شہادت

شہادت

اميرالمومنين حضرت على (ع) مسجد ميں تشريف لائے جو لوگ محو خواب تھے انھيں بيدار كيا كہ خداوند تعالى كى عبادت و مناجات ميں مشغول ہوں آپ(ع) نے ابن ملجم كو بھى بيدار كيا وہ تو اول شب سے ہى آپ(ع) كى آمد كا منتظر تھا ا وراس وقت خود كو سوتا ہوا بناليا تھا اس كے بعدآپ(ع) نماز ادا كرنے كيلئے كھڑے ہوئے اور قلب و زبان كو ذكر خدا ميں مشغول كرديا_

اس وقت شبيب نے چاہا كہ آپ (ع) پر تلوار سے وار كرے مگر اس كى تلوار محراب مسجد نے ٹكرا كر رہ گئي ابن ملجم تباہ كار جلدى سے آگے آيا اس نے اپنى تلوار اوپر اٹھائي اور باواز بلند كہا ”الحكم للہ لا لك يا على و لا لاصحابك” يہ كہہ كر اس نے حضرت على (ع) كے سر مبارك پر اپنى تلوار اٹھائي جو ٹھيك اسى جگہ لگى جہاں جنگ خندق ميں عمرو بن عبدود” كى تلوار آپ كے سرمبارك پر لگ چكى تھى حق و عدل كا وہ پيكر جو صريح و واضح كفر اور الحاد كے ضربات سے زمين پر نہيں گرسكا تھا آج نفاق اور جہل و تعصب آميز ظاہرى تقدس كے ايك ہى وار سے خاك و خون ميں لوٹنے لگا حضرت على (ع) نے جيسے ہى ضرب شمشير كو محسوس كيا فرمايا: ” فزت و رب الكعبہ”  قسم كعبہ كے خدا كى آج ميں نے كاميابى حاصل كي_

آپ (ع) كے فرزندوں اور اصحاب پر تو گويا غم و اندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہر طرف سے گريہ و نالہ اور آہ و بكا كى صدائيں سنائي دينے لگيں لوگ سراسيمگى كى حالت ميں مسجد كى جانب دوڑے_

حضرت على (ع) كا سرمبارك حضرت امام حسن (ع) كى آغوش ميں تھا جس سے مسلسل خون جارى تھا زخم كى شدت اور بہت زيادہ خون بہہ جانے كى وجہ سے آپ (ع) اب تك بے ہوشى كى حالت ميں تھے ابن ملجم بھى پكڑا گيا اور اسے حضرت امام حسن (ع) كى خدمت ميں پيش كيا گيا حضرت مجتبى (ع) نے اس سے فرمايا اے ملعون تو نے پيشوائے مسلمين حضرت على (ع) كو قتل كرديا كيا نيكى اور خير خواہى كا بدلہ يہى ہے تو وہى شخص ہے جسے خليفہ وقت نے پناہ دى اور اپنا مقرب بنايا؟

اس كے بعد آپ (ع) نے والد محترم كى خدمت ميں عرض كيا بابا جان يہ آپ كا اور خدا كا دشمن بحمداللہ گرفتار كرليا گيا ہے وہ اس وقت آپ كے روبرو حاضر ہے_

حضرت على (ع) نے چشم مبارك كو كھولا اور فرمايا كہ تو بہت عظيم سانحہ كا مرتكب ہوا ہے اور تو نے نہايت ہى خطرناك كام كيا ہے كيا ميں تيرے لئے برا امام ثابت ہوا؟ ايسى كون سى مہربانى اور بخشش تھى جو ميں نے تيرے حق ميں روانہ ركھى كيا لطف و مہربانى كا يہى بدلہ وصلہ ہے؟اس كے بعد آپ(ع) نے حضرت امام حسن (ع) سے فرمايا كہ اے فرزند عزيز اپنے اس قيدى كے ساتھ خاطر و مدارات كا سلوك كرنا اور اس كے ساتھ مہربانى و نوازش سے پيش آنا_

