اسی لئے نظامِ تکوین اورقوانین دین کی تفسیر ھے۔

اسی لئے نظامِ تکوین اورقوانین دین کی تفسیرہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ> ھے۔ اس تعلیم و تربیت کے ساتھ خدا کے بندوں کے لئے ھر مسلمان کو رحمت کا پیام آور هونا چاھیے۔

خدا کے نام سے شروع کرنے کے بعد نماز گذار ہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ> کے جملے کی طرف متوجہ هوتا ھے کہ تمام تعریفیں خدا کے لئے ھیں، اس لئے کہ وہ رب العالمین ھے اور ھر کمال و جمال اسی کی تربیت کا مظھر ھے۔ یہ جملہ کہتے وقت اس کی ربوبیت کے آثار کو اپنے وجود اور کائنات میں دیکھنے کے بعد، آسمان، زمین، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان، تمام تعریفوں کوفقط اسی کی ذات سے منسوب کرتے ھیں۔ اور چونکہ پست ترین موجودات  سے لے کر کائنات کے اعلیٰ ترین وجود تک میں، خدا کی تربیت کے آثار اس کی عمومی و خصوصی رحمت کا ظهور ھیں، لہٰذا دوبارہ کو اپنی زبان پر جاری کرتا ھے۔

فضل و رحمتِ خدا میں مستغرق هوتے هوئے اس غرض سے کہ کھیں عدلِ خدا سے غافل نہ هو جائے کہتا ھے: اس لئے کہ معصیت، خدا کی ہتک حرمت ھے اور لامتناھی عظمت کی حرمت لامتناھی هوتی ھے اور لامتناھی کی ہتک حرمت کسی بھی ہتک حرمت کے ساتھ قابل قیاس نھیں ھے اور انسان کے بارے میں جس ھستی کے حق اور نعمتوں کا اندازہ نھیں لگایا جاسکتا، اس ھستی کی نافرمانی کی سزا بھی اس عمل کے تناسب سے هوگی۔

اور ھر گناہ میں صرف هونے والی قوت و قدرت اسی دنیا سے حاصل شدہ ھے، اس لئے کہ انسان کی زندگی اس دنیا سے وابستہ ھے۔ انسان جو گناہ انجام دیتا ھے وہ زمین و آسمان کی نعمتوں کے ساتھ خیانت ھے اور اسے حساب و کتاب اور روز جزاء درپیش ھیں، کہ خدا نے فرمایا ھے ھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ة یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اٴَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکَاریٰ وَ مَا ھُمْ بِسُکَاریٰ وَلٰکِنْ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ> [13]،اسی لئے پر توجہ عرفاء کو لرزہ بر اندام کر دیتی ھے، کہ امام العارفین حضرت زین العابدین(ع) جب اس جملے پر پھنچتے تھے تو اتنا دھراتے تھے کہ((کاد اٴن یموت))[14]

  اور نماز گذار کو خوف و رجا کے بال و پر عطا کرتے اور خدا کی رحمت و عزت سے آشنا کرتے ھیں۔ پھلے جملے میں انسان کی نظر مغفرت و ثواب اور دوسرے جملے میں سزا و عقاب پر هوتی ھے۔

اور اس وقت الوہّیت، ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، فضل اور عدل خدا کی عظمت اس کے دل کو تسخیر کر لیتی ھیں اور وہ صیغہٴ غائب سے خطاب کی طرف اس ادراک کے ساتھ متوجہ هوتا ھے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نھیں، لہٰذا کہتا ھے:ِٕیَّاکَ نَعْبُدُ> اور اس توجہ کے ساتھ کہ یہ عبادت بھی اسی کی ھدایت اور حول و قوت سے ھے، کہتا ھے: ِٕیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ>۔

میں دیکھتا ھے کہ عبادت عبد کی جانب سے ھے اور میں اسے نظر آتا ھے کہ مدد خدا کی جانب سے ھے کہ ((لاحول ولاقوة الّا باللّٰہ))

