مبلغین کی دور غیبت میں اہم ذمہ داریاں

خلاصہ: امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ایک حدیث جس میں علماء کی زمانہ غیبت میں چند ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں کہ اگر ایسے علماء نہ ہوں تو سب لوگ اللہ کے دین سے پلٹ جائیں گے۔ اس مقالہ میں ان ذمہ داریوں کی تشریح کی گئی ہے۔

مبلغین کی دور غیبت میں اہم ذمہ داریاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دین کے مبلغین جن کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ اسلامی معارف کی اشاعت کریں، دین کو پھیلائیں اور اسلامی ضوابط پر عمل پیرا ہونے والے لوگوں کی پرورش کریں، بعض اوقات تنہائی میں خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ دور حاضر کے دھندلے اور منافقت انگیز ماحول میں جبکہ بعض لوگ صرف دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں اور دیگر بعض اپنی غلیظ دنیا کو حاصل کرنے کے لئے دینی سرحدوں کو پامال کردیتے ہیں اور شبہ ناک باتوں کی کشش، روزانہ لوگوں کو کبھی کسی اور کبھی کسی طرف کھینچی جارہی ہے، لہذا کیا کرنا چاہیے تا کہ ضروری کاموں میں سے جو زیادہ ضروری ہے اس پر توجہ دی جائے اور ہزاروں اہم کاموں میں سے جو سب سے زیادہ اہم ہے اس پر زور دیا جائے تا کہ رضائے الہی حاصل ہو، لوگ نجات پاجائیں، مبلغ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب اور حضرت ولی عصر (علیہ السلام) کی رضامند نظر کو اس پرتلاطم زندگی کی راہوں میں اپنے ساتھ ساتھ رکھے۔ مندرجہ ذیل روایت اس سلسلے میں راہنمائی کرتی ہے تا کہ مبلغ اپنے اصلی راستے کو پہچانتے ہوئے زمانہ غیبت میں کامیاب ہوجائے اور “سب سے زیادہ بافضیلت عالم” کے قیمتی مقام تک اللہ کی بارگاہ میں فائز ہوجائے۔
حضرت امام حسن عسکری، حضرت امام علی النقی (علیہما السلام) سے نقل فرماتے ہیں: 
لولا من یبقی بعد غیبة قائمنا علیه السلام من العلماء الداعین الیه والدالین علیه و الذابین عن دینه بحجج الله و المنقذین لضعفاء عبادالله من شباک ابلیس و مردته و من فخاخ النواصب لما بقی احد الا ارتدعن دین الله و لکنهم الذین یمسکون ازمة قلوب ضعفاء الشیعة کما یمسک صاحب السفینة سکانها اولئک هم الافضلون عندالله عز و جل“۔[۱]
“ہمارے قائم کی غیبت کے بعد اگر وہ علما باقی نہ رہیں جو لوگوں کو آنحضرت کی طرف بلائیں اور آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں اور آنحضرت کے دین کا خدائی دلائل کے ذریعے دفاع کریں اور اللہ کے کمزور بندوں کو شیطان اور فاسقوں کی چالوں سے اور ناصبیوں کی کمین گاہوں سے نجات دیں، تو ہر کوئی خدا کے دین سے پلٹ جائے گا لیکن یہ علما ہیں جو کمزور شیعوں کے دلوں کی لگام کو مضبوطی سے پکڑ رکھتے ہیں جیسے کشتی کا ملاح، کشتی نشینوں کو مضبوطی سے سمبھالے رکھتا ہے، صرف یہی، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں افضل ہیں”۔
امام علیہ السلام اس روایت میں گمراہی سے لوگوں کی نجات اور ہدایت کو علما کی جد و جہد پر منحصر فرماتے ہیں۔ ان علمائ کی مندرجہ ذیل صفات ہیں:
۱۔ لوگوں کو امام زمانہ (علیہ السلام) کی طرف بلاتے ہیں: یہ ایسا مسئلہ ہے جو آجکل رفتہ رفتہ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی بحثوں کی وجہ سے مدھم ہوگیا ہے اور بعض خود، آنحضرت کی یاد سے غافل ہوگئے ہیں، تو لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکارنا کجا؟۔ اگر ہم لوگوں کو آںحضرت کی طرف پکاریں اور ان لوگوں کی “منتظر” کے طور پر تربیت کریں تو ہم نے ایسا معیار قائم کردیا ہے کہ ہر آدمی اپنے کردار، گفتگو اور افکار کو اس معیار کے مطابق سلجھا دے گا۔ جو شخص انتظار کی حالت میں زندگی بسر کرے وہ اپنے آپ کو یوں سدھارے گا کہ جب آنحضرت کا ظہور ہو، آسانی سے اپنی تمام خواہشات کو نظرانداز کرتا ہوا آمادہ ہوجائے گا اور عذر و بہانے کے بغیر سپاہی بننے اور جانثاری کے اشتیاق میں پھولے نہیں سمائے گا اور سبکدوش ہوتا ہوا آنحضرت کی طرف پرواز کرکے آپ کی آواز پر لبیک کہے گا۔ اس صفات کے حامل افراد، ہرگز دھوکہ، فریب، حرام خوری، ظلم و ستم، دغابازی، شہوت پسندی اور ہوس پرستی کے جال میں نہیں پھنستے اور مختصر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ وہ شیطان کے فرمانبردار غلام نہیں بنتے۔ اس خصوصیت کے ساتھ انتظار کرنا، فائدہ مند ہے اور امت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہترین عمل شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: “افضل اعمال امتی انتظار فرج من الله عزوجل‏”[۲]، “میری امت کا بہترین عمل، اللہ کی طرف سے فرج ہونے کا انتظار کرنا ہے”۔
