امام مہدی (عج) اور حضرت زہراء (س)

چکیده:امام مہدی (عج) اور حضرت زہراء (س)

امام مہدی (عج) اور حضرت زہراء (س)

سوال :کیسے امام زمان(عج) ظهور کے بعد ان لوگوں سے جنہوں نے حضرت زہرا ء (س) کو طمانچے مارے اور امام حسین علیہ السلام کا ناحق خون بہایا، انتقام لیں گے اور وہ لوگ ابھی تک قبر کے عذاب میں مبتلا ہیں، کیسے زندہ ہونگے ؟ 

اس کے جواب کے لیے چند چیزوں کو سمجھنا ہوگا : 
الف) کون لوگ دنیا میں واپس آئیں گے ؟ 
کتب معارفِ شیعه میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ: ظهور حضرت مهدی(عج) کے بعدکچھ  خالص ترین مؤمنین اور نجس ترین کافر، اس دنیا میں واپس پلٹیں گے . اس طرح کے پلٹنے کو رَجعت کہتے ہیں  جی ہاں رجعت فقط ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان یا کفر کی بلندی پر ہو نگے ۔ [1]
ب) آیا حضرت زهرا ء(س)اور  امام حسین(ع)کے دشمنوں کے لیے  رَجعت ہے؟ 
جی ضرور کیوں نہیں ، کیونکہ اہل بیت علیھم السلام  پر ستم کرنے والے کفر اور شرک کے حقیقی مصداق ہیں اور روایات میں بھی یہی ملتا ہے کہ :جو بھی ہم اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے کفر میں شک کرے، کافر ہے ۔[2]
اب تک جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ دشمنان اہل بیت کی رجعت ہو گی اور حضرت مہدی (عج) کے ید اللہی ہاتھ سے اپنے بعض اعمال کی سزا پائیں گے ۔
متعدّد احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ :
“مدینے میں آتے ہی  پہلا کام  حضرت مهدی(عج) کا یہ ہے کہ ان دو ظالم کو قبر سے نکالیں گے جنہوں نے حضرت زہراء کا حق غصب کیا اور پھر لوگوں سے پوچھیں گے تم میں سے ہے کوئی جو ان دو کو پہچانتا ہو ؟ جواب ملے گا:ہاں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کے جد کے پاس ان دو کے علاوہ کوئی اور دفن نہیں ہے ….پھر ان دو کی قبر کو کھولیں گے اور اسی حالت میں جس حالت میں یہ دفن ہوئے تھے انہیں باہر نکالیں گے۔  امام، خدا کے اذن سے انہیں زندہ کریں گے اور ان پر لعنت کریں گے اور وہ اپنے کئے ہوئے گناہوں کا اعتراف کریں گے، اگر کوی ایک دانہ کے برابر بھی ان سے محبت کرتا ہو گا وہ وہاں ظاہر ہو جائے گی، پھر امام علیہ السلام اجازت فرمائیں گے اور جتنے لوگ وہاں موجود ہونگے وہ قصاص لیں گے. پھر امام حکم دیں گے اور زمین سے آگ نکلے گی یہ آگ وہی آگ ہو  گی جو حضرت زہراء (س) کے گھر پر جلائی گئی تھی وہ لکڑیاں اور آگ ان کو جلائے گی یہاں تک کہ یہ راکھ میں بدل جائیں گے پھر ہوا کو حکم ہو گا کہ انہیں  جدا جدا دریا میں ڈال دو ۔
ہاں یہ گمان نہ ہو کہ ان کا یہ آخری عذاب ہو گا، نہیں بلکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
خدا کی قسم  “سیّداکبر” رسول خدا(ص) اور “صدّیق اکبر” امیرالمؤمنین علی و حضرت فاطمه و امام حسن و امام حسین و بقیّة ائمه هُدی(علیہم السلام) اور تمام مؤمنین وہاں پر آئیں گے اور ایک ایک کر کے قصاص لیں گے اور اس طرح یہ لوگ ہزاروں مرتبہ زندہ ہونگے اور پھر مارے جائیں گے۔[3]
ج)وہ جب قبر کے عذاب میں ہیں تو پھر رجعت میں عذاب کیسا؟ 
حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسا سوچتے ہیں کہ حضرت زہرا ء (س) کو تمانچے مارنا اور انہیں شہید کرنا اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام کو تو اس کا گناہ بھی اتنا ہی ہے بلکہ ایسا نہیں ہے جیسے جیسے مظالم حضرت زہراء(س) پر ہوئے ان مظالم کی گہرائی پر پہنچنا یا سمجھنا ہمارے بس کا کام نہیں، یہ تو بس خدا اور خدا کے بھیجے ہوئے رسول (ص) اور ائمہ (ع) ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ 
حضرت امام محمد باقر(ع) اس سوال کا جواب یوں فرماتے ہیں : 
“وہ دو پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمارے اوپر ظلم کیا اور ہمارے حق کو پامال کیا اور یہ ظلم جو انہوں نے کیا، یہ قیامت تک کا ظلم ہے یعنی قیامت تک جتنا ظلم اہل بیت (ع) کے حق میں ہو گا اس کا سبب یہ دو لوگ ہیں ۔پھر فرمایا خدایا یہ جو ظلم ہمارے حق میں ہوا ہے، وہ ظلم کرنے والوں کو کبھی معاف نہ کرنا ۔ [4]
ایک اور جگہ یوں فرمایا:وہ طمانچہ جو دوسرے کے نجس ہاتھ سے میری ماں کے چہرے پر پڑا اسکی کوئی انتہا نہیں  ۔[5]
امام علیہ السلام کے کلام سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جتنے بھی ظلم ہوئے آج تک ان سب کی جڑ یہ دو لوگ ہیں ۔چاہے کربلا کے دردناک مظالم ہوں یا پھر آج تک ان کے ماننے والوں پر ہو رہے ہیں، ان سب کے ذمہدار وہی دو لوگ ہیں ۔
 حضرت امام جعفر صادق(ع) ارشاد فرماتے ہیں : 
“قیامت تک ہر وہ خون جو نا حق بہایا جائے گا ، ہر وہ مال جو حرام طریقے سے لیا جائے ،ہر زنا جو انجام دیا  جائے گا، ان سب کے ذمہدار یہ دو لوگ ہیں ۔
یہاں تک کہ قائم آل محمد (ص)ظہور فرمائیں اور آکر ان کو روکیں اور ہم بنی ہاشم کو چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے سب کو حکم دیتے ہیں کہ ان پر لعنت کریں اور ان سے دشمنی کا اظہار کرتے رہیں ۔[6]

