“ظہور صغری” کے نظریہ کا ردّ

خلاصہ: امام علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں “ظہور صغری” کے عنوان سے نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ آپ کا ظہور آہستہ آہستہ ہوگا، اس مقالہ میں اس نظریہ کا رد پیش کرنے کے لئے ان روایات کو بیان کیا گیا ہے جو بتاتی ہیں کہ ظہور اچانک اور دفعی طور پر واقع ہوگا، اور ان روایات کی تشریح بھی کی گئی ہے۔

"ظہور صغری" کے نظریہ کا ردّ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ائمہ طاہرین علیہم السلام سے جو نقل ہوا ہے اس کے مطابق، امام زمانہ (عج) کا ظہور اچانک (ناگہاں/یکبارگی)  ہوگا۔ حضرت ولی عصر (عج) شیخ مفید سے توقیع میں فرماتے ہیں:
“فإنَّ اَمرَنا یَبْعَثُه فَجْأَةً “[1]
(اللہ تعالی) ہمارے امر کو یکبارگی مبعوث کرے گا۔
دوسری حدیث میں حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے نقل فرمایا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے فرزندوں میں سے قیام کرنے والا کب ظہور کرے گا تو آنحضرت نے فرمایا:
“مَثَلُه مَثَلُ الساعَةِ التی لا یُجَلّیها لِوَقْتِها إلّا هو… لا یأتیکُم إلّا بَغْتَةً”[2]
ظہور قیامت کی طرح ہے کہ اسے اپنے خاص وقت میں صرف خداوند ظاہر کرے گا … وہ تمہارے لئے نہیں آئے گا مگر اچانک”۔
ان دو حدیثوں میں ” فَجْأَةً “اور ” بَغْتَةً” ایک واضح معنی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حضرت کا ظہور اس وقت واقع ہوگا جب ظاہری طور پر اس کے واقع ہونے کی امید نہیں ہوگی اور عموماً لوگوں کی اس کے لئے آمادگی اور امید نہیں ہوگی۔ اچانک ہونا تدریجی ہونے کے مدمقابل ہے۔ جو چیز تدریجاً واقع ہوتی ہے، پہلے اس کے اسباب و مقدمات فراہم ہوتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ اس کے واقع ہونے کے لئے حالات مزید تیار ہوجاتے ہیں اور لوگ رفتہ رفتہ اس کے واقع ہونے کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں، لیکن امام زمانہ (عج) کا ظہور اس طرح نہیں ہے، آنحضرت بغیر مقدمات کے ظہور کریں گے اور بہت ہی کم افراد کے علاوہ جو آپ کے ظہور کے منتظر ہیں، اکثر لوگوں کی صورتحال اور عمومی حالات اس طرح نہیں ہیں کہ ظہور کے وقوع کو قریب سمجھا جاسکے۔ یہ ہے حضرت ولی عصر (عج) کے ظہور کے اچانک واقع ہونے کے معنی۔
چونکہ ظہور کا وقوع اچانک ہے تو اگر اکثر لوگ اور لوگوں کے عادی حالات، فرج الہی سے غفلت اور ناامیدی میں گزر رہے ہوں تو کیا حقیقی مومن ظہور کی انتظار کو کھو بیٹھے گا؟ کیا ہمیں اجازت ہے کہ کسی حالت میں بھی اپنی نگاہوں سے غائب مولا کے ظہور سے ناامید ہوجائیں؟
لہذا ہم “ظہور صغری” جیسی چیز کے قائل نہیں ہوسکتے، جیسا کہ بعض نے تحریر کیا ہے کہ “متعدد روایات میں جو حضرت بقیۃ اللہ الاعظم علیہ السلام کی سورج سے تشبیہ کی گئی ہے، اس کا لازمہ یہ ہے کہ جیسے سورج کے غروب کے بعد روشنی ایک دو گھنٹوں تک باقی رہتی ہے اور اچانک اندھیرا نہیں ہوجاتا اور جو مفاسد اچانک اندھیرے ہونے سے پیش آسکتے ہیں، ان کو رونما نہیں ہونے دیتا، نیز طلوع کے وقت بھی اچانک روشنی نہیں ہوجاتی بلکہ ایک دو گھنٹے گزرنے سے آہستہ آہستہ اس کا نور ظاہر ہوتا ہے اور جو نقصانات اچانک روشنی ہونے سے پیدا ہوسکتے ہیں، ان کو رونما نہیں ہونے دیتا، اسی طرح حضرت امام زمانہ (عج) بھی جب لوگوں کی نظروں سے غائب ہونا چاہیں تو غیبت صغری ہونی چاہیے اور ایسا ہی ہوا اور نیز ظہور صغری بھی ہونا چاہیے جو ہمارا دعوی ہے۔ حضرت بقیۃ اللہ (عج) کی سورج سے تشبیہ کی گئی ہے، لہذا جتنی صفات سورج کے طلوع اور غروب میں پائی جاتی ہیں، ان سب کی آنحضرت سے نسبت دینی چاہیے”۔[3]
