حقیقی منتظر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر

امر المعروف اور نہی عن المنکر فروعات دین میں سے ایک واجب رکن ہے اس کی اہمیت کے لئے اتنا کہنا کافی ہوگا کہ بہت سی روایات اس پر شاہد ہیں کہ اگر جس سماج سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا رواج ختم ہو جائے وہ سماج تنزلی کی انتہا پر پہنچ جاتی ہے یہ اصل امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ شریف) کے دور حکومت یا اس سے پہلے کے دور سے مستثنی نہیں ہے۔اس مختصر مقالہ میں اسی واجب رکن اور منتظر حقیقی کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حقیقی منتظر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر

شریعت مقدس اسلام میں ظلم و فساد سے مبارزہ کرنے سے متعلق کثرت سے تاکید ہوئی ہے یعنی ہر طرح کے اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی فساد سے جنگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شارع مقدس نے اس حکیمانہ احساس کو قانون گذاری کے قالب میں”امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔ امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر اسلامی فقہ کے اعتبار سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری ہے اس فریضہ کی بلاواسطہ انجام دہی کا نتیجہ “اصلاح” اور اسکے اجرا کرنے والے کو “مصلح”کہتے ہیں۔
اسلام میں اس اصل کی اہمیت کو درک کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایک آیت اور اہل بیت عصمت و طہارت کی دو احادیث پر اکتفاء کر رہے ہیں۔
خداوند سبحان فرماتا ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتابِ لَكانَ خَيْراً لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثَرُهُمُ الْفاسِقُونَ “ تم لوگ بہترین امت ہو جو انسانوں کے لئے ظاہر ہوئے ہو کیونکہ تم لوگ امر بالعروف اور نہی عن المنکر کرتے اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔۔”[1]
اسی طرح حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام ) فرماتے ہیں:”إِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ سَبِيلُ‏ الْأَنْبِيَاءِ وَ مِنْهَاجُ الصُّلَحَاءِ فَرِيضَةٌ عَظِيمَةٌ بِهَا تُقَامُ الْفَرَائِضُ وَ تَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْأَرْضُ وَ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ يَسْتَقِيمُ الْأَمْر“….”بے شک امر بالمعروف و نہی المنکر انبیاء کا طریقہ اور صالح افراد کا طرہ امتیاز رہا ہے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک اہم اور بڑی ذمہ داری ہے کہ جس کی وجہ سے در آمد حلال اور جائز ہوتی ہیں ۔ مظالم کی روک تھام ہوتی ہے اور زمین آباد ہوتی ہے اور دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور جملہ امور کی راہ ہموار ہوتی ہے۔[2]
حکام اور حکومتوں کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ایک مسلمان انسان کا سب سے قیمتی اقدام شمار کیا گیا ہے۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :” إِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ‏ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِر”سب سے بہترین جہاد ظالم و جابر امام کے سامنے حق بات کہنا ہے۔[3]
امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” إِنَ‏ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ‏ وَ النَّهْيَ‏ عَنِ‏ الْمُنْكَرِ لَا يُقَرِّبَانِ‏ مِنْ أَجَلٍ وَ لَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ وَ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِر” امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ تو موت کو نزدیک کرتا ہے اور نہ ہی رزق میں کمی لاتا ہے اور اس سے بہتر یہ ہے کہ ظالم و جابر امام کے سامنے حق بات کہے۔[4]