۲۔ جن لوگوں کو آنحضرت کی معرفت نہیں ہے، یہ افضل علما کی ذمہ داری ہے کہ انہیں آنحضرت کی طرف راہنمائی کریں۔ عالمی سطح پر نجات دینے والے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور تمام ادیان کی نظر میں متفقہ مسائل میں سے ہے۔ اسلام میں بھی نجات دینے والے کا ظہور جس کا نام مہدی ہے اور حسن کا فرزند ہے، یقینی حقائق میں سے ہے اور اہلسنت کے بہت سارے مآخذ میں یہ بات واضح طور پر بیان ہوئی ہے اور اگر اسلامی مذاہب کے درمیان کوئی شبہ ہے تو وہ مصداق کے لحاظ سے ہے۔ ہم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت زندہ ہیں اور زمین پر خدا کی حجت ہیں، لیکن دیگر اسلامی مذاہب آنحضرت کی پیدائش اور قیام کرنے کی انتظار میں ہیں۔ انہی باتوں کو واضح کرنا اور آنحضرت کی شخصیت، آپ کی مدت حیات، آپ کا شیعوں کے اعمال و کردار پر ناظر ہونا اور کائنات پر حجت خدا کے وجود کے اثر وغیرہ کے سلسلے میں گفتگو کرنا، یہ سب لوگوں کی حجت الہی کی طرف راہنمائی ہے۔
۳۔ دین کا دفاع: غیبت کے دور میں آنحضرت کے دین کا دفاع کرنا افضل علما کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ وہ خدائی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص الہی دلائل کو حاصل کرنا چاہے اور اس ذریعے سے اللہ کے دین کا دفاع کرنا چاہے تو ثقلین کے مکتب میں اسے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
۴۔ شیعوں کو فسادات سے بچانا: وہ علماء زیادہ بافضیلت ہیں جو زمانہ غیبت میں شیعوں کو شیطان اور فاسقوں کی جالوں سے بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنی پوری توانائیوں کے ذریعے فسادات اور گناہوں میں ان کے آلودہ ہونے کی روک تھام کرتے ہیں۔ چونکہ ہمدرد علماء آیات قرآن اور روایات کی بنیاد پر، فساد و بھلائی کا  اور اسی طرح مفاسد اور مصلحتوں کا فرق سمجھ سکتے ہیں، لہذا شیطان اور اسکے فاسق حامیوں کی صفوں کے مقابلے میں کھڑے ہوسکتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کی خطرناک جگہوں سے لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں تا کہ وہ شیطان کے دھوکے کے جالوں میں پھنس نہ جائیں۔
۵۔ اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں سے مقابلہ: بافضیلت ترین علما کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری، اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شرارتوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا ہے۔ اس دور میں وہابیت جو پورے زور کے ساتھ شیعہ کے مقابلہ میں کھڑی ہے، اس کی کوشش ہے کہ عالمی طاقتوں کے مقاصد کے لئے تشیع کو کمزور کردے اور مولویوں کی تعلیمات میں ایک اہم چیز جس پر بہت زور دیا جاتا ہے، شیعہ سے مخالفت ہے۔ ان کے تمام اہل سنت کی نظر میں جو خطرناک اور دھتکارے ہوئے عقائد ہیں، دنیابھر کے مختلف علاقوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جارہے ہیں اور ان کی تمام تر کوشش اہل سنت کو شیعوں سے الگ کرنا ہے تا کہ وہ ایک تو رفتہ رفتہ تشیع کے برحق معارف سے متاثر نہ ہوتے چلے جائیں اور دوسرا یہ کہ اہل سنت کا شیعوں سے مقابلہ کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے۔ اگر کسی زمانے میں اہل سنت شیعوں کے ساتھ امام بارگاہوں میں حضرت سیدالشہدا حسین بن علی (علیہما السلام) کی عزاداری کے لئے اکٹھے ہوتے تھے اور کثرت سے امام رضا (علیہ السلام) کی زیارت کے لئے مشرف ہوتے تھے تو وہابیوں کی مذموم سرگرمیوں کے تحت دو مذاہب کے اجتماع کی ان جگہوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ دن بدن ان کے درمیان تفرقہ بڑھاتے جائیں۔ وہابی تحریکوں کی بیرون ملک سے مسلسل پشت پناہی کی جاتی ہے اور وہابیوں کی طرف سے ان اہل سنت افراد کو جو شیعوں کی مجالس میں آتے ہیں، پہلے دھمکی دی جاتی ہے اور اس کے بعد بے تحاشا تعاون جو اہل سنت کے لئے بالکل سیاسی مقاصد سے بھیجا رہا ہوتا ہے، اسے بند کردیا جاتا ہے۔ اس کشمکش میں شیعہ علماء، اہل بیت (علیہم السلام) کے حتی ان فضائل کو بیان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں ذکر ہوئے ہیں اور انہوں نے محروم شیعوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کے بے رحم دشمنوں کے سامنے چھوڑ دیا ہے۔
افضل علماء ہرگز ایسے حالات کو برداشت نہیں کرتے اور شیعوں کے دلوں کی ہدایت کے لئے، عالمانہ انداز میں، مضبوط تدبیر اور پختہ ارادہ کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو سب لوگ اللہ کے دین سے پلٹ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
مقالہ ” مبلغان – آبان ۱۳۸۰، شماره ۲۲- برترین عالمان در زمان غیبت” سے ماخوذ۔
[۱] بحار الانوار، ج ۲، ص ۶، مطبوعہ بیروت.
[۲] بحارالانوار، ج ۵۲، ص ۱۲۸، ح ۲۱۔

تبصرے
Loading...