امامت و مہد ویت پر ایک طائرانہ نگاہ

قر آن مجید میں نسل آدم کے لئے دو اصطلاحین استعمال ہوئی ہیں ایک بشر کی اصطلاح اور دوسری انسان کی اصطلاح بشری طور پر اولاد آدم کا ہر فرد دیگر حیوانات کی طرح ہی حرکت کرتا ہے۔ سانس لیتا ہے۔خوراک ہضم کرتا ہے اور افزائش نسل کرتا ہے یعنی نوع اعتبار سے ایک بشر میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں البتہ حضرت بشر کو دیگر حیوانات سے جو چیز ممتاز اور جدا کرتی ہے وہ اس میں پائی جانے والے ارتقاءاور تنزل کی صلاحیت ہے ۔ علماءاخلاق کے نزدیک جو شے اس بشر کو ارتقا کی طرف لے جاتی ہے۔وہ انسانیت ہے اور جو شے اسے تنزل کی طرف دھکلتی ہے وہ مادیت ہے۔ 

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسل آدم میں جنم لینے والا کوئی بھی بچہ نہ ہی تو انسان ہوتا ہے اور نہ ہی جانور ۔اسے اپنے ماں باپ ۔ استاد اور ماحول اگر انسانیت کی طر ف مائل کریں تو وہ بشر سے ترقی کر کے انسان بنتا ہے۔ لیکن اگر اسے مادیت کی طر ف دھکیل دیں تو وہ تنزل کر کے اسفل سافلین بنتا ہے۔ 

متن: 

قر آن مجید میں نسل آدم کے لئے دو اصطلاحین استعمال ہوئی ہیں ایک بشر کی اصطلاح اور دوسری انسان کی اصطلاح بشری طور پر اولاد آدم کا ہر فرد دیگر حیوانات کی طرح ہی حرکت کرتا ہے۔ سانس لیتا ہے۔خوراک ہضم کرتا ہے اور افزائش نسل کرتا ہے یعنی نوع اعتبار سے ایک بشر میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں البتہ حضرت بشر کو دیگر حیوانات سے جو چیز ممتاز اور جدا کرتی ہے وہ اس میں پائی جانے والے ارتقاءاور تنزل کی صلاحیت ہے ۔ علماءاخلاق کے نزدیک جو شے اس بشر کو ارتقا کی طرف لے جاتی ہے۔وہ انسانیت ہے اور جو شے اسے تنزل کی طرف دھکلتی ہے وہ مادیت ہے۔ 

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسل آدم میں جنم لینے والا کوئی بھی بچہ نہ ہی تو انسان ہوتا ہے اور نہ ہی جانور ۔اسے اپنے ماں باپ ۔ استاد اور ماحول اگر انسانیت کی طر ف مائل کریں تو وہ بشر سے ترقی کر کے انسان بنتا ہے۔ لیکن اگر اسے مادیت کی طر ف دھکیل دیں تو وہ تنزل کر کے اسفل سافلین بنتا ہے۔ 

ابتدائی آفرینشن سے ہی بشر پر یہ دونوں قوتیں کام کر رہی ہیں۔ایک قوت بشر کو انسانیت کی طر ف کھینچ رہی ہے۔اور دوسری قوت بشر کو مادیت کی طر ف دھکیل رہی ہے۔بشر کو انسانیت کی طرف کھینچنے والی قوت کا مرکز ذات پروردگار ہے۔اور بشر کو مادیت کی طر ف دھکیلنے والی قوت کا مرکز ابلیس ملعون ہے۔ 

تاریخ بشریت میں جہا ں ہمیں مادیت کی طرف دھکیلنے والی بے شمار شخصیتوں کا پتہ ملتا ہے ۔وہیں ہمیں انسانیت کی طرف دعوت دینے والے انبیاءاور مرسلین کا سراغ بھی ملتا ہے۔یہ دونوں طر ف کے نمائندے ہمیشہ سے ہی اولاد آدم کی فلاح وبہبود کا نعرہ لگاہ کر ہی اپنی اپنی تبلیغات میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان دونوں کے پیغام دعوت میں نمایاں فرق ہے۔ تمام الہی نمائندوں نے عوام الناس کو خود پرستی کی بجائے خدا پرستی اور مادیت کی بجائے الہیات کی طرف دعوت دی ہے۔جب کہ تمام ابلیسی کارندوں نے لوگوں کو خدا پرستی کی بجائے ۔ اناپرستی اور الہیات کی بجائے مادیات کی طرف دعوت دی ہے۔ 