جو كچھ تم كھاؤ اور پيو وہى تم اسے كھلانا اور پلانا اگر ميں مرجاؤں توميرے خون كے قصاص ميں اسے قتل كردينا مگر اس كے ناك، كان نہ كاٹنا كيونكہ ميں نے پيغمبر اكرم(ص) كى زبان مبارك سے سنا ہے كہ اس كتے كے بھى ناك كان نہ كاٹو جس نے تمہيں كاٹا ہے اور اگر ميں بچ گيا تو ميں ہى جانتا ہوں كہ اس كے ساتھ كيا سلوك كروں گا اسے معاف كردينے ميں مجھے سب پر فضيلت حاصل ہے كيونكہ ہمارا خاندان وہ خاندان ہے جس نے بڑے بڑے گناہگاروں كو معاف كيا اور ان كے ساتھ ہم بزرگوارى كے ساتھ پيش آتے ہيں

حضرت امام حسن (ع) اپنے والد بزرگوار كو گھر لے آئے لوگ گريہ و نالہ كرتے اور آپ سے رخصت ہوتے عجب كہرام كا عالم تھا لگتا تھا كہ غمگساروں كى جان كھينچ كرلبوں پر آگئي ہے_

حضرت امام مجتبى (ع) نے بعض اطبا كو جن ميں اثير بن عمرو سكونى سب سے زيادہ ماہر و حازق طبيب تھے علاج كے لئے بلايا انہوں نے كہا كہ بھيڑ كا تازہ جگر لاؤ اس كى ايك رگ انہوں نے حضرت على (ع) كے زخم كے اندر ركھى اور اسے باہر نكال ليا انہوں نے ديكھا كہ مغز كى سفيدى اس رگ پر لگ گئي ہے اور دم شمشير كى ضرب نے دماغ تك اثر كيا ہے يہ ديكھ كر اس طبيب نے كہا ” يا اميرالمومنين اگر كوئي وصيت كرنا چاہيں تو كرديجئے”اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے فرزندوں كو اخلاق حسنہ كى وصيت فرمائي اپنى زندگى كے قابل قدر و قيمت درس انھيں اور تمام مسلمين كو ديئے _ امور خلافت اپنے فرزند محترم امام حسن (ع) كو تفويض كيئے اور اس كا گواہ اپنے فرزندوں اور بزرگان خاندان كو بنايا كلام مجيد اور اپنا اسلحہ آپ كى تحويل ميں ديا_

جب حضرت على (ع) اپنے فرزندوں كو پند ونصائح كرچكے تو آپ(ع) نے موت كى علامات محسوس كيں اس كے بعد آپ قرآن پاك كى تلاوت ميں مشغول ہوگئے آخرى آيت جوآپ كى زبان مبارك پر آئي وہ يہ تھي_

فمن يعمل مثقال ذرة خير ايرہ و من يعمل مثقال ذرة شر ايرہ

پھر جس نے ذرہ برابر نيكى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدى كى ہوگى وہ اس كو ديكھ لے گا

بتاريخ 21 رمضان 40 ھ اس وقت جب كہ آپ كاسن شريف تريسٹھ برس كا تھا آپ كى روح مقدس و مطہر اس جہان فانى سے پرواز كر كے عالم جاودانى كى جانب عروج كرگئي_

حضرت امام حسن (ع) نے اپنے ديگر بھائيوں اور حضرت على (ع) كے اصحاب كى مدد سے اپنے شہيد والد محترم كى تجہيز كا انتظام كيا غسل و كفن كے بعد جب كچھ رات گذر گئي تو اس پيكر مقدس كو كوفہ سے باہر لے آئے تمام راستہ جنازے كے پيچھے رہ كر طے كيا اور جنازہ اس جگہ لايا گيا جو آج نجف اشرف كے نام سے مشہور و معروف ہے نماز جنازہ ادا كرنے كے بعد انتہايى خاموشى كے ساتھ اس پيكر تقدس كو سپرد خاك كردياسلام عليہ يوم ولد و يوم استشہد و يوم يبعث حيا

سلام ہو آپ پر جس دن آپ كى ولادت ہوئي اور جس دن شہيد كئے گئے اور جس دن زندہ اٹھائے جائيں گے 

تبصرے
Loading...