ِٕیَّاکَ نَعْبُدُ> میں نظریہٴ جبر اور ِٕیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ> میں نظریہٴ تفویض کی نفی ھے اور انھیں اس لئے صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا گیا ھے تا کہ خود کو مسلمانوں سے جدا نہ سمجھے اور ِٕیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْن> میں کلمہٴ توحید اور توحیدِ کلمہ، دونوں کو جامہٴ عمل پھناتا ھے۔

فریضہ عبودیت انجام دینے کے بعد عبد کی مولا سے دعا و درخواست کی باری ھے، لہٰذا کہتا ھے: ھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ>، انسانیت کی علوّھمت اور الوھیّت کے جلال و اکرام کا تقاضا یہ ھے کہ اس سے قیمتی ترین گوھر کی درخواست کی جائے اور وہ گوھر صراط مستقیم کی ھدایت ھے جو ھر طرح کی افراط و تفریط سے دور ھے اور راہ مستقیم متعدد نھیں ھیں۔ خدا ایک ھے اور اس کی راہ بھی ایک اور اس راستے کی ابتداء انسان کے نقطہ نقص سے هوتی ھے ہُ اٴَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اٴُمَّھَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْئاً> [15] اور کمالِ مطلق اس کی انتھا قرار پاتی ھے کہ ((ماذا وجد من فقدک، وماالذی فقدمن وجدک))[16] اور ِٕلیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَھیٰ> [17]

ھِمْ> راہ مستقیم ان کا راستہ ھے جن پر خداوندعالم نے اپنی نعمتیں نازل فرمائی ھیں ہَ وَالرَّسُوْلَ فَاٴُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اٴَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَ حَسُنَ اٴُوْلٰئِکَ رَفِیقْاً> [18]

مسلمان اپنے خدا سے انبیا، مرسلین، شھدا اور صدیقین کی صف میں شامل هونے کی دعا اور غضبِ الٰھی میں گرفتار و گمراہ لوگوں سے دوری کی درخواست کرتا ھے۔ اس دعا کا تقاضہ یہ ھے کہ انسان خود کو اخلاقِ انبیاء سے  آراستہ اور اھل غضب و اضلال کے رویّے سے اجتناب کرے اور ہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلیَ النُّوْرِ> [19] کا تقاضا یہ ھے کہ ذات قدوس جو [20] ھے کی طرف متوجہ رھے اور حقیقت ایمان سے منور دل کی آنکھوں سے اس کی عظمت کو جانے اور حکمِ [21] کو بجالاتے هوئے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور کھے ((سبحان ربی العظیم و بحمدہ))

رکوع سے سر اٹھائے اور سجدے کے ذریعے حاصل هونے والے مقام قرب کے لئے تیار هو اور حکمِ [22] کی اطاعت کرتے هوئے خاک پر سجدہ ریز هو جائے اور پیشانی خاک پر رکھ کر اس عنایت کو یاد کرے کہ اس ناچیز خاک سے خلق کرنے  کے با وجود اس کے دل کو چراغِ عقل سے روشن و منور فرمایا، خاک پر سر رکھنے سے ِٕنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِّنْ  طِیْنٍ> [23] پر نظر کرے اور کھے ((سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ)) اور سر اٹھاتے وقت ہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[24]

اور اپنی حیات دنیوی پر نظر ڈالے اور کھے ((اللّٰہ اٴکبر))۔ دوبارہ خاک پر گر کر اس دن کو یاد کرے جب اس کی منزل اس تاریک و اندھیری خا ک میں هوگی۔ زندگی کے بعد موت پر نظر کرے اور دوبارہ سر اٹھا کر موت کے بعد کی زندگی کو دیکھے اور دو سجدوں میں ہَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اٴُخْریٰ>[25]کے معنی کو سمجھے اور اپنے وجود کے مراحل کی معرفت کو طے کرے۔

