حضرت على (ع) كار و عمل
حضرت على (ع) كو جب بسر بن ارطاة كے بزدلانہ حملوں كا علم ہوا تو آپ(ع) نے لوگوں كواس مقابلہ كرنے كى دعوت دى اور فرمايا: كہ مجھے اطلاع ملى ہے كہ بسر نے يمن پر قبضہ كرليا ہے خدا شاہد ہے كہ مجھے اس بات كا علم تھا كہ يہ لوگ جلد ہى تم پر غالب آجائيں گے جس كى وجہ يہ ہے كہ وہ باطل پر تو ہيں مگر يكجا ہيں اس كے برعكس تم حق پر ہو مگر منتشر و پراگندہ_ تمہارے رہبر و پيشوا نے تمہيں راہ حق پر چلنے كے لئے كہا مگر تم نے نافرمانى كى وہ آج باطل پر ہيں مگر اپنے سردار كے مطيع و فرمانبردار ہيں_
وہ اپنے رہبر كے ساتھ امانت دارى سے كام ليتے ہيں اور تم خيانت كرتے ہو وہ اپنے شہروں ميں اصلاح كے كام كر رہے ہيں اور تم فساد بپا كئے ہوئے ہو ميں تمہارے پاس اگر قدح ( پيالہ ) بھى بطور امانت ركھوں تو اس بات كا احتمال ہے كہ اس كے گرد كوئي ڈورى بندھى ہوئي ہو تو وہ بھى چرالى جائے گي_
اہل كوفہ نے پہلے كى طرح اب بھى حضرت على (ع) كے فرمان پر اپنى سرد مہرى دكھائي كچھ عرصہ گزرجانے كے بعد آپ نے ايك ہزار افراد پر مشتمل لشكر جاريہ بن قدّامہ كى زير فرماندارى ترتيب ديا جسے ساتھ لے كر جاريہ بصرہ كى طرف روانہ ہوئے حجاز كے راستے سے وہ يمن پہنچے بسر كو يہ اطلاع مل چكى تھى كہ جاريہ كا لشكر حركت ميں ہے چنانچہ اس نے يمامہ كى سمت كو ترك كر كے اپنا رخ دوسرى طرف موڑليا جاريہ منزلگاہ پر اترے بڑى تيزى كے ساتھ ان كا تعاقب كرنے كے لئے روانہ ہوگئے بسر ان كے خوف سے كبھى ايك طرف فرار كرجاتا اور كبھى دوسرى جانب يہاں تك كہ وہ حضرت على (ع) كى قلمرو و حكومت سے باہر چلاگيا لوگوں نے جب اسطرح فرار ہوتے ہوئے انہيں ديكھا تو اچانك ان پر حملہ كرديا جاريہ كے خوف نے اس كو ايسا سراسيمہ و وحشت زدہ كيا كہ اس كو نہ تو تحفظ و دفاع كا ہوش رہا اور نہ ہى اس مال كو وہ اپنے ساتھ لے سكا جسے اس نے قتل و غارتگرى سے جمع كيا تھا بسر كا مقابلہ كئے بغير جاريہ واپس كوفہ تشريف لے آئے