انسان کی زندگی پر انتظار کا اثر

انسان کی زندگی پر انتظار کا اثر

انتظار ایک امید کا نام ہے، اور یہ امید منتظر  (جس کا انتظار کیا جارہا ہے )کے انتظار پر منحصر ہے جتنا قوی اور پر امید منتظر ہو گا اتنا ہی قوی اور پر امید انتظار کا اثر ہوگا مقالہ ھذا میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انتظار کے اثرات ایک انتظار کرنے والے پر کیا مترتب ہوں گے۔

اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ امام (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا  ایک حقیقی منتظر ہر وقت اور ہر لمحہ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اسکی اصلاح کے در پے رہتا ہے اور ساتھ ساتھ دشمن کی کمزوریوں سے استفادہ کرنے اور اسکو شکست دینے کے فراق میں بھی رہتا ہے،  اب سوال یہ  اٹھتا ہے کہ یہ تیاری کس طرح اور کس صورت میں ہو؟ اس بات کی وضاحت کے لئے یہ کہنا ضروری ہوگا کہ انتظار کرنے والے انسان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے چاہے فکری صورت ہو یا روحی، انتظام و اہتمام کا مسئلہ ہو یا عملی اقدامات ہوں۔
اس بناء پر حقیقی منتظر وہ ہے جو خود کو خداوند متعال کے نیک اور صالح بندوں کی صف میں لانے کی کوشش کرے اور زندگی کے ہر پہلو میں دین کے قوانین اور احکام کو جاری کرتے ہوئے صحیح معنوں میں دستورات دین پر عمل پیرا ہو، اپنے اور معاشرے کے لوگوں کو بھی امام ؑ کے ظہور کے لئے تیار کرے۔ حضرت امام صادق (علیہ السلام) ایک روایت میں فرماتے ہيں:” مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يَكُونَ‏ مِنْ‏ أَصْحَابِ‏ الْقَائِمِ‏ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِر”[1] جو شخص يہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے محبوں ميں سے ہو اُسے چاہئے کہ وہ ظہور حضرت امام مہدی (عج)  کا منتظر رہے اور انتظار کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ اور نيک اخلاق سے آراستہ و مزين کرے ۔
انسان میں مختلف پہلو پائے جاتے ہیں، ایک طرف تو نظری (تھیوری) اور عملی (پریکٹیکل) پہلو اس میں موجود ہے اور دوسری طرف اس میں ذاتی اور اجتماعی پہلو بھی پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے رخ سے جسمانی پہلو کے ساتھ روحی اور نفسیاتی پہلو بھی اس میں موجود ہے جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ پہلوؤں کے لئے مخصوص قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کے تحت انسان کے لئے زندگی کا صحیح راستہ کھل جائے اور منحرف اور گمراہ کن راستہ بند ہوجائے۔
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظھور کا انتظار، منتظر کے تمام پہلوؤں پر موثر ہے۔ چنانچہ ایک حقیقی منتظر اپنے وقت کے امام کا انتظار کرتا ہے تو وہ اپنے عقائد کی بھی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وقت ظہور لوگوں کے عقیدے کمزور ہوچکے ہوں گے بس انہیں کا عقیدہ مضبوط اور محکم ہو گا جو امام کے حقیقی منتظر ہوں گے ، لہذا یہی انتظار، عقائد انسان پر اثر انداز ہوں گے اور اپنی جگہ پا بر جا رہیں گے۔
حضرت امام جعفر صادق( علیہ السلام) فرماتے ہیں:” إِنَ‏ لِصَاحِبِ‏ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً الْمُتَمَسِّكُ فِيهَا بِدِينِه‏” لوگوں پر ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ہوگا،( خوش نصیب ہے )وہ شخص جو اس زمانہ میں ہمارے امر (یعنی ولایت) پر ثابت قدم رہے“۔[2]
یعنی غیبت کے زمانہ میں دشمن نے مختلف شبھات کے ذریعہ یہ کوشش کی ہے کہ شیعوں کے صحیح عقائد کو ختم کردے لیکن ہمیں انتظار کے زمانہ میں اپنے عقائد کی حفاظت کرنا چاہئے۔