جو کچھ بیان کیا گیا ھے وہ نماز میں موجود حکمت و ھدایت کے انوارِ خورشید میں سے ایک شعاع کی مانند ھے اور سورہ حمد کے بعد پڑھی جانے والی سورہ، اذکار، قیام، قعود، قنوت، تسبیحات اربعہ، تشھد، سلام اور آداب نماز کے اسرار کو اختصار کی غرض سے بیان نھیں کیا گیا ھے۔

یہ تھا اسلام میں عبادت کا نمونہ، اس کے مدمقابل عیسائیوں کی عبادت یہ ھے:”اور عبادت کرتے هوئے سابقہ امتوں کی طرح بے کار میں تکرار نہ کرو، چونکہ وہ گمان کرتے تھے کہ زیادہ کھنے کے سبب ان کی عبادت قبول هوگی، پس ان کی طرح نہ هونا، کیونکہ تمھارا باپ، اس سے پھلے کہ تم سوال کرو، تمھاری حاجات سے واقف ھے، پس تم اس طرح سے دعا مانگو: اے ھمارے پدر! کہ تیرا نام آسمان پر مقدس رھے۔ تیرا ملکوت آجائے، جس طرح تیرا ارادہ آسمان میں ھے زمین میں ویسے انجام پائے۔ ھمیں آج کے دن کافی هو جانے والی روٹی دے دے اور ھمارے قرضے معاف فرما دے جیسا کہ ھم بھی اپنے قرض داروں کو بخش دیتے ھیں۔ ھمیں امتحان میں نہ ڈال، بلکہ ھمیں شریر سے نجات دے، کیونکہ ملکوت، قوت و جلال ابدالآباد تک تیرے لئے ھے۔ آمین“[26]

 ھم اس عبادت میں بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

    ۱۔ ”اے ھمارے پدر!“ خدا پر باپ کا اطلاق یا حقیقی ھے یا مجازی، اگر حقیقی هو تو خدا کو تولید کی نسبت دینا، درحقیقت اس کے لئے مخلوق کی صفت ثابت کرنا اور خالق کو مخلوق تصور کرنا ھے اور اگر مجازی هو تو تشبیہ ھے اور خالق کی مخلوق سے تشبیہ، مخلوق کی صفت کو خالق کے لئے ثابت کرنا ھے۔ اور ایسی عبادت مخلوق کے لئے هوسکتی ھے، خالق کی نھیں، جبکہ اسلام میں عبادت، ایسے خداوندمتعال کی عبادت ھے جس کی معرفت سے عقول کو رھائی نھیں اور غیر سے تشبیہ دینے کی اجازت نھیں ھے۔

۲۔ ثناء پروردگار کے بعد ان کی خدا سے درخواست، اس دن کفایت کرنے والی روٹی ھے۔ عیسائی نماز میں پیٹ کی روٹی چاہتا ھے کہ جو انسان کے جسم کے لئے ایسے ھی ھے جیسے حیوان کے لئے گھاس۔ جب کہ مسلمان، صراط مستقیم کی ھدایت جیسی پسندیدہ راہ کی درخواست کرتا ھے، جو عقل کی آنکھ کا نور اور جس کا مقصد خدا ھے،کہ نہ تو ھدایت سے بڑھ کر،کہ جو کمال انسانیت ھے،کوئی قیمتی گوھر ھے۔ اور نہ ھی خداوند عز و جل سے بڑھ کر کوئی موجود ھے۔

۳۔”ھمارے قرض معاف فرما دے، جیسا کہ ھم اپنے قرض داروں کو بخش دیتے ھیں۔“ جھوٹ، خدا کی نافرمانی و معصیت ھے اور معصیت کے ساتھ عبادت کرنا ممکن نھیں، کیا عیسائی اپنے قرض داروں کا قرضہ معاف کرتے ھیں جو اپنے خدا سے اس طرح کہتے ھیں؟!

اختصار کے پیش نظر، بقیہ ادیان کی عبادتوں کے ساتھ مقایسے سے صرف نظر کرتے ھیں۔

تبصرے
Loading...