زمانہ غیبت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوخصوصیت ہے:
الف: انفرادی سطح پر ہر انقلاب کے کے کامیاب ہونے کے بعد اس کی پہلی اور اساسی ضرورت ایک آزمودہ اور قابل اعتماد انسانی طاقت کی ہے۔
اسی لحاظ سے سیاسی پارٹیاں، احزاب و گروہ انجمن سازی کے مسئلہ کو کافی اہمیت دیتی ہیں لہذا عظیم عالمی مصلح کا انقلاب بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہے ایک ایسے انقلاب کی رہبری کے لئے جو چند بر اعظم میں وسیع پیمانہ پر ادارہ کرسکے اور جدید تمدن کو استوار کرے ایک غیر معمولی انسانی طاقت کی ضرورت ہے جس پر سب لوگ اعتماد کریں تاکہ عصر غیبت میں اس کے ظہور سے پہلے اس کا انتظار کرنے والے اپنے اندر بنیادی انقلاب اور تبدیلی پیدا کرلیں۔
حکومت مہدی کی انقلابی تحریک کا ایک اصلی امتیاز، پارسائی، تزکیہ باطن، مکارم اخلاقی سے آراستگی وغیرہ ہے۔ یقینا اگر کوئی ایسا معاشرہ نہ ہو جو خیر و نیکی کی دعوت دینے والا ہو یا شر و برائی سے روکنے والا ہو تو مہذب و آراستہ نفوس کے رشد و ارتقاء کے لئے  مناسب حالات فراہم نہیں کرسکیں گے؛ بالخصوص اگر یہ فیصلہ نہ کیا جائے کہ معنوی استعداد اور صلاحیت تنگ قالب میں محصور ہو۔
لہذا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہر ایک فرد کے لئے عالمی اصلاح کرنے والی حکومت کے ارکان اور عمال کی تربیت کے لئے اساسی ضرورت ہے ایسی حکومت جس میں فوج اور لشکر کے لئے بہترین کمانڈروں اور ملک کے لئےسربرآوردہ افراد درکار ہیں اور دوسرے مرحلہ میں اس عظیم گروہ کے درمیان مدیروں اور کمانڈروں کی احتیاج ہے۔
ب:حکومتی سطح پر عالمی مصلح کا انتظار کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے لئے بڑے سے بڑے چیلنجوں کا واقعی مقابلہ کریں جہاں یہ ہو کہ “الناس علی دین ملوکھم” اگر چہ آج کل بادشاہی سلطنت دھیرے دھیرے کلی طور پر دنیا کے ساسی میدان سے خارج ہوچکی ہے لیکن اس کا مفہوم اب تک صادق ہے؛ کیونکہ حکومت کے تبلیغاتی مراکز اور خبر رساں ایجنسیاں پہلے سے کچھ زیادہ ہی منکرات کے قانونی مراکز کی طرف سے جو چیزں شائع ہیں وہ تخریب کرنے کے اعتبار سے  کچھ زیادہ ہی موثر ثابت ہوتی ہیں۔
دوسری طرف منجی موعود کا سب سے بنیادی اور اساسی پیغام ، ظلم و بربریت کا جڑ سے خاتمہ اور حق تلقی اور حق کشی کو پوری طرح سے اکھاڑ پھینکنا ہے یعنی ان لوگوں کی غیر الہی حکومت جو دولت اور طاقت کے سہارے حاصل ہوئی ہے، مہدی موعود آئے گا اور آکر تیغ ابراہیمی سے دنیا پر قبضہ جمانے والے بازئوں کو قطع کردے گا۔
مستضعفین کا منجی عالم کی رکاب میں قیام کرنا اور ایسے میں ایٹم بموں، میزائلوں کیمائی اور زہر آلود اسلحوں کا سامنا کرنے کے لئے پہلے سے ذہنی آمادگی کی ضرورت ہے اگر ان لوگوں نے جابرانہ حکومت میں ایک عمرگذاری ہے اور کبھی ان کے دل میں خیال نہیں آیا ہے کہ وہ ایک بار عالمی مستکبرین سے نبرد آزما ہوں گے تو وہ گروہ شیطان سے مرعوب ہوجائے گا اور یہ دوسری عادت ان کے وجود میں رخنہ اندازی پیدا کردے گی اور یہ روحی کمزوری ان کے بڑھتے ہوئے قدم کی رفتار کو سست بنادے گی۔

 

 

…………………………………………………………………..

حوالہ جات
[1]  آل عمران/۱۱۰۔
[2]  ج 5، ص56، كلينى، محمد بن يعقوب‏محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق۔
[3]  ج 5، ص60، كلينى، محمد بن يعقوب‏محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق۔
[4] شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله‏،محقق / مصحح: ابراهيم، محمد ابوالفضل، مكتبة آية الله المرعشي النجفي، قم‏1404 ق‏

 

تبصرے
Loading...