اسلامی تعلیمات و روایات کے مطابق الہیات کی طرف دعوت دینے والے رہنما اور ہادی ،رسول ،نبی یا امام کہلاتے ہیں۔ اور ان کا شجر فکر خدا وند متعال کی وحی اور الہام سے پروان چڑھتا ہے۔ جب کہ مادیت کی طرف دعوت دینے والے ابلیسی کارندوں کی فکر وہم وگمان اور شیطانی توہمات و وسواس سے نشو ونما پاتی ہے۔ 

جب ہم امامت کے بارے میں بات کریں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اگرچہ رسالت اور امامت دونوں کا مرکز اور محور ذات پروردگار ہے۔ لیکن رسالت کی تاریخ امامت سے کئی سو سال قدیم ہے۔امامت دراصل رسالت کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیازی خصوصیت کا نام ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد باری تعالی ہے ” اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے حضرت ابراہیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا کہ ہم تمھیں لوگوں کا امام بنا رہے ہیں۔“ 

حضرت ابراہیم کے عہد تک رسالت و نبوت چل رہی تھی۔پھر خدا نے انھیں امامت بھی عطا کی جس کے بعد نسل ابراہیم میں بھییہ دونوں عہدے یعنی نبوت و امامت چلنا شروع ہو گئے۔سلسلہ ہدایت صدی بہ صدی سفر کرتے ہوئے اور نسل در نسل آگے بڑھتے ہوئے جب حضوراکرم تک پہنچا تو اس وقت تک عالم بشریت الہی ہدایت کے حوالے سے چار چیزوں سے مانوس ہو چکا تھا۔ ۱۔ رسالت و نبوت ۲۔کتاب ۳۔ دین ۴۔ امامت 

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ان چاروں چیزوں کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے۔

نبوت و رسالت اور قرآن:

جب سلسلہ ہدایت حضور اکرم تک پہنچا تو قرآن مجید نے جہاں یہ اعلان کیا کہ ”وما ارسلنک الا کافتہ ًللناس“ٰ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ وہیں قرآن حکیم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ”ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین وکا ن ا للہ بکل شی ءعلیم“ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے بھی باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاءکے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔ مندرجہ بالا آیات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ پورے عالم بشریت کے آخری رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ کتاب اور قرآن مجید ۔ قرآن مجید سے پہلے جتنی بھی آسمان سے کتابیں نازل ہوئیں ۔ لوگ ان میں تحریف کر دیتے رہے چنانچہ جب کتاب قرآن مجید کی صورت میں حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوئی تو خداوند عالم نے قیامت تک قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری ان الفاظ میں اپنے ذمے لے لی ۔ ”انا نحن نزلنا الذکروانالہ لحافظون“ ہم نے نی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ قرآن مجید خدا کا آخری کلام ہے اور اس کے بعد قیامت تک آسمان سے کوئی اور کتاب نازل نہیں ہوگی۔اس بارے میں ارشاد پروردگار ہے۔”وتمت کلمتہ ربک صدقا وعدلا لامبدلا لکلماتہ و ھو السمیع العلیم“ اور آپ کے رب کا کلمہ قرآن صداقت و عدالت کے اعتبار سے بالکل مکمل ہے اس کا کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی۔مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید خدا کا مکمل کلام ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت خداوند عالم کی ذمہ داری ہے۔دین اور قرآن مجید۔ جب حضور اکرم پر دین کی تبلیغ کی ذمہ داری عائد ہوئی تو اس کے بعد قرآن مجید نے دین کے بارے میں دو اہم نطریے پیش کئے۔ اول یہ کہ ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم السلام دیناً“ آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور پنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں۔اور اس بات سے راضی ہو گیا کہ تمہارا دین اسلام ہو ۔قرآن مجید نے دین اسلام کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ دیا کہ ” ھوالذی ارسل رسولہ باالھدی و دین الحق لیطھرہ علی الدین کلہ ولوکرتہ المشرکون “ وہ وہی ہے جسنے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ تمام اور ادیان پر غلبہ حاصل کرئے اگرچہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ دین اسلام خدا کا آخری دین ہے اور اس دین کو خداوند عالم نے اس لیے بھیجا ہے تا کہ یہ دین دیگر تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرئے۔یہاں تک ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نبوت ورسالت ، کتاب اور دین یہ تینوں چیزیں حضور اکرم پر آکر تمام اور مکمل ہو گئیں لیکن امامت کے بارے میں قرآن مجید کا نظریہ ہم نے ابھی تک پیش نہیں کیا۔آئیں اب دیکھتے ہیں کہ امامت کے بارے میں قرآن مجید کیا ارشاد فرمات ہے۔امامت اور قرآن مجید۔۔ آغاز امت کے بارے میں قرآن مجید سورہ بقرہ آیت ۴۲۱ میں ارشا د فرماتا ہے کہ ” و اذابتلی ابراھیم ربہ بکلمت فاتمھن ۔ قال انی جاعلک للناس اماما۔ قال ومن ذریتی۔ قال لا ینال عھدی الظلمین۔ اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے زریعے ابراھیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام بنا رہے ہیں۔انھوں نے عرض کی کہ میری ذریت سے بھی؟ ارشاد ہو ا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔ 

مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک تو امامت کا آغاز حضرت ابراھیمؑ سے ہوا اورحضرت ابراھیم کی دعا سے امامت کا یہ سلسلہ نسل ابراھیم میں غیر ظالم معصوم ہستیوں کی بدولت آگے چلتا رہا۔دوسری یہ بات پتہ چلی کہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ محشور کیا جائے گا۔اب قیامت تک جتنی بھی نسل انسانی خلق ہوگی وہ اپنے اپنے دور کے امام کے ساتھ پیش ہوگی۔

اس طرح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبر اکرم پر آکر نبوت ورسالت ، کتاب اور دین تو تمام ہو گئے لیکن امامت کا سلسلہ قیامت تک کے لیے جاری و ساری ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا نے نبوت ورسالت ، کتاب اور دین کو مکمل کردیاہے تو پھر امامت کو قیامت تک جاری کیوں رکھاہے؟ مفسرین اسلام اور محقیقین نے اس سوال کا جواب کئی طریقوں سے دیا ہے۔یہاں پر ہم استدلال کے لئے دو آیات کو پیش کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ رسول اکرم پر آکر نبوت ورسالت اور کتاب و دین مکمل ہو گئے لیکن نبوت و رسالت اور کتاب ودین کی اصلی غرض انھیں مکمل کرنا نہیں تھا بلکہ اصلی غرض و غایت تو قرآن مجید کی روشنی میں کچھ اس طرح سے ہے۔” ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون “ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرے گرچہ یہ بات مشرکین کو ناگوار کیوں نہ لگے۔ہدایت کے جتنے بھی سلسلے ہیں انھیں اس لئے خدا نے جاری کیا ہے تاکہ زمین پر خدا کا نظام نافذ ہو اور دین اسلام دیگر ادیان پر غالب آئے۔ جب دین اسلام دیگر ادیان پر غالب آئے گا تواس کے نتئجے میں یقینا زمین پر اللہ کے نیک اور مخلص بندوں کی حکومت قائم ہوگی جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ” ولقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون “ توریت کے بعد زبور میں ہم نے یہ لکھا کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بند ے ہونگے۔ خدا نے انبیاءکرام کے ذریعے نبوت ورسالت اور کتاب و دین کو مکمل طور پر عروج بخشنے کے بعد امامت کواس لئے باقی رکھا تاکہ زمین دین اسلام دیگر ادیان کو مغلوب کرے اور نیک لوگ ایک الہی حکومت قائم کریں۔ اسلام کے دونوں بڑے فرقے شیعہ اور سنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس زمین پر مسلمانوں کے امام حضرت امام مہدی آخری زمانے میں قیام کریں گے جس سے دین اسلام دیگر تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور زمین پر نیک اور صالح لوگوں کے حکومت قائم ھو گی۔اس عقیدے کو شرعی اور کلامی اعتبارسے عقیدہ مہدویت کہا جاتا ہے۔ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر ادیان میںبھی یہ عقیدہ موجود ہے کہ اس دینا میں آخری زمانے میں ایک مصلح اعظم ظہور کرےگا جو ساری دینا پر نیکی کی حکومت قائم کرے گا او ر باطل کو نیست و نابود کر ےگا۔ ثبوت کے طور پر ہم یہاںدیگر ادیان کی کتابوںسے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔۱۔ وید۔ یہ ہندو مذہب کی اساسی کتاب ہے جسے ہندو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں۔ اس میں درج ہے کہ دنیا کی خرابی و بربادی کے بعد آخری زمانے میں ایک شخص ظہور کرے گا جو خلائق کا پیشوا ہوگااور اس کا نام منصور ہوگا۔۲۔ وشن جوگ۔ یہ بھی ہندوﺅں کی مذہبی کتا ب ہے ۔ اس میں درج ہے کہ ” بالاخر دنیا ایک ایسے شخص کی طرف پلٹے گی جو خدا کو دوست رکھتا ہوگا اور وہ خدا کے خاص بندوں میں سے ایک بندہ ہوگا۔۳۔ باسک۔ یہ بھی ہندوﺅ ں کی ہی ایک کتاب ہے اور اس میں درج ہے کہ دنیا کا اختتام ایک عادل بادشاہ پر ہوگا۔ وہ فرشتوں ، پریوں اور انسانوں کا رہبر ہوگا۔ حق و صداقت اس کے ہمراہ ہونگے۔۴۔ مزا میر داﺅد۔ زمانہ قدیم کی تورات اور اس سے متعلق کلتوبات کی کتابوں میں سے ایک کتاب مزا میر داﺅد ہے جس میں لکھا ہے کہ ” شرارتی لوگ ختم ہو جائیں گے لیکن خدا پر توکل کرنے والے بندے زمین کے وارث بن جائیں گے۔۵۔ انجیل لوقا۔ لوقا کی انجیل کی بارھویں فصل میں ہے کہ ” اپنی کمریں تیار اور اپنے چراغوں کی روشنی کو تیز رکھو اور ایک ایسے انسا ن کی طرح رہو جو اپنے مالک کا منتظر ہوتا ہے کہ جیسے ہی مالک آکر دروازہ کھٹکھٹائے تو وہ دروازے کو بے دریغ کھول دے۔۶۔ جاماسب نامہ۔ یہ زر تشتیوں کی کتاب ہے جس میں درج ہے کہ نازیو ں کے سرزمیں سے ایک شخص ظاہر ہوگا۔بڑے سر ، بڑی پنڈلیوں اور بڑے جسم والا انسان جو اپنے جد کے دین پر ایک بڑی فوج کے ساتھ آئے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم دیگر ادیان کی اساسی کتابوںکے مندرجہ بالا اقتباسات کو ملاحظہ کریں تو یہ بات خود بخو د پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ دیگر ادیان میں بھی آخری زمانے میں ایک مصلح اعظم کا عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگرچہ تمام مسلمان امام مہدی کے قیام کے قائل ہیں۔جیسا کہ سنی روایات میں اسی طرح درج ہے۔ ” حضور اکرم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت نہیں آئے گی جب تک میرے اہل بیت کا ایک مرد امور کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لے اور اس کا نام میر انام ہے۔“ ( مسنداحمد بن حنبل ج۱ ص۹۹) اور اسی طرح نمونے کے طور پر ایک شیعہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ” رسول اکرم نے فرمایا کہ قائمؑ میری اولاد میں سے ہے اس کا نام میرا نا م ہے۔ اکی کنیت میری کنیت ہے ۔ اس کے شمائل میرے شمائل اور اسکی سنت و روش میری سنت وروش ہے۔( اعلام الوری) لیکن شیعہ روایات سے یہ بات قطعی طورپر ثابت ہے کہ آج سے تقریبا ساڑھے بارہ سو سال (15شعبان سن255 ھ) پہلے عراق میں حضرت امام حسن عسکری کے ہاں حضرت امام مہدی کی ولادت ہو چکی ہے۔ شیعہ چونکہ امام کے منصوص من اللہ اور معصوم ہونے کے قائل ہیں۔اسلئے ان کے نزدیک حضرت امام مہدی بھی معصوم اور منصوص من اللہ ہیں۔جیسا کہ احمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کے جانشین کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا۔