امام زمانہ (عج) کی طولانی عمر کا فلسفہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے زمانہ میں عام طور سے لوگوں کی زندگیاں ۷۰ یا ۸۰ سال کی  ہوتی ہیں اور اگر کوئی ۱۰۰ سال پار کر جائے تو  تعجب کرتے ہیں اور ایسے سن رسیدہ کی تو شہرت ہو جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اذہان اس بات کو آسانی سے قبول نہیں کرپاتے ہیں کہ کوئی ۱۵۰ سال بھی جی سکتا ہے اور کہیں  یہ معلوم ہو جائے کہ کسی کی عمر ۱۰۰۰ سال کی ہے تو اسکو یا تو افسانہ سمجھ کہ ہنس کر ٹال دیتے ہیں یا پھر تعجب کے ساتھ ساتھ سوالوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔

کچھ اسی طرح کے تاثرات دیکھنے کو ملتے ہیں جب یہ بتایا جاتا ہے کہ خداوند متعال کی آخری حجت کی عمر 1000 سال سے بھی زیادہ ہے۔ غیر تو غیر، اپنوں کے لئے بھی یہ بات سوال برانگیز نظر آتی ہے۔،لھذا اس مضمون میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی طولانی عمر کے راز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
امام (عج) کی عمر مبارک کا حساب:
امام حجۃ ابن الحسن المھدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی ولادت باسعادت  ۲۵۵ ھجری میں ہوئی(۱) اور ۲۶۰ھجری قمری میں آپ کے والد ماجد، امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی شھادت کے وقت آپ کی عمر صرف ۵ سال کی تھی(۲).۲۶۰ھق سے ۳۲۹ تک امام عصر (عج) کی غیبت صغریٰ کا زمانہ ہے(۳) اور ۳۲۹ھق میں آب کے آخری نائب خاص کی وفات کے بعدغیبت کبریٰ کا آغاز ہوتا ہے اور آج ۱۴۳۷ ھجری قمری تک غیبت کبریٰ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حساب سے امام عصر (ارواحنا فداہ) کی عمر با برکت  ۱۱۸۲ سال ہے۔

طولانی عمر کا فلسفہ:

اگرچہ آج کے زمانہ  میں اس بات کا تصور سخت ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ طولانی عمر والے حضرات  تاریخ میں گذرے ہیں اور ماہرین علوم حیاتیات بھی حیران ہیں لیکن اس بات کا انکار نہیں کرتے (۴)اور اس بات کو محال نہیں سمجھتے،ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’حیات کی کوئی دلیل نہیں ہوتی بلکہ موت کی وجہ بیان کی جاتی ہے‘‘.لھذا طولانی عمر  پانا نہ عقلی طور سے محال ہے اور نہ عملی طور سے ۔
بعض نمونہ اور  دلائل:

(پہلی دلیل)خداوند عالم کے لیئے کوئی بات ناممکن نہیں اور اسکے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے، جسکو چاہے زندگی دے جسکو چاہے موت دے  اور جسکو جتنی زندگی دینا چاہے دے سکتا ہے۔ [يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ وَ عِنْدَهُ أُمُّ الْكِتاب] ’’اللہ جسے چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جسےچاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسکے پاس ام الکتاب ہے ‘‘(۵)
خداوند عالم جناب  یونس کے لیئے فرماتا ہے ’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے‘‘(۶)

(دوسری دلیل) تاریخ بشر میں ان گنت افراد ایسے گزرے ہیں جنکی عمریں بہت طولانی تھیں، جن میں اولایاء الٰھی بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر :

1)حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ تھی۔ کچھ کے نزدیک ۲۵۰۰ سال، بعض کیتے ہیں ۱۰۵۰ سال(۷) اور  بعض مورخین ۱۴۵۰ سال بھی کہتے ہیں(۸)۔
2)جناب خضر (علیہ السلام) تو آج بھی باذن الٰھی حیات ہیں اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی خدمت میں ہیں۔امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جناب خضر کی طولانی  عمر اس وجہ سے ہے تاکہ ان لوگوں کے لیئے جواب ہو جائے جو امام مھدی(علیہ السلام) کی طولانی عمر پر اعتراض کرتے ہیں(۹)
۳)جناب سلیمان فارسی
۴) حبابہ والبیۃ نامی پارسا خاتون نے امام علی (علیہ السلام) سے لیکر امام رضا (علیہ السلام) تک کو درک کیا ہے۔(۱۰)
 مندرجہ ذیل کتابوں میں ان لوگوں کا ذکر ہے کہ جنکی زندگیاں بہت طولانی تھیں۔
کمال الدین و تمام النعمۃ /ابن بابویہ، المعارف /ابن قتیبه، انساب الاشراف / البلاذری، کتاب المعمرین /هشام بن محمد بن سائب الکلبی،لمعمرون والوصایا / ابو حاتم سهل بن محمد سجستانی،منجم الثاقب، طبری نوری، ج ۲، باب معمّرین

(تیسری دلیل) بیشمار احادیث اور روایات اس بات پر دلالت کرتیں ہیں کہ امام عصر(علیہ السلام) کی  عمر شریف بہت طولانی ہو گی:
نمونہ کے طور پر ایک روایت پیشِ خدمت ہے:
امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ  ہمارے  قائم میں کچھ انبیاء کی سنتیں پائی جائیں گی حضرت آدم کی سنت، حضرت نوح کی سنت ۔ ۔ ۔ ۔اور حضرت نوح کی سنت یہ کہ انکی عمر  نوح کی عمر کی طرح طولانی ہوگی۔(۱۱)
مزید روایات کے لیئے دیکھئے: بحارالانوار ج ۵۱ص ۱۴۸ و۲۵۵ اور ج ۵۲ ص ۲۹۱ ،الزام الناصب ص ۸۰  اور ۸۹ ،غیبت شیخ طوسی ص ۲۶ ،منتخب الاثر ص ۲۷۶  ،بشارة الاسلام ص ۹۹۔
 

اس  مختصر سے مضمون میں اس سے زیادہ بیان کرنے کی گنجایش  نہیں ہے،البتہ علماء نے تفصیل کے ساتھ اس سوال کا جواب دیا ہے اور مزید مطالعہ کے لیئے قارئیں کرام کی خدمت میں چند بالا مذکورہ کتابوں کے نام  بھی پیش کیئے جا چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(۱)بحار الانوار،علامہ مجلسی، ج۵۱ص۳ ۔  الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏2، ص: ۳۳۹
(۲) الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏2، ص: ۳۴۰
(۴)مھدی موعود، ص :۱۴۳
(۵)سورہ رعد،آیۃ ۳۴۔ترجمہ جناب نجفی صاحب
(۶) سورہ صافات،آیۃ ۱۴۳ و ۱۴۴
(۷) الدرالمنثور فى تفسير المأثور، سيوطى جلال الدين ،  قم ، كتابخانه آية الله مرعشى نجفى ،۱۴۰۴ ق، ج۵، ص۱۴۳ 
(۸) تاريخ انبياء، رسولي محلاتي، انتشارات علميه اسلاميه ،ج۱، ۴۵۲.
(۹) أَوْجَبَ ذَلِكَ إِلَّا لِعِلَّةِ الِاسْتِدْلَالِ بِهِ عَلَى عُمُرِ الْقَائِمِ ع وَ لِيَقْطَعَ بِذَلِكَ‏ حُجَّةَ الْمُعَانِدِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ. [بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏۵۱، ص:۲۲۳]
(۱۰)کمال الدین،ترجمہ پھلوان،ج۲،ص۳۳۰
(۱۱) بحار الأنوار،علامہ مجلسی (ط – بيروت)، ج‏۵۱، ص:۲۱۷
 

تبصرے
Loading...