امام زمانہ (علیہ السلام) کا انتظار

خلاصہ: مقالہ ھذا میں ایک حقیقی منتظر کی کیسی حالت ہونی چاہئے اور مد مقابل اسکی کیا کیا فضیلت ہے روایت کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے نیز انتظار بہترین عمل کیوں ہے اس کو بھی مختصر طور واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

امام زمانہ (علیہ السلام) کا انتظار

لفظ”انتظار“ ایسے شخص کی کیفیت پر بولا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے پریشان ہو اور اس سے بہتر کیفیت کے ایجاد کرنے میں لگا ہو ، مثلا وہ بیمار جو صحت کے انتظار میں یا وہ باپ جو سفر پر گئے ہوئے بیٹے کے انتظار میں، بیمار، بیماری پر پریشان اور دکھی ہوتا ہے اور باپ بیٹے کے فراق میں پریشان ہوتا ہے ، دونوں بہتر حالت کی کوشش میں ہوتے ہیں، اسی طرح وہ تاجر جو کاروبار کی بدحالی پر پریشان ہو اور اقتصادی بحران کے خاتمے کے انتظار میں ہو، ایسے تاجر کی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک موجودہ حالت پر پریشانی اور ناپسندیدگی اور دوسری، بہتر حالت کے لئے کوشش ۔
اس بنا پر حضرت مہدی(ع) کی عادلانہ حکومت اور عالمی مصلح کے قیام کا انتظار بھی دو عناصر کا مرکب ہے، ایک ”نفی“ کا عنصر اور دوسرا”اثبات“ کا عنصر، نفیک کا عنصر، جو مجودہ حالت سے بیزاری ہے اورمثبت عنصر بہتر اور اچھی حالت کی آرزو ہے ۔
اب اگر یہ دونوں پہلو روح انسانی میں اتر جائیں تو دو قسم کے وسیع اعمال کا سرچشمہ بن جائیں گے، ان دو قسم کے اعمال میں ایک طرف تو ظلم و فساد کے عوامل سے ہر طرح کا تعلق ترک کرنا ہے یہاں تک کہ ان سے مقابلہ اور جنگ کرنا ہے اور دوسری طرف خود سازی، اپنی مدد آپ اور عوام کی واحد عالمی حکومت کی تشکیل کے لئے جسمانی اور روحانی طور پر تیاری کرنا ہے، اور اگر ہم اچھی طرح غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس کے دونوں حصے اصلاح کن ، تربیت کنندہ اور تحرک، آگاہی اور بیداری کے عوامل ہیں ۔

حضرت سید الساجدین علی ابن الحسین نے فرمایا: ثُمَّ تَمْتَدُّ الْغَيْبَةُ بِوَلِيِّ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الثَّانِي‏ عَشَرَ مِنْ‏ أَوْصِيَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُ يَا أَبَا خَالِدٍ إِنَّ أَهْلَ زَمَانِ غَيْبَتِهِ الْقَائِلِينَ بِإِمَامَتِهِ وَ الْمُنْتَظِرِينَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ مِنْ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَ الْأَفْهَامِ وَ الْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَيْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ وَ جَعَلَهُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِينَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالسَّيْفِ أُولَئِكَ الْمُخْلَصُونَ حَقّاً وَ شِيعَتُنَا صِدْقاً وَ الدُّعَاةُ إِلَى دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ سِرّاً وَ جَهْراً “[۱] رسول خدا کے بعد بارہویں وصی کی غیبت طولانی ہوگی۔ اور اس زمانہ کے لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہوں گے تمام زمانے کے لوگوں میں سے سب سے بہتر لوگ ہوں گے۔ کیونکہ خدا وند سبحان انہیں عقل و فہم اور معرفت عطا کرے گا جس کی وجہ سے غیبت ان کے نزدیک حضور کے مانند ہوگی (یعنی حضور و غیبت میں ان کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہوگا)اور ایسے مجاہدین اور مبارزہ طلب لوگوں میں ان کا شمار ہوگا کہ جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب ہو کر تلوار سے جنگ کی ہو۔ وہ لوگ واقعی مخلص اور سچے شیعہ اور آشکار و پوشیدہ دونوں طریقہ سے دین الہی کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے۔
یقیناً “انتظار کرنے والوں ” کا راز کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ان کا س طرح کی عظیم منزلت اور بے مثال مقام کا حامل ہونا اللہ کے مقرب فرشتوں کے لئے رشک کا باعث ہے جو کچھ بھی ہے اس کی حقیقت انتظار کی طرف لوٹتی  ہے آخر انتظار کی حقیقت کیا ہے کہ اس درجہ عروج  بخش اور کمال آور ہے؟ یہ کون سی ایسی راہ ہے جس کی بلندی سے انسان کی پرواز سدرۃ المنتھی پر تمام ہوتی ہے؟
یہ شاید اس لئے ہے کہ “انتظار ” کا صحیح مفہوم کا ابھی تک ادراک نہیں ہوسکا ہے لہذا اس بات کی گنجائش ہے کہ دوبارہ اس سوال کو مزید وضاحت کے ساتھ ذکر کیا جائے کہ حقیقت میں “انتطار” کے معنی کیا ہیں؟ اس کے جواب میں کہنا چاہئے کہ کتاب و سنت سے ماخوذ بلند ترین معارف سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ” انتظار” ایک ایسی عمیق حقیقت ہے کہ ایک کلمہ یا دو جملہ سے اس کی تہہ تک نہیں پہونچا جاسکتا”انتظار” نقطہ پرکار اور ایسا منشور ہے جس کے زاویے مختلف ہیں، ایک یا دو جملے سے اس کے تمام ابعاد کو آئینہ کلام میں منعکس نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن”اگردریا کے تمام پانی کو کھینچا نہیں جا سکتا تو پیاس بجھانے کی حدتک اس سے کچھ تو لیا ہی جاسکتا ہے”۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دو معروف روایت نقل کی گئی ہے، ان دونوں کا موازنہ کرنے سے “انتظار” کی اہم خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تک پہونچا جا سکتا ہے،
” أَفْضَلُ‏ الْأَعْمَالِ‏ أَحْمَزُهَا.[۲] ” أَفْضَلُ‏ أَعْمَالِ‏ أُمَّتِي‏ انْتِظَارُ فَرَجِ اللَّهِ تَعَالَى”[۳]بہترین اعمال وہ ہیں جن میں مشقت زیادہ ہو” اور ” میری امت کا بہترین عمل فرج کا انتظار ہے” مذکورہ  دو مقدمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ” انتظار” شرعی تکالیف میں سب سے مشکل اور دشوار ترین تکلیف ہے۔ نیز اس ” انتظار” کی خصوصیت کو کشف کرنے سے منتظرین کے بے حساب جزا کا فلسفہ بھی آسان ہوجاتا ہے۔

 

 

حوالہ جات
[۱] اکمال الدین، ج/۱، ص۳۲۰۔
[۲]  بحار الانوار،ج۶۷، ص۱۹۱۔
[۳] اکمال الدین، ج/۲، ص۶۴۴۔

تبصرے
Loading...