میرے سوال کرنے سے پہلے ہی امام نے فرمایا کہ اے احمد! خداوند عالم نے جس وقت حضرت آدم کو پیدا کیا اس وقت سے آج تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا اور قیامت تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ حجت خدا کی بدولت زمین والوں سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔بارش ہوتی ہے۔اور زمیں سے برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔میں نے عرض کیا اے فرزند رسول ! آپ کے بعد امام اور جانشین کون ہوگا؟فورا حضرت اندرون خانہ تشریف لے گئے اور جب باہر تشریف لائے تو آپ کے مبارک ہاتھوں پر ایک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو ا تین سالہ بچہ تھا۔آپ نے فرمایا اے احمد بن اسحاق اگر خداوند عالم اور اس کی حجتوں کے نزدیک تم محترم نہ ہوتے تو یہ بچہ تمہیں نہ دکھاتا۔ جان لو کہ یہ بچہ پیغمبر اکرم کے ہم نام ہے۔اس کی کنیت پیغمبر کی کنیت ہے اور یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اے احمد بن اسحاق یہ بچہ اس امت میں ”خضر“ اور ”ذوالقرنین“ کی طرح ہے۔ خدا کی قسم۔ یہ نگاہوں سے پوشیدہ ہو جا کی غیبت کے زمانے صعف وہی لوگ نجات پائیں گے جن کو خدا اس کی امامت پع ثابت قدم ر کھے گا اور انہیں اس بات کی توفیق دے گا کہ اس کے ظہور میںتعجیل کے لیے دعا کریں ۔میں نے عرض کیا میرے آقا ایسی کوئی نشانی ہے جس سے میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ھو؟اس موقع پر بچہ نے فصیح عربی میں کہا ”میں زمین میںوہ بقیة اللہ ہوں جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لوں گا ۔اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے اثرات کی فکر میں نہ رہو“(اکمال الدین ج۲ ص55 ،57)اہلسنت امام کے منصوص من اللہ ہونے اور معصوم ہونے کے قائل نہیں ہیں لہذا حضرت امام مہدی کی ولادت کے حوالے سے وہ شش و پنج کا شکار ہیں ۔ چونکہ یہ حدیث ان کے ہاں پائی جاتی ہے کہ ”حضور اکرم نے فرمایا یکون اثنا عشراًامیراًفقال کلمة لم اسمعہا فقال ابی انہ قال کلھم من قریش “ صحیح بخاری جلد ۹ میں جابر بن سمرہ سے عوایت کی گئی ہے کہ حضور نے فرمایا میرے بعد 12 خلیفہ ہو نگے ۔اور اس کے بعد کچھ فرمایا جو میں سن نہ سکا ۔میرے والد نے مجھے بتایا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ وہ سب قریش میں سے ہونگے ۔اسی طرح کی احادیث صحیح مسلم اور صحاح سة کی دیگر کتب میں بھی درج ہیں ۔لیکن ان بارہ خلفاءکی تشخیص اور تعین کے حوالےسے اہلسنت ،اہل تشیع کے بر خلا ف عقید ہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق خلیفہ کا درست انتخاب صرف اجماع امت اور شوری سے ہی ہوتا ہے ۔لیکن اس طریقہ کار کو انتخاب کرنے کے بعد وہ اپنی حدیث کی روشنی میں قریش میں سے بارہ 12 خلفاءجو نیک اور متدین ہوں پورے نہیں کر پاتے ۔ نتیجةًحضرت امام مہدی کی ولادت کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس رد عمل نہیں رکھتے ۔ان کا کہنا ہے کہ آپ آخری زمانے میں پیدا ہونگے اور بعض سنی علماءنے بعض کتابوں میں اس طرح سے لکھا ہے کہ آپ کے والد کا نام بھی عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہی ہو گا ۔جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ شیعہ امام کے منصوص من اللہ اور معصوم ہونے کے قائل ہیں لہذا شیعی روایات کے مطابق آپ پندرہ (15) شعبان 255 ھ میں حسن عسکری کے ہاں پیدا ہو چکے ہیں ۔چونکہ روایات و احادیث کی روشنی میں عباسی حلفاءاس بات سے آگاہ ہو چکے تھے۔کہ حضرت امام حسن عسکری کے صلب سے امام مہدی کی ولادت ہونی ہے ۔چنانچہ خدا نے حضرت موسی کی ولادت کی طعح حضرت امام مہدی کی ولادت کو بھی مخفی رکھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت وقت نے امام حسن عسکری کو اپنے پایہ تخت سامرہ میں مقید کر رکھا تھا تا کہ آپ کی کڑی نگرانی کی جا سکے۔جب 260ھ میں حضرت امام حسن عسکریؑ شہید کر دیئے گئے تو پھر 329ھ تک تقریباً 69 سال حضرت امام مہدی نے مشیت ایزدی کے تحت غیبت صغری اختیار کیئے رکھی ۔اگر آپ اس دوران غیبت اختیار نہ کرتے تو دیگر گیارہ اماموں کی طرح آپ کو بھی شہید کر دیا جاتا ۔غیبت صغری کا ایک اہم مقصد عوام الناس کو غیبت کبری کے لیے مشق کرانا تھا تا کہ لوگ ”امام مہدی “کی عدم موجودگی میں اپنے شرعی وظائفکو بطریق احسن ادا کر سکیں ۔غیبت صغری کے دوران آپ اپنے مخصوص نائبین جنہیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے ،ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے۔نواب اربعہ کی ترتیب حسب ذیل ہے ۔۱۔ابو عمر وعثمان بن سعید عمری ۔ ۲ ۔ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری۔۳۔ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی ۔۴۔ابو الحسن علی بن محمد سمری۔ آخری نائب ابو الحسن علی بن محمد سمری کی وفات ۹۲۳ھ میں ہوئی جنہیں امام مہدی نے کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔یوں ابوالحسن علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔ غیبت کبری کے دوران لوگوسن کی ہدایت و رہنمائی کے بارے میں شیخ طوسی، شیخ صدوق، اور شیخ طبرسی نے کتاب احتجاج میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ” زمانے کے مسائل کے بارے میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔وہ میری جانب سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں ۔اسی طرح کتاب احتجاج میں شیخ طبرسی نے امامسے یہ روایت بھی نقل کی ہے۔ کہ ہر وہ فقیہ جو اپنے نفس کا مراتب ہو۔اپنے دین کا محافظ اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اسکی تقلید کریں۔اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غیبت صغری میں تو امام کا ہر نائب مخصوص اور متعین ہوتا تھا ۔جبکہ غیبت کبری میں امام زمانہ نے علماءحقہ کو اپنی طرف سے عوام پر حجت قرار دیا ہے۔لہذا عصر حاضر میں حضرت امام مہدی سے مربوط رہنے کے لیے عوام کے لئے لازمی ہے کہ وہ علماءدین کے اجتہاد کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اعمال انجام دیں۔ 