انتظار

انتظار ، عملی پہلو میں انسان کے اعمال اور کردار کو راستہ دیتا ہے، ایک حقیقی منتظر  عملی میدان میں کوشش کرتا ہے کہ  امام مھدی (علیہ السلام) کی حکومت حق کا راستہ فراہم کرے،کیونکہ تحرک ہی میں برکت ہے ،اگر بیمار انسان یہ سوچ کر بیٹھ جائے کہ ڈاکٹر کی باتیں ہمیں صحت مند کر دے گی اور دوا کےلئے کوئی عملی اقدام نہ کرے، تو کیا وہ صحت مند ہو جائے گا اسی طرح ا ایک نقصان سے دوچار ہونے والا تاجر یہ سوچ کربیٹھ جائے  کہ آنے والا وقت  ہمارے نقصان کی بھر پائی کر دےگا  اور نقصان سے بچنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہ کرے تو کیا اس کے نقصان کا جبران ہو جائے گا؟ نہیں بالکل نہیں اسی طرح اگر کوئی یہ سوچ کر امام کے ظہور کا انتظار کرے کہ امام آکے اسکی اصلاح کردیں گے اور اس نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے تو ایسے شخص کی کبھی اصلاح نہیں ہوسکتی ہے اسی لئے ایک حقیقی منتظر جب زمانے کی موجودہ حالت سے کبیدہ خاطر ھوگا تو اس بات کی کوشش کرے گا کہ اپنے کو ھر قسم کے گناہ سے دور رکھے، ظلم و فساد سے کنارہ کشی اختیار کرے، جور و استبداد کے ختم کرنے کی ہر امکانی کوشش کرے۔
اس ”انتظار“ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو اپنی ذات سے بلند کرتا ہے اور اس کو معاشرہ کے ہر شخص سے جوڑ دیتا ہے یعنی انتظار نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی میں موٴثر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ میں انسان کے لئے مخصوص منصوبہ بھی پیش کرتا ہے اور معاشرہ میں مثبت قدم اٹھانے کی رغبت بھی دلاتا ہے اور چونکہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت اجتماعی حیثیت رکھتی ھے لہٰذا ہر انسان اپنے لحاظ سے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور معاشرہ میں پھیلی برائیوں کے سامنے خاموش اور بے توجہ نہ رہے کیونکہ عالمی اصلاح کرنے والے کے منتظر کو فکر و عمل کے لحاظ سے اصلاح اور خیر کے راستہ کو اپنانا چاہئے۔
مختصر یہ ہے کہ ”انتظار“ ایک ایسا مبارک چشمہ ہے جس کا آب حیات، انسان اور معاشرہ کی رگوں میں جاری ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کو الٰہی رنگ اور حیات عطا کرتا ہے اور خدائی رنگ سے بہتر اور ہمیشگی رنگ اور کونسا ہوسکتا ہے؟!
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ” صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عابِدُونَ” رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے اور ہم سب اسی کے عبادت گزار ہیں [3]۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر “مصلح کل” حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کے منتظرین کی ذمّہ داری ”الٰہی رنگ اپنانے“ کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو انتظار کی برکت سے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جلوہ گر ہوتا ہے، جس کے پیش نظر ہماری وہ ذمّہ داریاں ہمارے لئے مشکل نہیں ہوں گی بلکہ ایک خوشگوار واقعہ کے عنوان سے ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ایک بہترین معنی و مفہوم عطا کرے گی۔

حوالہ جات

[1] غیبت نعمانی، ابن أبي زينب، محمد بن ابراهيم‏ محقق / مصحح: غفارى، على اكبر،ص 200، ح 16 . نشر صدوق‏، تهران ‏1397 ق‏
[2] کافی، كلينى، محمد بن يعقوب‏محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ج 1، ص 335، ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق‏
[3] بقرہ/۱۳۸۔

تبصرے
Loading...