نتیجہ:اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے گناہ ایک دو نہیں ہیں بلکہ ان کے گناہ لا تعداد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فقط رجعت کی قصاص کافی نہیں ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع

[1] انما یرجع الی الدنیا قیام القائم(ع) من محض الأیمان محضا او محض الکفر محضا. فاما من یَسوی هذین فلا رجوع لهم الی یوم الحساب. بحارالانوار، ج 6، ص 254، ب 8، ح 87؛ بحارالانوار، ج 53، ص 138. 
[2] بحار، ج 27، ص 62؛ وسایل الشیعه، ج 28، ص 345؛ اعتقادات شیخ صدوق(ره) 80ـ79. 
[3] ر.ک: احتجاج 449، اِعلام الوری 436، عیون ج 1، ص 58، کمال الدین 253ـ377، الهدایة الکبری، 163، مثالب النواصب، 113، ارشاد القلوب ج2، ص 285، الایقاظ 287،‌ بحار 252ـ386، بحار ج 3، ص 277ـ276، و ج 36، ص 245، ج 52، ص 379 و 283، ج 53، ص 12ـ4. 
[4] بحار 30/ 383. 
[5] کتاب «شهادت مادرم زهرا(س) افسانه نہیں۔
[6] بحار ج 47، ص 323، رِجال کَشّی، ص 206. 

تبصرے
Loading...