حقیقی منتظر اور عدالت و تقوی

بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ جیسے جیسے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا وقت ظہور قریب آتا جائے گا، آپ (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے منتظرین کی مشکلات اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جائے گا، ایسے موقع پر ایسے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوجائیں گے کہ حق و باطل میں تشخیص پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا ایسے موقع پر ہادیان اسلام نے ہمیں تقوی اور پرہیزگاری کی طرف دعوت دیتے ہوئے امام کے مقدمات ظہور کو فراہم کرنے کی تاکید کی ہے۔

حقیقی منتظر اور عدالت و تقوی

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انتظار کرنے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ایک سچا اور متدین انسان ہو. عدالت، تقوی اور پرہیزگاری کے زیور سے آراستہ ہو۔ حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا سچا اور واقعی دوست اور ماننے والا وہ شخص ہے جو آنجناب کے کردار و گفتار اور مکتب کو اپنے لئے عملی نمونہ قرار دے۔ مولا کا قیام نیز ان کی تمام روح فرسا زحمتیں، تمام کوششیں اور ہدایتیں آنجناب کے آباء و اجداد کی شہادتیں، نفوس کی تربیت اور واقعی دینداروں کی پرورش کی راہ میں ہوئی ہے۔ فطری طور پر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وہ انصار و اعوان جو اس اہم امور میں آنحضرت  کی مدد کرتے ہیں وہ اس اعتبار سے اپنے رہبر سے روحانی رابطہ رکھتے ہیں اور کردار کے لحاظ سے ہماہنگ ہیں۔ ان کے فرمان کے سامنے تسلیم محض ہونے کے لئے ان کی رکاب میں حاضر ہیں، فرمان خداوندی پر پوری طرح سے عامل (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ[1]) جیسا کہ تقوی و پرہیز گاری کا حق ہے اس طرح خدا سے ڈرو) ہیں۔
ان لوگوں کی واضح علامت جو حضرت حجت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی غیبت کے زمانے میں “انتظار” کے عادی ہوں گے کلام نبوی میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے۔ حضرت رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آخری زمانے کے منتظرین کے بلند مقام کی عظمت و شان بتاتے ہوئے صحابہ سے خطاب فرماتے ہیں: “لَأَحَدُهُمْ‏ أَشَدُّ بَقِيَّةً عَلَى دِينِهِ مِنْ خَرْطِ الْقَتَادِ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ أَوْ كَالْقَابِضِ عَلَى جَمْرِ الْغَضَا أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الدُّجَى‏...” ان کی مثال  ایسی ہوگی کہ ان میں سے ہر ایک تاریک راتوں میں خاردار درخت کی چھال کو خالی ہاتھوں سے تراش رہا ہو (صبر کرتا ہے) اپنی دینداری و پایداری کا ثبات قدمی سےمظاہرہ کر رہا ہو، یقینا وہ لوگ تاریک رات میں ہدایت کے چراغ ہیں۔[2]
اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عدالت کے درمیان ایک گہرا رابطہ ہے۔ اسلام کی نظر میں، اجتماعی سماجی عدالت کا سرچشمہ انفرادی عدالت پر موقوف ہے جس کی رعایت معاشرہ کی  ہر ایک فرد کے لئے ضروری ہے؛ یہ اس معنی میں ہے کہ ایک مجموعی مہرے کا توازن و تعادل اس کے کل پر تمام ہوتا ہے۔ عدل، ظلم کے مقابلہ ہے، جو ظالم ہو گا وہ عادل نہیں ہوگا اور جہاں پر “ارتکاب گناہ” کا اطلاق نفس کے ساتھ ظلم شمار کیا جاتا ہے۔ گناہ گار انسان ہر طرح کے اجتماعی ظلم کے لئے ذہنی آمادگی رکھتا ہے کیونکہ عام طور پر جو اپنے حقوق کا خیال نہیں کرتا وہ دوسروں کے حقوق کی بھی قدر نہیں جانتا اور اسے پامال کرتا رہتا ہے۔
اس لحاظ سے “انفرادی عدالت کے تحقق ” کا مرتبہ “اجتماعی عدالت کے نفاذ ” پر مقدم ہے؛ یعنی نفسی عدالت کا حصول” آفاقی عدالت” تک پہونچنے کا مقدمہ ہے۔
اس لحاظ سے اگر کوئی شخص گناہوں سے اجتناب اور تقوائے الہی کی رعایت کرکے اپنے اندر عدالت کا ملکہ پیدا کرلے اور اپنی نفسانی قوتوں کے درمیان تعادل بر قرار کر کے اخلاقی زندگی کے ارکان کو اپنے اندر راسخ کر لے تو پھر اس گھڑی عصر ظہور جو خالص اور مطلق عدل کے نفاذ  کا زمانہ ہے، خود کو توحید مہدوی کے جدید تمدن سے ہم آہنگ کرسکتا ہے؛ لیکن اس کے علاوہ کوئی فرد عدالت سے استوار، تہذیب و ثقافت کے جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
فطری طور پر ایسا شخص جدید شرائط اور جدید معیاروں سے ہم آہنگ نہیں ہوگا اور یہ تعارض و ٹکرائو آخر تک اس کو حیران کرتا رہے گا۔ اس طرح کے تاریخی نمونہ علوی حکومت کے نورانی دور میں بھی آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ حضرت علی  (علیہ السلام) اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے یہ بات جانتے تھے کہ کچھ بے تربیت، غیر مہذب نفوس جو ملکہ عدالت سے کوسوں دور ہوچکے ہیں وہ حضرت کی عدالت کو تحمل نہیں کرسکیں گے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلافت کرنے سے انکار کردیا یہاں تک کہ حضرت نے بھی ان پر حجت تمام کردی اور حکومت کے قائم ہونے کے بعد وہی ہوا جس کی مولا نے پہلے سے پیشین گوئی کی تھی؛ یعنی بہت سارے لوگ جو آپ کو حق پر جانتے تھے اور ان کے دل آپ کے ساتھ تھے مگراسکے باوجود آپ کے خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت کا سر محراب عبادت میں شگافتہ ہوگیا” قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ” آپ محراب عبادت میں اپنے شدت عدل کی بنا پر قتل کردئے گئے۔
ہاں، جو شخص بھی چاہتا ہے کہ اس کا شمار عدل امام کے حقیقی منتظرین میں ہو تو اسے چاہئے تقوی و پرہیز گاری اختیار کرے[3] اور پوری طرح سےمکارم اخلاق سے آراستہ ہو، [4] اور حقیقی معنی میں مکتب انسانیت سے اپنا رابطہ بر قرار رکھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
  [1]  آل عمران/۱۰۲۔
  [2] بحار الأنوار،ج ۵۲، ص ۱24، مجلسى،محمد باقر بن محمد تقى‏، محقق / مصحح: جمعى از محققان‏،ناشر دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏ 1403 ق‏
  [3]  کافی، ج 1، ص 335، كلينى، محمد بن يعقوب‏محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق (إِنَ‏ لِصَاحِبِ‏ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً الْمُتَمَسِّكُ فِيهَا بِدِينِه)
  [4]  غیبت نعمانی، ص 200، ح 16، ابن أبي زينب، محمد بن ابراهيم‏محقق / مصحح: غفارى، على اكبر، . نشر صدوق‏، تهران ‏1397 ق (مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يَكُونَ‏ مِنْ‏ أَصْحَابِ‏ الْقَائِمِ‏ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِر)

تبصرے
Loading...