انتظار کی حکمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن مجید، اسلام کا اہمترین منبع ہے، اس لئے اس میں اسلام کی تمام بنیادی مسائل کا ذکر ہے، لیکن تمام مسائل کا ذکر تفصیل سے نہیں کیا گیا بلکہ کئی مسئلوں کو اشارے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ان اشاروں کو معصومین(علیہم السلام) کی احادیث کی مدد سے  سمجھا جا سکتا ہیں، جن مسئلوں کو اشارہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک انتظار کا مسئلہ ہے کہ جس کے بارے میں قرآن میں اشارے کے طور پر ذکر ہوا ہے جیسے قرآن مجید کی اس آیت میں:«فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِين[سورہ یونس، آیت:۲۰] تم انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں»، محمد ابن فضیل امام رضا(علیہ السلام) سے نقل کرتے ہےکہ آپ سے  فرج کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:«أَلَيْسَ انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ‏ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِين‏؛ کیا فرج کا انتظار کرنا فرج نہیں ہے؟ خداوند عالم فرمارہا ہے: تم انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں».[۱]
اسی طرح قرآن مجید کی کئی آیات میں انتظار کے بارے میں اشارے کئے گئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، آخر انتظار میں ایسی کونسی حکمت پوشیدہ ہےکہ جس کے بارے میں اتنی فضیلت بیان کی جارہی ہے اور قرآن مجید میں بھی اسکا ذکر کیا جا رہا ہے، اسی سوال کے جواب کے طور پر آپ کے سامنے انتظار کی بعض حکمتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے تا کہ ہم انتظار کی حکمت کو سمجھیں:

۱۔ آخری زمانے میں دین پر باقی رہنا بہت مشکل ہے، اتنا مشکل ہےکہ روایات میں وارد ہوا ہےکہ اس شخص کو جو امام زمانہ( علیہ السلام) کا انتظار کررہا ہے، ایک ایسے شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کہ ہاتھ میں آگ ہو یا خار دار کانٹوں کو اپنے ہاتھ کے ذریعہ زمین سے نکالتا ہو۔[۲]
جو شخص اتنی مصیبتوں کے باوجود دین کے دامن کو تھامے رہیگا  اور اپنے زمانے کے امام کا انتظار کریگا، جو رکن دین ہے، وہ اس انتظار کے ذریعہ اپنے دین پر باقی رہیگا۔

۲۔ عقلی بنیاد پر بھی اگر دیکھا جائے تو ہر مقصد تک رسائی کے لئے وسیلے کی تلاش ضروری ہے لیکن ہر وسیلہ ایک خاص مقصد کے لئے بنایا گیا ہے، امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا انتظار، خداوند عالم سے تقرب کا وسیلہ ہے، «نحن الوسیلۃ الی اللہ»۔[۳]
امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انتظار کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور یقینا امام ہی کے ذریعہ خدا  کی بارگاہ میں تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔

۳. امام (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا انتظار کرنے والا  اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تیاری اور آمادگی کرتا ہے، مومن منتظر، ہمیشہ حکومت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے لئے حالات فراھم کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے«ویوطئون للمھدی سلطانہ»۔[۴]

۴. انتظار کرنے والا اپنے آپ کو جنگی تربیت اور مناسب اسلحہ فراھم کرنے کے ساتھ امام زمانہ کی نصرت کے لئے تیار کرتا ہے، اس سلسلہ میں امام کاظم(علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ: «جو بھی ہمارے انتظار میں گھوڑے کو تیار کرے اور اس ذریعہ سے ہمارے دشمنوں کو غضبناک کرے کیونکہ اس کی نسبت ہمارے ساتھ ہے، خدا اس کے رزق میں برکت عطا کرے گا اور اسے شرح صدر عطا کرےگا اور اسے اسکی آرزو تک پہنچائے گا اور اس کی حاجتیں پوری ہوں گی».[۵]

نتیجہ: وہ لوگ جو اپنے محبوب کے منتظر ہوتے ہیں، محبوب کی معمولی نشانی بھی ان پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے تاریخ میں موجود ہے کہ حضرت یوسف کے کرتے نے جناب یعقوب کی روح و بدن پر اثر کیا اور ان کی نابینائی، بینائی میں تبدیل ہوگئی اور ان کی روح شاد ہوگئی، اسی طرح وہ شخص جو امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا انتظار کررہا ہو، وہ ہر آن، ہرلمحہ اپنے کرداراور اخلاق کے بارے میں غور و فکر کریگا کہ کہیں اسکا کوئی عمل اپنے امام کی مخالفت میں تو انجام نہیں پایا، اور یہ انتظار کی سب سے بڑی حکمت ہے.

……………………………………………………
حوالے:
[۱]۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ، دار إحياء التراث العربي‏، ۱۴۰۳ ق‏، ج‏۵۲، ص ۱۲۸۔
[۲]۔بحار الانوار ج۵۲، ص۱۳۵۔
[۳]۔بحار الأنوار، ج۲۵، ص۲۳۔
[۴]۔بحار الأنوار، ج۵۱، ص۸۷۔
[۵]۔ محمد بن يعقوب‏ كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ق، ‏ج۶ ص ۵۳۵.

تبصرے
Loading...