اہل بیت (علیہم السلام) کی عالمی حکومت

خلاصہ: سورہ قصص کی آیات چار سے چھ تک اور نہج البلاغہ کی حکمت ۲۰۹ کی روشنی میں اہل بیت (علیہم السلام) کی عالمی حکومت کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔

اہل بیت (علیہم السلام) کی عالمی حکومت

       سوره قصص کی آیت  ۴ میں فرعون کے ظلم و ستم کا تذکرہ کرنے کے بعد آیات  پانچ اور چھ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ . وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ“، “اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔ اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون، ہامان اور ان کی فوجوں کو ان (کمزوروں) کی جانب سے وہ کچھ دکھلائیں جس سے وہ ڈرتے تھے”۔

یہ آیات ہرگز کسی زمانے سے مختص نہیں ہیں اور صرف بنی اسرائیل سے متعلق بیان نہیں کی جارہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر قانون کو بیان کررہی ہیں۔ سب زمانوں اور سب اقوام اور آبادیوں کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے: “اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں”۔
یہ خوشخبری ہے حق کی باطل پر اور ایمان کی کفر پر کامیابی کے بارے میں۔
یہ خوشخبری ہے سب حریّت پسند اور عدل و انصاف کی حکومت اور ظلم و بربریت کے زوال کے طلبگاروں انسانوں کے لئے۔
اس مشیّت الٰہی کے وقوع پذیر ہونے کی ایک مثال بنی اسرائیل کی حکومت اور فرعونیوں کی حکومت کا زوال تھا اور اس کی زیادہ مکمل مثال پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور آنحضرتؐ کے اصحاب کی اسلام کے ظاہر ہونے کے بعد حکومت تھی۔ ننگے پاؤں والے اور غریب مومن لوگ اور پاک دل مظلوم جو اپنے زمانے کے فرعونوں کے ذریعے مسلسل توہین، مذاق، دباؤ، ظلم اور ستم کا شکار تھے۔
بالآخر اللہ تعالیٰ نے اسی گروہ کے ہاتھوں، کسراؤں اور قیصروں کے محلوں کے دروازوں کو کھلوا دیا اور انہیں حکومت کے تخت سے اتار دیا اور متکبروں کی ناک کو زمین پر رگڑ دیا۔
اور اس کی “زیادہ وسیع” مثال ساری زمین پر حق اور عدالت کی حکومت کا ظہور، حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے ذریعے ہے۔
یہ ان آیات میں سے ہیں جو ایسی حکومت کے ظہور کی واضح طور پر خوشخبری دے رہی ہیں، لہذا حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کی حکمت ۲۰۹ میں ارشاد فرماتے ہیں: “لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِھَا”، “یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ کی طرف جھکتی ہے (دودھ دوہنے والے کو کاٹتی ہے تاکہ اپنے بچے کے لئے دودھ بچائے)”، اس کے بعد آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: “وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ”۔

* ماخوذ از: تفسیر نمونہ، ناصر مکارم شیرازی، ج۱۶، ص۲۹۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی۔

تبصرے
Loading...