امام زمانہ امام علی کی نگاہ میں

امام زمانہ امام علی کی نگاہ میں

امام زمانہ کے حقیقی منتظرین کی ایک خصوصیت خود امام کی معرفت ہے اگرچہ ہرزمانے کے امام کی معرفت ہرفرد پر واجب ہے۔ .  لیکن جو چیز سبب بنتی ہے کہ آخری امام ،امام مھدی عج کی معرفت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ ان کی خاص شرائط ہیں جیسے امام کی ولادت کا مخفی ہونا ،مخفی طورپر زندگی گزارنا اور سخت امتحان وغیرہ حقیقی منتظرین جو درحقیقت ظہور کے وقت امام کے سپاہی ہونگے اپنے امام کی معرفت رکھتے ہیں اور ان کے پورے وجود میں اس معرفت کی جھلک نظر آتی ہے بہت ساری روایات میں آیا ہے (من‏ مات‏ و لم‏ يعرف‏ إمام‏ زمانه‏ مات‏ ميتة جاهلية[1]

اپنے وقت کے امام کی معرفت رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ امام معصوم کے بغیر انسان کے لئے صحیح ہدایت اور کمال میسر نہیں ہوسکتا. علاوہ ازیں نظام کائنات کا وجود اور دوام خداوند متعال کی حجتوں کی برکت سے ہے. اس حقیقت پر رسول اللہ (ص) اور ائمۂ طاہرین (ع) کی روایات میں متعدد بار تصریح و تاکید ہوئی ہے۔

اپنے وقت کے امام کو پہنچاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ روز قیامت  انسان کے اعمال بعد میں دیکھے جائیں گے لیکن اسکے قائد اور امام کو پہلے دیکھا جائے گا اسی اعتبار سے اس کو سزا یا جزا دی جائے گی چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ : ” يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِ “[2] ہم ہر انسان کو اسکے امام کے ساتھ محشور کریں گے ۔

البتہ امام کی موجودگی کی کیفیت حالات پر منحصر ہے؛ کبھی تو حالات کسی حد تک سازگار ہوتے ہیں اور امام معاشرے میں اعلانیہ طور پر حاضر ہوتے ہیں اور لوگ بھی انہیں پہچانتے ہیں اور امام لوگوں کی دسترس میں ہوتے ہیں اور لوگوں کی بیچ رہتے ہیں مگر بعض حالات میں امام (ع) کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے یا ان مصلحتوں کی بنا پر ـ جو صرف خدا کے علم میں ہوتے ہیں ـ مشیت الہی کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوکر رہتے ہیں. اس حوالے سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں. اس موضوع سے بیشتر آگہی کے لئے امام علی (ع) کی دو حدیثیں نقل کی جارہی ہیں:

* عن على علیه السلام قال: اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِأَرْضِكَ مِنْ‏ حُجَّةٍ لَكَ‏ عَلَى‏ خَلْقِكَ‏ يَهْدِيهِمْ‏ إِلَى دِينِكَ وَ يُعَلِّمُهُمْ عِلْمَكَ لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَّتُكَ وَ لَا يَضِلَّ أَتْبَاعُ أَوْلِيَائِكَ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَهُمْ بِهِ إِمَّا ظَاهِرٍ لَيْسَ بِالْمُطَاعِ أَوْ مُكْتَتِمٍ مُتَرَقِّبٍ إِنْ غَابَ عَنِ النَّاسِ شَخْصُهُ فِي حَالِ هِدَايَتِهِمْ فَإِنَّ عِلْمَهُ وَ آدَابَهُ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ مُثْبَتَةٌ فَهُمْ بِهَا عَامِلُون‏۔ [3]

امیرالمؤمنین علی (ع) بارگاہ الہی میں دست بدعا ہوکر فرماتے ہیں: بارخدایا! تیری زمین کے لئے ہر وقت ضرورت ہے کہ روئے زمین پر تیرے بندوں کے اوپر تیری حجت ہو جو لوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت و راہنمائی فراہم کردے اور لوگوں کو تیرے علم کی تعلیم دیا کرے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہو اور تیرے اولیاء کے پیروکار ـ تیری طرف سے ہدایت پانے کے بعد ـ گمراہی اور ضلالت سے بچے رہیں. تیری حجت یا تو ظاہر و آشکار ہے جبکہ لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے یا پھر آنکھوں سے اوجھل ہے اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں. گوکہ لوگوں کی ہدایت ہی کی حالت میں اس کا جسم اور ظاہری وجود لوگوں سے اوجھل اور غائب ہے مگر اس کا علم اور اس کے آداب مؤمنین کے قلوب میں برقرار اور استوار ہوتے ہیں اور وہ اس علم اور ان آداب پر عمل پیرا ہوتے ہیں.

اللّهم بلى لا تخلو الارض من قائم لِلّه بحجّةٍ: امّا ظاهراً مشهوراً و امّا خائفاً مَغموراً لئلا تبطُلَ حجج اللّه و بیناته و كم ذا و أین؟ اولئك واللّهِ الاقلّون عدداً و الاعظمون عنداللّه قدراً یحفظُ اللّه بهم حُججه و بیناته… اولئك خلفاء اللّه فى ارضهِ و الدعاةِ الى دینهِ.[4]

… بارخدایا! بےشک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امام سے خالی نہیں رہتی؛ وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں؛ تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنى دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں. اور یہ کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خدا کی قسم ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک بہت عظیم ہے؛ خدا ان کے ذریعے اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے. وہ روئے زمین پر خدا کے جانشین اور نمائندے ہیں اور لوگوں کو دین اور خدا کے احکام و قوانین کی طرف بلاتے ہیں…

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

 

[1] الوافی، ج۲، ص۱۲0۔

[2] الاسراء/71۔

[3] کمال الدین و اتمام النعمۃ، ج۱، ص302۔

[4] الغارات، ج۱، ص91۔

تبصرے
Loading...