امام زمانہ کی بشارت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی زبانی

خلاصہ: امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے بارے میں مختلف نشانیاں بیان کی ہیں جن میں سے کچھ اس مضمون میں پیش کی جارہی ہیں۔

امام زمانہ کی بشارت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی زبانی

     ابو الادیان کہتے ہیں: میں امام عسکری(علیہ السلام) کی خدمت می کام کرتا تھا اور میرا کام یہ تھا کہ میں ان کے خطوط کو دوسرے شھروں تک پہنچاتا تھا اور وہاں سے جو بھی جواب ملتا ہے وہ امام تک پہنچاتا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ میرے امام شدید مریض ہو گئے اور جب میں ان سے ملنے گیا تو انہیں بستر بیماری پر دیکھا تو انہوں نے پھر بھی کچھ خط لکھے اور مجھے دیے اور فرمایا: اے ابوالادیان ان خطوں کو مدائن لے جاؤ اور اس سفر میں تمہارے چودہ دن لگیں گے اور تم پندرویں دن سامرا پہنچو گے اور میرے گھر کی طرف آؤ گے تو تمہیں گریہ و زاری کی آوازیں سنائی دینگی اور غسل کے لیے لے جایا جا رہا ہوگا۔
ابو الادیان کہتے ہیں: میں نے عرض کی مولا اگر ایسا ہے  تو آپ کے بعد ہمارے امام کون ہوں گے؟
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: جو تم سے میرے خطوں کا جواب مانگے وہ میرے بعد تمہارا امام ہوگا۔
ابو الادیان کہتے ہیں: میں نے کہا کہ مولا کچھ اور نشانیاں بتائیں۔
امام(علیہ السلام)نے فرمایا: جو میری نماز جنازہ پڑھائے وہ میرے بعد تمہارا امام ہوگا۔
ابو الادیان کہتے ہیں: میں نے عرض کی کہ کیا کوئی اور نشانی بھی ہے؟
امام(علیہ السلام)نے فرمایا: جو بھی اس تھیلی کے بارے میں تمہیں بتائے وہ میرے بعد تمہارا امام ہوگا۔
ابو الادیان کہتے ہیں کہ مجھے امام (علیہ السلام) کے چہرے پے جلال نظر آیا اور میں ڈر کے مارے نہ پوچھ سکا کہ مولا اس تھیلے میں آخر کیا ہے۔
ابو الادیان کہتے ہیں: میں نے وہ خط لیے اور خاموشی سے وہاں سے مدائن کی طرف چل پڑا، اور جیسے ہی مجھے جواب ملے تو میں نے سامرا کی طرف حرکت کی اور اپنے امام کے قول کے مطابق جب میں سامرا پہنچا تو میرا، سفر میں پندرھواں دن تھا اور سامرا آتے ہی میں نے امام (علیہ السلام) کے گھر کی طرف رخ کیا اور جیسے ہی گھر کے قریب پہنچا تو گھر سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں اور سامرا کے شیعہ انہیں غسل کے لیے لے جارہے تھے اور غسل کے بعد میں نے دیکھا کہ جعفر کہ جو بھائی تھے امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے، لوگ ان کے ارد گرد جمع ہیں اور انہیں تسلیت کہہ رہے ہیں اور لوگ انہیں امامت کی مبارک بھی دے رہے تھے یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے خود سے کہا کہ یہ امامت تو باطل ہے کیوں کہ میں یہ بھی جانتا تھا کہ جعفر شراب بھی پیتا ہے اور قمار بازی بھی کرتا ہے، خیر میں بھی جعفر کے پاس گیا اور اسے تسلیت پیش کی اور دیکھا کہ اس نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، اور اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے جعفر تمہارے بھائی کو کفن پہنا دیا ہے آؤ اور اس پر نماز پڑھو اور جعفر بھی نماز کے لیے اٹھا اور اس کے ساتھ جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اٹھے۔ اور سب لوگ گھر کے صحن میں جمع ہو گئے، جنازے کو لایا گیا اور جعفر آگے تاکہ نماز پڑھائیں اور جیسے یہ چاہا کہ اللہ اکبر کہیں تو ایک بچہ آگے بڑھا اور جعفر کی ردا کو ہلایا اور کہا کہ اے چچا! مجھ پر واجب ہے کہ میں بابا کی نماز پڑھاؤں، پیچھے ہٹو، میں نے دیکھا کہ جعفر کا چہرہ زرد ہو گیا اور وہ پیچھے ہٹ گیا اور اس بچے نے آگے بڑھ کے نماز پڑھائی اور پھر کہا کہ انہیں اپنے بابا کے ساتھ دفن کردیں۔
پھر اس بچے نے کہا: اے بصری! خطوں کا جواب لے آؤ، میں نے خود سے کہا کہ دو نشانیاں تو مل رہی ہیں، میں نے وہ جواب انہیں دے دئے اس کے بعد میں جعفر کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ بہت رو رہا ہے میں نے اس سے سوال کیا کہ اے جعفر یہ بچہ کون ہے؟ جعفر نے جواب میں کہا: خدا کی قسم میں نے آج تک اسے نہیں دیکھا تھا اور میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، اتنے میں کچھ لوگ قم سے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام ) کے بعد امام کون ہیں تو لوگوں نے انہیں جعفر کے پاس بھیجا تھا ان لوگوں نے آکر جعفر کو سلام کیا اور پوچھا کہ بتاؤ ان خطوں میں کیا لکھا ہے اور اس تھیلے میں کیا ہے تو جعفر غصے میں آگیا اور کہا کہ تم مجھ سے علم غیب کے سوال کرتے ہو؟
اتنے میں، میں نے دیکھا کہ ایک شخص گھر سے باہر آیا اور کہا کہ میرے مولا کہہ رہے ہیں کہ یہ خط اس اس شخص کا ہے اور اس  میں یہ یہ لکھا ہے اور اس تھیلے میں ایک ہزار اشرفی ہے، یہ سن کر سب حیران رہ گئے اور قم سے آئے ہوئے لوگوں نے کہا کہ ہاں یہ ہمارے امام ہیں کہ جنہوں نے سچ کہا ہے۔ ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں اور اس جگہ پر میں بھی کھڑا ہو گیا اور میں نے بھی اپنا پورا ماجرا ذکر کیا کہ مجھے بھی امام (علیہ السلام) نے یہ نشانیاں بتائی تھیں۔‏
نتیجہ
تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ ہر امام نے اپنے بعد والے امام کی نشان دھی کی ہے اور اسی طرح امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے بھی مختلف لوگوں کو اپنے بعد آنے والے امام کے بارے بتایا تھا اور ان میں سے ایک واقعہ کو ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔
………………………………
حوالہ:
کمال الدین و تمام النعمة، ج ‏2، ص 474 – 476.

تبصرے
Loading...