حقیقی منتظر اور صبر و بردباری

خلاصہ:بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ جیسے جیسے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا وقت ظہور قریب آتا جائے گا، آپ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے منتظرین کی مشکلات اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جائے گا، ایسے موقع پر ہادیان اسلام نے ہمیں صبر و بردباری کی دعوت دیتے ہوئے، امام کے مقدمات ظہور کو فراہم کرنے کی تاکید کی ہے۔

حقیقی منتظر اور صبر و بردباری

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی)کے منتظر کو چاہئے کہ استقامت اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کرے اور حلم و بردباری سے کام لے۔ اس روایت کی بنیاد پر کہ جو عصر غیبت کے شرائط اور ظہور سے پہلے کے حالات کے بارے میں وارد ہوئی ہیں[1] اور حوادث و واقعات کی کیفیت اور تجزیہ[2]، تاریخ کی تائید کے ساتھ اس نکتہ کو دریافت کیا جاسکتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں مذکورہ توصیف سے کہیں زیادہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی)کے سچے اور مخلص منتظرین پر دبائو پڑے گا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں پائداری کا ثبوت دینے کے لئے غیر معمولی معنوی اور روحانی قوت کی ضرورت ہے۔ لہذا منتظرین کو چاہئے کہ ہر ممکن کوشش کریں۔ اختصار کی بناء پر ہم صرف چند احادیث اور انکے ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں:”سَيَأْتِي‏ قَوْمٌ‏ مِنْ‏ بَعْدِكُمْ‏ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِنْهُمْ لَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ كُنَّا مَعَكَ بِبَدْرٍ وَ أُحُدٍ وَ حُنَيْنٍ وَ نَزَلَ فِينَا الْقُرْآنُ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَوْ تَحَمَّلُوا لِمَا حُمِّلُوا لَمْ تَصْبِرُوا صَبْرَهُم‏”
ایک دن رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ ان میں سے ہر ایک آدمی تم میں سے پچاس آدمی کے اجر کا مالک ہوگا”۔
اصحاب نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ہم لوگ آپ کے ہمراہ غزوہ بدر، احد اور حنین میں تھے اور ہمارے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں بھی نازل ہوئی ہیں، پھر کیوں ان لوگوں کو ہمارے مقابلہ میں پچاس گنا ثواب دیا جائے گا؟
حضرت نے  جواب دیا: وہ لوگ حد درجہ مشکلات (حالات) سے دوچار ہوں گے کہ اگر تمہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑا تو تحمل اور پائداری نہیں کر پائو گے، (یعنی وہ ان حالات پر اپنی ثبات قدمی اور صبر و بردباری کا مظاہرہ کریں گے لیکن تم نہیں کر پائو گے)[3]
دوسرے مقام پر امام حسن عسکری (علیہ السلام )اس طرح فرماتے ہیں: وعليك بالصبر وإنتظار الفرج، فإنّ النبيّ‏ صلى الله عليه وآله وسلم قال: «أفضل أعمال اُمّتي إنتظار الفرج». ولاتزال شيعتنا في حزن حتّى يظهر ولدي الّذي بشَّر به النبيّ‏ صلى الله عليه وآله وسلم أنّه يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما ملئت ظلماً وجوراً.
  خود  پر  صبر  کو  لازم  سمجھو  اور  فرض  و  ظہور  کا  انتظار  کرتے  رہو۔ بیشک  رسول خدا(ص)  نے  فرمایا  ہے: میری  امت کا سب سے افضل عمل، فرج و ظہور کا انتظارکرنا ہے۔ ہمیشہ میرے شیعہ  غم و اندوہ میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا، جس کے آنے کے بارے میں رسول خدا(ص) نے بشارت دی ہے اور ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔[4]
احادیث مذکور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے آخری زمانے میں ایسے حالا ت رونما ہوں گے جو ایک حقیق منتظر کے لئے کافی سخت ہوں گے اور ایسے عالم میں اس پر لازم اور ضروری ہو گا کہ وہ اس پر صبر و پائداری کا مظاہرہ کرے اور اپنے امام کے ظہور کے مقدمات کو فراہم کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1]  الإرشاد للمفيد ، ج، ۲، ص 344، مفيد،محمد بن محمد / ترجمه رسولى محلاتى‏، نشر اسلاميه‏ ،تهران‏.
[2]  بحث حول المہدی، سید محمد باقر صدر، تحقیق ڈاکٹر عبدالجبار شرارہ، ص ۱۲۷، و ۱۲۸
[3]  بحار الأنوار،ج ۵۲، ص ۱۳۰، مجلسى،محمد باقر بن محمد تقى‏، محقق / مصحح: جمعى از محققان‏،ناشر دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏ 1403 ق‏
[4] الخصال،مقدمہ ص ۲۹،ابن بابويه، ‏مترجم: فهرى زنجانى، احمد،علميه اسلاميه‏، تهران‏.

تبصرے
Loading...