جہاں تک امام کے ظہور کا تعلق ہے تو اس بارے میں علامات تو بتائی گئی ہیں جن میں سے کچھ حتمی ہیںاور کچھ غیر حتمی لیکن وقت کا تعین نہیں کیا گیا جیسا کہ ” فضیل کے دریافت کرنے پر امام باقر نے تین مرتبہ فرمایا ہے کذب الوقاتون یعنی وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(غیبت شیخ طوسی) اسی طرح اسحق بن یعقوب نے محمد بن عثمان کے ذریعے امام زماں کی خدمت میں ایک خط لکھ کر کچھ سوال پوچھے توا مام نے اپنے ظہور کے وقت کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا۔”واما ظہورالفرج فانہ الی اللہ تعالی ذکرہ و کذب الوقاتوں “جہاں تک ظہور کا تعلق ہے تو یہ خداوند عالم کے حکم پر منحصر ہے اور وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(کمال الدین ج2ص140) البتہ ظہور امام مہدی کے حوالے سے شیعہ او ر سنی روایات میں جو علامات ذکر کی گئی ہیں۔ان کا خلاصہ کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ اس دور میں دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی۔ فتنہ و فساد، لوٹ مار، فحاشی و عریانی اور ظلم و جور کا دور دورہ ہوگا۔

