ہے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ہوا ہے ۔ خلیفہ کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ہے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی :

اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ہاتھوں حل ہوتے ہیں مثلا پوری دنیا میں جہاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے جس کا عہدہ دار امام کو ہونا چاہئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی :

 امام و خلیفہ کو چاہئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ہے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نہیں ہے-

(نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ سہو وخطا سے معصوم ہونے کی ضرورت ہے)

دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی گناہ اور فساد سے پاک ہو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نہیں ہوتی اور کہیں نہ کہیں گوشہ و کنار میں ایسے شریر افراد ضرور نظر آتے ہیں جو جوا وشراب کی طرف ہاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکا ڈالتے ہیں اور ان پر قابض ہو جاتے ہیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رہتے ہیں۔

اس لئے پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ہے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰہی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔ یہ اور اسی طرح کے امور وہ ہیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ہیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ہے۔

مذکورہ امور کے مقابل کچھ دوسرے امور بھی ہیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ہیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ہے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ہر طرح کے باہری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ہو تو جہاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلا سکے۔

اب یہاں آپ یہ کہیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عہدہ کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اہل سنت کہیں گے کہ اصحاب پیغمبر (ص)جنھوں نے آنحضرت (ص) سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ہیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ہیں ۔

اگر امام کی ذمہ داری ان ہی امور کی دیکھ بھال میں منحصر ہو ،جنھیں ہم نے اہل سنت کی زبانی نقل کیا ہے ، تو ظاہر ہے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نہیں ہے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اہل سنت کی نظر میں رفتہ رفتہ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (ص)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رہبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ہے !وہ کہتا ہے :

”لا یخلع الامام بفسقہ و ظلمہ بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمۃ و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود“ (۲)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰہی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت پر ہے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ہدایت کریں!

اور ہمیں مزید تعجب نہ ہوگا اگر ہم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ ٴ پیغمبر (ص)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھیں،وہ لکھتے ہیں:

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یا امت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو۔ امام کی نافرمانی اور الٰہی احکام سے اس کی جہالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہو سکتی․ (۳)

خلیفہ ٴاسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجھ لیا ہے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ہو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔ خود اس کا گناہ سے آلودہ ہونا یا اس کی غلطیاں اس منصب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ہوا ہے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ :

مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ہے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ہیں ۔یہ نظریہ کہتا ہے کہ :امامت ایک طرح کی الٰہی ولایت ہے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ہے اور اس کا عہدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ہوتا ہے ۔

اس بنیاد پر امام رسالت ہی کا سلسلہ ہے فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والا ہے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگہبان ہے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (ص) کے برابر اور قدم بقدم ہے اور وہ تمام شرائط جو پیغمبر (ص) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ہیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطا و گناہ سے اس کا محفوظ ہونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ہیں۔

یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ہیں کہ: صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انہوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

صحیح ہے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (ص) کے زمانہ میں ہوئی ہے اور یہ احکام وحی الٰہی کے ذریعہ انھیں بتائے گئے ہیں۔لیکن مساعد حالات نہ ہونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ہے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے۔ (۴)

لیکن امام معصوم کیوں ہو؟تو جواب یہ ہے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ہیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پہلو رکھتی ہے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاہئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پہچاننے والا نہ ہو تو لوگوں پر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لہٰذا یہ نظریہ کہتا ہے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ہمہ جہت عصمت کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔

 

۱۔ شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/۴۷۲۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اہل سنت نے بیان کی ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان سے گریز کرتے ہیں۔

۲۔ التمہید ص/۱۸۶

۳۔ شرح مقاصد ،ج/۲،ص/۲۷۱

۴۔ چونکہ شیعہ علماء اہل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں لہذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں ”الامامۃ رئاسۃ عامۃ الٰھیۃ فی امور الدین و الدنیا و خلافۃ عن النبی (ص) “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰہی سرپرستی اور پیغمبر (ص)کے جانشینی ہے۔

 

کتاب کا نام
    

امت کی رہبری

مولف
    

آیۃ اللہ جعفر سبحانی

مترجم
    

سید احتشام عباس زیدی

 ناشر
    

مجمع جہانی اہل بیت (ع)

 پیشکش
    

مہدی (عج) مشن

 

تبصرے
Loading...