جواب یہ ہے کہ اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی، کیونکہ ہر تشبیہ میں، بولنے والا شخص شباہت میں سے ایک دو پہلووں کو مدنظر رکھتا ہے اور ہرگز مشبہ بہ کی تمام صفات مشبہ میں جاری نہیں ہوتیں۔ اگر شباہت کی ایک جہت یا کئی جہات کو بیان کیا گیا ہو تو واضح ہے، اور اگر تشبیہ کی جہت بیان نہ کی گئی ہو تو عموماً مشبہ بہ کی واضح صفات کو شباہت کی جہت سمجھا جاتا ہے، مثلا اگر شجاع آدمی کو عربی زبان میں شیر سے تشبیہ کیا جاتا ہے تو ہرگز شیر کی تمام صفات جو حیوانیت، درندگی وغیرہ ہیں، بولنے والے کا مقصود نہیں ہوتیں، بلکہ شباہت کی جہت وہی شجاعت کی صفت ہی ہے جو درندہ شیر میں واضح اور بڑی صفت ہے۔ اگر مشبہ بہ کی کسی دوسری صفت کو مشبہ میں جاری کرنا چاہیں جس کو تشبیہ میں بیان نہیں کیا گیا، تو اس کے لئے واضح قرینہ اور دلیل پیش کرنی پڑے گی۔
اب یہ جو امام (عج) کی سورج سے اور امام غائب کی بادل کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ کی گئی ہے، شباہت کی وہ جہات جو روایات میں بیان کی گئی ہیں، ان پر ہمیں گفتگو نہیں کرنی، لیکن اس کے علاوہ صرف ہم سورج کی واضح صفت جو وہی نور، گرمی اور حیات کا ماخذ ہونا ہے، امام (عج) سے نسبت دے سکتے ہیں اور دلیل اور یقینی قرینہ کے بغیر ہمیں کوئی اجازت نہیں کہ سورج کی دیگر صفات کو اپنی مرضی سے آنحضرت علیہ السلام کے لئے ثابت کریں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
“یَظْهَرُ کالشِّهابِ الثّاقِبِ فی اللَّیْله الظَّلْماء [4]
(امام زمانہ عج) آسمانی ٹوٹے ہوئے پتھر کی طرح اندھیری رات میں ظاہر ہوں گے۔
ثاقب عربی زبان میں سوراخ کرنے والے اور توڑنے والے کو کہا جاتا ہے۔ “شہاب ثاقب” اس آسمانی پتھر کو کہا جاتا ہے جو اچانک رات کے اندھیرے کو توڑ دے۔ اس کی واضح صفت یہی ہے کہ مکمل تاریکی میں جب اس میں کوئی روشنی نہیں ہے، اچانک روشن کردیتا ہے۔ بنابریں امام زمانہ (عج) کا ظہور بھی جسے شہاب ثاقب سے تشبیہ کیا گیا ہے، اسی طرح ہوگا۔ آنحضرت سراسر اندھیرے میں ظہور کریں گے اور اچانک ظاہر ہوں گے۔ یہ تشبیہ “ظہور صغری” جیسے نظریات کو باطل قرار دیتی ہے۔ اگر کوئی آدمی انتظار ظہور کا جذبہ پیدا کرنے کے مقصد سے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو ایسے بے بنیاد نظریات کے بجائے بہتر ہے کہ جو کچھ خود اہل بیت علیہم السلام نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا ہے، اس کی احسن طریقہ سے وضاحت اور تشریح کرے اور ایسی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جو دین کے صحیح مبانی سے ٹکراتی ہو، علاوہ بریں بالفرض “ظہور صغری” کے عنوان سے کچھ واقع ہو بھی جائے لیکن چونکہ حضرت مہدی (عج) کے وقت ظہور میں “بدا” کا امکان ہے تو ظہور صغری کے بعد مکمل ظہور ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے بدا حاصل ہوجائے اور مکمل ظہور واقع نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
سلوک منتظران، محمد بنی ہاشمی۔

[1]  احتجاج طبرسی، ج 2، ص 324.
[2] کمال الدین باب 35، ح 6.
[3] آیا ظهور نزدیک است، ص 135 و 136.
[4] بحارالأنوار، ج 24، ص 78.

تبصرے
Loading...