دینداری کے لئے تین معرفتوں کا حصول ضروری

خلاصہ: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے زمانۂ غیبت کے لئے تین معرفتوں کے لئے جو دعا کرنی چاہیے اس کی اپنے صحابی زرارہ کو تعلیم دی۔

۵۔ دینداری کے لئے تین معرفتوں کا حصول ضروری

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے صحابی زرارہ کو زمانۂ غیبت کے لئے اس دعا کی تعلیم دی: اللّهُمَّ عَرِّفنِي نَفسَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي نَفسَكَ لَم أعرِف نَبِيَّكَ، اللّهُمَّ عَرِّفنِي رَسولَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي رَسولَكَ لَم أعرِفْ حُجَّتَكَ، اللّهُمَّ عَرِّفنِي حُجَّتَكَ فَإنَّكَ إنْ لَم تُعَرِّفنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَن دِينِي”، “بارالہٰا، مجھے اپنی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہ دی تو میں تیرے نبیؐ کو نہیں پہچان سکوں گا، بارالہٰا مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت نہ دی تو میں تیری حجت کو نہیں پہچان سکوں گا، بارالہٰا مجھے اپنی حجت کی معرفت دے کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہ دی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا”۔ [الکافی، ج۱، ص۳۳۷، ح۵]

۱۔ مذکورہ بالا حدیث، اللہ کی معرفت سے شروع ہوتی ہے اور دین پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ لہذا اللہ کی معرفت کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا دین محفوظ رہے۔ دین کی حفاظت کے لئے تینوں معرفتوں کی ضرورت ہے، لہذا اگر تین میں سے ایک معرفت نہ ہو تو آدمی دین سے گمراہ ہوجائے گا۔
۲۔ دین کی حفاظت اور گمراہی سے بچ جانا براہ راست حجت کی معرفت سے وابستہ ہے، لہذا حجت کی معرفت اس قدر ضروری ہے کہ اگر نہ ہو تو انسان دین سے گمراہ ہوجائے گا۔
۳۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)سے روایت ہے: “الدّینُ یَعْصِمُ”، “دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے”۔ [غررالحکم، آمدی، ح۱]
۴۔ انسان اپنے لیے تحفظ اور امن و امان فراہم کرنے کے لئے کتنی محنت، کوشش اور انتظام کرتا ہے، لیکن اس بات سے غافل رہتا ہے کہ صرف دین کے ذریعے حقیقی تحفظ فراہم ہوسکتا ہے اور کیونکہ اللہ کے نزدیک دین، صرف دین اسلام ہے لہذا صرف دین اسلام کو تسلیم کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے ذریعے انسان کو دنیا و آخرت میں تحفظ ملتا ہے۔
اب اپنے دین کو کیسے محفوظ کرنا چاہیے؟ اللہ کی معرفت اور رسولؐ کی معرفت اور حجت کی معرفت کے ذریعے۔ بنابریں ان تین معرفتوں کو حاصل کرکے جب انسان دین اسلام کی طرف ہدایت یافتہ ہوجائے گا تو اسے دنیا و آخرت میں تحفظ ملے گا۔
* الکافی، شیخ کلینی، ج۱، ص۳۳۷، ح۵۔

تبصرے
Loading...