انتظار امام مھدی (عج) سے کیا مراد ہے ؟

انتظار ایک  روحی حالت ہے اور یہ حالت موجب بنتی  ہے کہ انسان آمادہ ہو اس چیز کے لیے کہ جسکا وہ انتظار کررھاہے اور اس کلمہ کامقابل نا امیدی ہے جتناانتظار زیادہ ھوگا اتنا انسان آمادہ ھوگا مثال کے طو

انتظار امام مھدی (عج) سے کیا مراد ہے ؟

انتظار ایک  روحی حالت ہے اور یہ حالت موجب بنتی  ہے کہ انسان آمادہ ہو اس چیز کے لیے کہ جسکا وہ انتظار کررھاہے اور اس کلمہ کامقابل نا امیدی ہے جتناانتظار زیادہ ھوگا اتنا انسان آمادہ ھوگا مثال کے طور پر انسان کے گھر کسی مہمان نے آنا ہے اور وہ اس کے انتظار میں ہے جتنازیادہ اس کے آنے کا وقت قریب ہوگا انسان کی آمادگی اس کے استقبال کے لیے زیادہ ھوگی (1)۔       
       انتظار کی مختلف منازل ہیں جتنی زیادہ آنے والے سے محبت اور دوستی ھوگی اتنی ھی زیادہ شدت انتظار ھوگی پس انتظار کی کیفیت محبت اور دوستی سے مربوط ہے جتنی زیادہ محبت اور دوستی ھوگی اتنی ھی زیادہ انسان انتظار کی راہ میں مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرے گا یہ تھی حقیقت انتظار (2) امام زمانہ(عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انتظار کی عظمت ومنزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اگر میں امام مھدی کو پالیتا تو اپنی پوری زندگی انکی خدمت میں بسر کرتا لہذا ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس عظیم ہستی کا انتظار کررہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار کے عناصر کون سے ہیں جن سے انتظار تشکیل پاتا ہے؟ منجی بشریت کا انتظار تین عناصر کے بغیر محقق نہیں ھوتا :
(۱)عنصر عقیدتی :انسان منجی کے ظہور پر ایمان کامل رکھتا ہو
(۲)عنصر نفسانی :انسان ھر وقت ظہور کے لیے آمادہ ہو
(۳)عنصر عملی وسلوکی :انتظار کرنے والا انسان اپنی استطاعت کے مطابق ظہور کے لیے زمینہ سازی کرے ۔
ان تین عناصر میں سے اگر ایک عنصر بھی نہ ہوتو انتظار حقیقی نہیں کہلائے گا
کیا مذاھب اسلامی کے نزدیک ظہور امام مھدی (عج) پر اعتقاد رکھنا واجب ہے؟ تمام مذاھب اسلامی اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مھدی(عج) کا آخری زمانہ میں ظہور کرنا امور غیبی سے ہے اور حتما انسان اس پر اعتقاد رکھتاہو ۔علماء شیعہ کے نزدیک :شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ ایک شخص مومن کا امام زمانہ (عج )پر ایمان رکھنا بغیر معرفت امام زمانہ صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی شخص کا  مھدویت پر صرف اعتقاد رکھنا اس کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچائے گا مگر یہ کہ وہ شخص امام کی شان کوپہچانتاہو اور زمان غیبت میں ان کی معرفت رکھتاہو ۔علماء اھل سنت کے نزدیک :ناصرالدین البانی لکھتاہے کہ یہ عقیدہ کہ امام زمان عج خروج کریں گے ایک عقیدہ ثابت ہے اور پیامبر اکرم سے متواتر نقل ہوا ہے کہ امام زمان عج کے خروج پر ایمان رکھنا واجب ہے کیونکہ یہ عقیدہ غیبت کے امور سے ہے اور اس پر ایمان رکھنا پرھیزگاروں کی صفات میں سے ہے ۔
عبدالمحسن بن حمدالعباد لکھتے ہیں:قضیہ مھدویت کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان رکھنا پیامبر کی رسالت کے قبول کرنے میں شامل ہے کیونکہ پیامبر پر ایمان کے آثار میں سے ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے کہ جن کی انھوں نے خبردی ہے اور غیب کی خبروں پر ایمان لانے والے کو خدا نے مومنین میں سے شمار کیا ہے (3) خلاصہ یہ کہ انسان کو اعتقادی نفسیاتی اور عملی تینوں جھات سے انتظار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے وقت کے امام کی کماحقہ معرفت حاصل کرسکے۔
………………………………………………

حوالہ جات:
(1) صبح انتظار ص310
(2) فتح مبین ص 43
(3) نسیم موعود ص 23

 

تبصرے
Loading...