حضرت امام مہدی (عج) کے چند عظیم صفات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام زمانہ (علیہ السلام)، کردار اور شخصیت کے لحاظ سے عظیم صفات کے حامل ہیں، جن میں سے ہم چار صفات کو بیان کررہے ہیں:

۱۔ اللہ کی عبادت
انبیا اور اولیائے الہی کی عظیم ترین صفتوں میں جس صفت پر قرآن کریم نے بہت توجہ دی ہے، ان کی “عبودیت” اور “بندگی” ہے۔ یہاں تک کہ کسی پیغمبر کا ذکر نہیں کیا مگر اس کا عبد اور بندہ کے عنوان سے تعارف کروایا ہے۔ امام مہدی (علیہ السلام) جو خاتم اولیاء ہیں، اللہ کے سامنے  بے حد متواضع ہیں اور عظمت الہی کے سامنے خاشع ہیں۔ خدا اور خدا کی عظمت آپ کے وجود میں جلوہگر ہے۔ ہمیشہ اللہ کا خوف دل میں لیے ہوئے ہیں اور آپ کا جو اللہ کی بارگاہ میں مقام تقرب ہے، آپ اس پر تکبر نہیں کرتے۔ آپ کی حکومت میں کسی تک نحوست نہیں پہنچے گی، مگر جہاں خدائی حد جاری ہو۔[1]

۲۔ اخلاق محمدی
قرآن کریم انبیاء منجملہ ابراہیم خلیل اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو زندگی کی تمام جہات میں “نمونہ عمل” اور “اسوہ” کے طور پر تعارف کرواتا ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بات اور کردار میں قرآن کی ایک ایک آیت کے مفسر ہیں، لہذا خلق عظیم کے حامل ہونے کے عنوان سے بھی سراہے گئے ہیں ” وَ إِنَّک َ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ “ (اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں)، حضرت امام مہدی (علیہ السلام) بھی اس عظمت، سکینہ اور وقار کے حامل ہیں۔ آپ موٹا لباس پہنتے اور سادہ روٹی کھاتے ہیں۔ آپ کا علم اور حلم سب لوگوں سے زیادہ ہے، آپ کا اسم مبارک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اسم مبارک ہے اور آپ کا اخلاق، اخلاق محمدی ہے۔[2]

۳۔ سخی اور کرم نواز
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے صفات میں سے ایک صفت، سخاوت اور دوسروں سے کریمانہ برتاو ہے۔ آپ زیارت جامعہ کبیرہ کے اس فقرہ “وَعادَتُکمُ الاِحْسانُ وَسَجِیتُکمُ الْکرَمُ” (آپ کی عادت احسان کرنا ہے اور آپ کا اخلاق کرم کرنا ہے) کو جامہ عمل پہنانے والے ہیں۔
سخاوت آپ کے زمانے میں ایک ثقافت کے عنوان سے لوگوں میں رائج ہوجائے گی، حتی روایت میں آیا ہے کہ اُس دور میں مومنین معاملات میں ایک دوسرے سے منافع نہیں لیں گے۔ امام (علیہ السلام) سخی ہیں اور سختی کے بغیر لوگوں کی ضرورت اور خواہش کو پورا کریں گے، آپ اپنی حکومت کے عملہ، کارکن اور نمائندوں کے سلسلے میں سختی کرنے والے اور گہری نظر سے دیکھنے والے ہوں گے اور ناتوان اور ضرورتمندوں پر بہت رحم کرنے والے اور مہربان ہوں گے”۔[3]
امام عصر (علیہ السلام) کی اپنے منصوبہ میں اصل بنیاد بھی تزکیہ و تعلیم پر مبنی ہے۔ مرحوم آیت اللہ طالقانی نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۳۴ کے ذیل میں فرماتے ہیں:
“ان کا کام نہ جنگ پر مبنی ہے اور نہ سرنیزہ اور جبری قوانین کی دھمکی پر۔ ان کی اصلاح کا آغاز انسانی عقول اور نفوس سے ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو نہ فوجی طاقت کرسکتی ہے اور نہ انسانوں کے قوانین، تعلیمات اور علوم۔ انسانی معلومات اور اکتشافات جس قدر ترقی پاجائیں اور وسیع ہوجائیں، اگر ان کے ساتھ ہدایت، اصلاح اور عقلی و نفسانی ترقی نہ ہو تو لوگوں کی خیر و صلاح کے لئے نہیں ہوں گی … ہدایت، عقلوں کو روشن کرنا اور ترقی کی ضروری مقدار کے ذریعہ خواہشات اور طغیانوں کی حدبندی، پہلا کام اور انقلاب ہے جو مستقبل کی اعلی شخصیت انجام دے گی اور اس کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ ترقی اور عمومی ہدایت ہے سب لوگوں کے لئے۔ دوسرا حصہ خود قرآن کی ہدایت اور حاکمیت ہے جو وہی خدا کی حاکمیت اور اس کی مشیت ہے…”۔[4]

۴۔ حکومت عدل قائم کرنے والے
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی نمایاں صفات میں سے آپ کا وسیع پیمانے پر سب جہات میں عدل ہے، اس طرح سے کہ ساری زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔ زمین کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی مگر آنحضرت کے عدل و احسان سے فیضیاب ہوتی ہوئی زندہ ہوجائے گی، حتی حیوانات اور نباتات بھی اس برکت، عدل و انصاف وغیرہ سے بہرہ ور ہوں گے۔[5]
کثیر احادیث میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ مہدوی عدالت اتنی وسیع اور گہری نظر کے ساتھ ہوگی کہ کسی پر کسی چیز میں کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ آپ کے عدل کی پہلی نشانی یہ ہے کہ آپ کی حکومت کے مقررین مکہ میں آواز لگائیں گے: “جو شخص اپنی فریضہ نماز حجرالاسود اور محل طواف کے پاس پڑھ چکا ہے اور اب نافلہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو وہ ہٹ جائے تا کہ کسی کا حق ضائع نہ ہو اور جو شخص فریضہ نماز پڑھنا چاہتا ہے وہ آکر پڑھ لے۔[6]
دور غیبت و انتظار کا بھی کچھ حصہ عصر ظہور سے زیادہ شیریں اور دلچسپ ہوسکتا ہے، اس شرط سے کہ ایمان کی تقویت، دین اور مکتب کی تعلیمات مضبوط، انقلابی اور منتظر، اللہ کی راہ میں ثابت قدم ہوں اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
برائی اور بدعت سے بچنا، نیکی کو رائج کرنا عالمی عدل کی حکومت کے منتظروں کے فرائض میں سے ہے۔ تیاری اور ضروری علوم اور مہارتیں سیکھنا اور ظہور کے شرائط کو فراہم کرنا ان دیگر منصوبوں میں سے ہے جو حکومت حق کے مشتاق لوگوں کے ذمہ ہے اور بالآخر ان کے اہم ترین اور بنیادی ترین فرائض میں سے امام زمانہ (عج) کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا ہے کہ ہماری حقیقی اور انسانی حیات اس پر منحصر ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ” من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة “۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
امام مهدی(ع) ذخیره امامت، تصنیف: صفر فلاحی۔
[1] خورشید مغرب ، به نقل از المهدی الموعود ، ج 1/280
[2] بحارالانوار ، ج 51 ، باب 4 ، ح 119
[3] خورشید مغرب ، 30
[4] آینده بشریت از نظر مکتب ما ، ص 49-50
[5] خورشید مغرب ، 33
[6] اصول کافی ، ج 4، ص427
[7] کافی، ج1، ص377

تبصرے
Loading...