عصر حاضر میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کا فریضہ عقیدہ مہدویت تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے ۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہر قسم کی فرقہ بندی سے بلند ہوکر اپنے مشترکہ امام حضرت امام مہدی کے ظہور کے لیے جدو جہد اور کوشش کرنی چاہیے۔چونکہ ظہور امام ؑ کے دور میں شیطانی مکر اور طاغوتی شرزوروں پر ہوگا جس کی وجہ سے لوگ گمراہی اور فتہ فساد میں مبتلا ہو جائیں گے۔لہذا مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شیطانی قوتوں کے مقابلے میں دین اسلام کی تعلیمات کی نشرواشاعت کریںاور تبلیغ دین کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کریں۔تاکہ لوگ شیطانی شر سے ہلاک ہونے کی بجائے دین اسلام پر عمل کرکے نجات حاصل کرسکیں۔نتیجہ۔ ظہور امام مہدی علیہ السلام پر تمام مسلمان باالخصوص اور دیگر ادیان بالعموم عقیدہ رکھتے ہیں۔چونکہ اسلام آخری اور کامل دین ہے لہذا حضرت امام مہدیکی شخصیت ، اہداف اور اسلام کی حقانیت سے دیگر مذاہب اور عالم بشریت کو آگاہ کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ 

حوالہ جات:۔

 1) سورہ بقرہ 124 

2) سورہ سبا 28 

3) سورہ احزاب 40 

4) سورہ انعام 115 

5) سورہ مائدہ3 

6) سورہ صف 9 

7)سورہ اسراء71 

8) سورہ انبیاء105

تبصرے
Loading...